Urdu Deccan

Friday, January 13, 2023

میر تنہا یوسفی

یوم پیدائش 01 جنوری 1955

گو اپنے آپ کو بھی کوئی دوسرا لگا
میں سر تا پا کہ خاک تھا، سب سے جدا لگا

سب رو رہے تھے اپنے نصیبوں پہ زار زار
قصہ سنایا اپنا تو اک قہقہہ لگا

تنہا کہیں پہ بھی کوئی جائے اماں نہ تھی
دیکھا جہاں، وہیں پہ تھا اک آئینہ لگا

میر تنہا یوسفی



رشید احمد

یوم پیدائش 01 جنوری 1959

اپنے آنگن میں اندھیرا نہیں ہونے دیتے
میرے بچے مجھے تنہا نہیں ہونے دیتے

تیری آواز کی ہر تان لئے پھرتے ہیں
شہرِ خاموش کو رسوا نہیں ہونے دیتے

تشنگی میں بھی انا کو ہیں سلامت رکھتے  
اپنی گردش کو پیالا نہیں ہونے دیتے 

بسکہ اتنا ہی کہوں گا کہ مرے شہر کے لوگ
ایسے کافر ہیں سویرا نہیں ہونے دیتے

عالمِ وجد میں بھی آنکھ کھلی رکھتے ہیں
اپنے جوبن کا نظارہ نہیں ہونے دیتے

مر تو جاتے ہیں مگر گھر کی حفاظت کے لئے
اپنی دیوار کو رستہ نہیں ہونے دیتے

گھر کے حالات ہوں یا کوئی بھی غم ناکی ہو
شہر والوں کو شناسا نہیں ہونے دیتے

دل کے داغوں کو بھی رکھتے ہیں چھپا کے ہر دم
اپنے زخموں کا تماشا نہیں ہونے دیتے

رشید احمد





حبیب اشعر دہلوی

یوم پیدائش 01 جنوری 1919

موج انفاس بھی اک تیغ رواں ہو جیسے 
زندگی کار گہ شیشہ گراں ہو جیسے 

دل پہ یوں عکس فگن ہے کوئی بھولی ہوئی یاد 
سر کہسار دھندلکے کا سماں ہو جیسے 

حاصل عمر وفا ہے بس اک احساس یقیں 
وہ بھی پروردۂ‌ آغوش گماں ہو جیسے 

مجھ سے وہ آنکھ چراتا ہے تو یوں لگتا ہے 
ساری دنیا مری جانب نگراں ہو جیسے 

آج اشعرؔ سے سر راہ ملاقات ہوئی 
کوئی درماندۂ‌ دل شعلہ بجاں ہو جیسے

حبیب اشعر دہلوی



رفیق عثمانی

یوم پیدائش 01 جنوری 1957

تن کے اجلے, من کے کالے ہوتے ہیں 
لوگ سیاسی , مطلب والے ہوتے ہیں 

بوڑھا پنچھی بچوں کو سمجھاتا تھا 
نیچے دانے , اوپر جالے ہوتے ہیں 

ڈوبنے والے , ساحل کی جانب مت دیکھ 
ساحل پر بس , دیکھنے والے ہوتے ہیں 

ایسے ویسے مت سمجھو شعروں کو میاں 
ان میں بھی قرآں کے حوالے ہوتے ہیں 

ہوجاتی ہے موت بھی آساں کبھی کبھی 
کبھی کبھی جینے کے لالے ہوتے ہیں 

تنہائی , اس گھر میں کیسے ٹھہرے گی 
جس گھر میں اخبار رسالے ہوتے ہیں 

جدا ہے سب سے شہر میں اک اندازِ رفیق 
شعر بھی اس کے سب سے نرالے ہوتے ہیں 

رفیق عثمانی



عارج میر

یوم پیدائش 31 دسمبر 1953

اپنی باتوں کو تولنا ہوگا 
یعنی سورج کو بولنا ہوگا 

دھوپ کمرے میں یوں نہ آئے گی 
اٹھ کے دروازہ کھولنا ہوگا 

حادثے ہیں شکست آمادہ 
