Urdu Deccan

Friday, December 23, 2022

رفیق صدیقی

یوم پیدائش 20 دسمبر 1953

فضا میں اڑتی ہیں سازش کی کرچیاں ہرسو
تم ایک پل کے لیے بھی نہ بے خبر رہنا

رفیق صدیقی 
 

کلیم حاذق

یوم پیدائش 20 دسمبر 1961

ہم ترے وصل کی ہر بات بتانے سے رہے
پر رقیبوں سے ترے بھید چھپانے سے رہے

کیسا قصہ تھا کہ سنتے ہی اسے نیند آئی
وہ جو سویا تو پھر ہم اس کو جگانے سے رہے

ہم نبھائیں تو بھلا کس طرح دنیا داری
دل کسی سے تو کہیں ہاتھ ملانے سے رہے

رات کٹتی نہیں اور قصہء شب ختم ہوا
چلئے کچھ روز یہ سورج بھی ٹھکانے سے رہے

مشکلوں میں اسے دیتے جو صدائیں دل سے
غیر ممکن ہے وہ بندوں کو بچانے سے رہے 

کلیم حاذق


 

رام بھگوان داس

یوم پیدائش 20 دسمبر 1942

جمالِ دو عالم تری ذاتِ عالی​
دو عالم کی رونق تری خوش جمالی​

خدا کا جو نائب ہوا ہے یہ انسان​
یہ سب کچھ ہے تری ستودہ خخصالی

تو فیاضِ عالم ہے دانائے اعظم​
مبارک ترے در کا ہر اِک سوالی​

نگاہِ کرم ہو نواسوں کا صدقہ​
ترے در پہ آیا ہوں بن کے سوالی ​

میں جلوے کا طالب ہوں ، اے جان عالم!​
دکھادے ،دکھادے وہ شانِ جمالی ​

ترے آستانہ پہ میں جان دوں گا ​
نہ جاوٗں ، نہ جاوٗں ، نہ جاوٗں گا خالی ​

تجھے واسطہ حضرتِ فاطمہ کا​
میری لاج رکھ لے دو عالم کے والی ​

نہ مایوس ہونا یہ کہتا ہے بھگوان ​
کہ جودِ محمد ہے سب سے نرالی

رام بھگوان داس



فرزانہ پروین

یوم پیدائش 19 دسمبر 

پانے کا ذکر کیا کہ گنوانا بہت ہوا
دل اس کی بے رخی کا نشانہ بہت ہوا

خوابوں کی گٹھری لاد کے کب تک جئیں گے ہم
پلکوں پہ ان کا بار اٹھانا بہت ہوا

ہوتا ہے درد، جب کبھی آ جائے اس کا ذکر
گو زخمِ دل ہمارا پرانا بہت ہوا

مجھ کو نہیں قبول تمہارا کوئی جواز
اب روز روز کا یہ بہانہ بہت ہوا

اوروں کے درد و غم کا پتا چل گیا ہے نا
اب تو ہنسو کہ رونا رلانا بہت ہوا

تعبیر چاہیے مجھے، تدبیر کیجئے
آنکھوں کو خواب واب دکھانا بہت ہوا

فرزاؔنہ کوئی بات غزل میں نئی کہو
ذکرِ وصال و ہجر پرانا بہت ہوا

فرزانہ پروین



سید صغیر صفی

یوم پیدائش 18 دسمبر 1983

کیا بھروسہ ہے انہیں چھوڑ کے لاچار نہ جا 
بن ترے مر ہی نہ جائیں ترے بیمار نہ جا 

مجھ کو روکا تھا سبھی نے کہ ترے کوچے میں 
جو بھی جاتا ہے وہ ہوتا ہے گرفتار نہ جا 

ناخدا سے بھی مراسم نہیں اچھے تیرے 
اور ٹوٹے ہوئے کشتی کے بھی پتوار نہ جا 

جلتے صحرا کا سفر ہے یہ محبت جس میں 
کوئی بادل نہ کہیں سایۂ اشجار نہ جا 

بن ہمارے نہ ترے ناز اٹھائے گا کوئی 
سوچ لے چھوڑ کے ہم ایسے پرستار نہ جا

سید صغیر صفی



احتشام فاروقی

یوم پیدائش 18 دسمبر 1994

عجب سی کشمکش رہی ہے قلبِ عذر خواہ میں
مفاہمت نہ آ سکی مراسم نباہ میں

اُجاڑ کر کے دل مِرا کہا یہ اس نے ناز سے
نہ بن سکے گا آشیاں اب اس دلِ تباہ میں

یہ میکشی ہزار کوششوں کے باوجود بھی
نہ دے سکی وہ اک مزا جو تھا کسی نگاہ میں

وہ رمز جو کے جھانکتا ہے اب نگاہِ یاس سے
ہیں حسرتیں جو گر گئی ہیں آگہی کی تھاه میں

مرے لیے تو اتنا ہی ہے زندگی کا فلسفہ 
یہ مختصر سا اک سفر ہے خواہشوں کی چاہ میں

احتشام فاروقی



عاطف کمال رانا

یوم پیدائش 18 دسمبر 1970

تو جو کہتا ہے کہ آسان سمجھ جائے گا
کیا مرا چاک گریبان سمجھ جائے گا؟

میری خوشبو نہیں گھر میں تو میاں میں بھی نہیں
گھر میں آیا ہوا مہمان سمجھ جائے گا

اور کچھ دیر میں اس شخص نے آ جانا ہے
کب مہکتا ہے یہ دالان سمجھ جائے گا

شہر کا شہر مجھے اچھی طرح جانتا ہے
یہ مرا فائدہ نقصان سمجھ جائے گا

تم بھلے چپ ہی رہو اور سمجھنے والا
کون سے بت میں ہے انسان سمجھ جائے گا 

اس کو دیکھے گا تو کھل جائیں گی أنکھیں تیری
باغ کیا شے ہے بیابان سمجھ جائے گا

عشق سینے سے نکلتا ہوا لاوا ہے دوست
دل کا کمزور یہ طوفان سمجھ جائے گا

عاطف کمال رانا



علی اعجاز تمیمی

یوم پیدائش 17 دسمبر 

جستجو کرنا بھی آرام بھی کرتے رہنا
ذکرِ سرکارؐ صبح و شام بھی کرتے رہنا

پڑھتے ہی جانا اسی عالمِ مستی میں درود
یہ علاجِ دلِ ناکام بھی کرتے رہنا

تاکہ گستاخِ نبی کر ہی نہ پائے جرات
دعوہ ٕ عشق سرِ عام بھی کرتے رہنا

سنتِ حضرتِ حسانؓ میں لکھنا نعتیں
شعر گوٸی میں بڑا نام بھی کرتے رہنا

روز ہی کرنا مدینے کا خیالوں میں سفر
شکوہ ٕ گردشِ ایام بھی کرتے رہنا

کیمیا ہے کہ ہے اعجاز مدینے کا فراق
زر بھی کر دینا ہمیں خام بھی کرتے رہنا

علی اعجاز تمیمی 



ذرہ حیدرآبادی

یوم پیدائش 17 دسمبر 1970

یہ فریبی سیاست نہیں چاہیے
اب خیالوں کی جنت نہیں چاہیے

تم ترقی فحاشی کو کہتے رہو
ہم کو غیرت کی قیمت نہیں چاہیے

قتل ہونے کو کہتے ہو تم حادثہ
 ایسی جھوٹی حقیقت نہیں چاہیے
 
عام کرتے ہو جو جام و ساغر کو تم
ان گناہوں کی لذت نہیں چاہیے

صدر صاحب سے کہہ دو یہ ذرہ زرا
کوئی تازہ مصیبت نہیں چاہیے

ذرہ حیدرآبادی 



سعید احسن

یوم پیدائش 17 دسمبر 1963

کتنی مشکل ہے کہ مشکل کی طرف جانا ہے 
خود سے چل کر مجھے قاتل کی طرف جانا ہے 

دل یہ کہتا ہے کہ گرداب میں لے چل کشتی 
ذہن کہتا ہے کہ ساحل کی طرف جانا ہے 

راہ دشوار ہے تو عزم سلامت ہے مرا 
مجھ کو ہر حال میں منزل کی طرف جانا ہے 

مجھ سے دیکھا نہیں جائے گا تڑپنا جس کا 
کیا ستم ہے اسی بسمل کی طرف جانا ہے 

بڑھتی جاتی ہے مسلسل ہی یہ وحشت دل کی 
کیا مجھے طوق و سلاسل کی طرف جانا ہے 

راہ بر ہوگا نہ رستے میں لٹیرے ہوں گے 
لے کے اعمال ہی منزل کی طرف جانا ہے 

منزل کرب و بلا اس سے ہے آگے احسنؔ 
لوٹ جائے جسے باطل کی طرف جانا ہے

سعید احسن


 

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...