موت کو سر پہ ڈولنا ہوگا 

نقش بکھرا دئے ہوا نے سب 
ایک اک ذرہ رولنا ہوگا 

آنکھ والے سے یہ تقاضا ہے 
ایک اندھا ہوں بولنا ہوگا 

عارج میر



صغریٰ سبزواری

یوم پیدائش 31 دسمبر 1911

سنا کر حالِ دل کس کو بناؤں رازداں اپنا
نظر آتا نہیں کوئی جہاں میں مہرباں اپنا

صغریٰ سبزواری



بلند اختر شہودی

یوم پیدائش 31 دسمبر 1959

کیا تیرگیِ شب سے ڈراتا ہے تو مجھے
کیا ایسی کوئی رات ہے جس کی سحر نہیں

بلند اختر شہودی



سہیل اقبال

یوم پیدائش 31 دسمبر 1962

سفر طویل ہے اور پھر سفر میں تنہائی
پلٹ بھی جائوں تو دیکھوں گا گھر میں تنہائی

وہ میرے ساتھ نہیں ہے بہت اداس ہوں میں
 جھلک رہی ہے مری چشمِ تر میں تنہائی
 
ہیں پرسکوت پرندے اداس شاخوں پر
سحر کا وقت ہے اور ہے شجر میں تنہائی

اگرچہ محفلِ یاراں بھی ہے عزیز مجھے
مگر ہے قیمتی میری نظر میں تنہائی

سفر میں راہ بھٹکنے کا مجھ کو خوف نہیں
کہ میں نے باندھ لی رختِ سفر میں تنہائی

کوئی بھی وقت ہو اس کا مزاج ایک سا ہے
دھندلکی شام میں یا دوپہر میں تنہائی

یہ شہر چھوڑ بھی دوں تو مجھے یقیں ہے سہیل
ملے گی پھر مجھے اگلے نگر میں تنہائی

سہیل اقبال



مقیم اثر بیاولی

یوم پیدائش 31 دسمبر 1941

سر بُریدہ خداؤں کی پہچان کیا
نم، نمیدہ ہواؤں کی پہچان کیا

کِشت لا حاصلی، یاسیت درد و غم
نا شنیدہ دعاؤں کی پہچان کیا

کٹ کے سورج سے نذرِ ہوا ہو گئیں
غم رسیدہ شعاؤں کی پہچان کیا

دیدہ و دل کی حیرانیاں برف زار
دیدہ، دیدہ اداؤں کی پہچان کیا

نیل کی موج پر حکم فرعون کا
پر بُریدہ عصاؤں کی پہچان کیا

کاسۂ سر طلب، گنجِ گوہر طلب
آفریدہ صداؤں کی پہچان کیا

گل سے چہرے ترس جائیں مسکان کو
آرمیدہ بلاؤں کی پہچان کیا

ہر بدن دھوپ کے پیرہن سے جلے
آبدیدہ اداؤں کی پہچان کیا

ایک اک حرف ہے مقتلِ آرزو
خط کشیدہ صلاؤں کی پہچان کیا

کاسۂ سے سے فکرِ رسا چھین لیں
برگزیدہ سبھاؤں کی پہچان کیا

مقیم اثر بیاولی



مولانا الطاف حسین حالی

یوم وفات 31 دسمبر 1914

وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
مرادیں غریبوں کی بر لانے والا
مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا
وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا

فقیروں کا ملجا ضعیفوں کا ماویٰ
یتیموں کا والی غلاموں کا مولیٰ

خطا کا ر سے درگزر کرنے والا
بد اندیش کے دل میں گھر کرنے والا
مفاسد کا زیر و زبر کرنے والا
قبائل کو شیر و شکر کرنے والا

اتر کر حِرا سے سوئے قوم آیا
اور اک نسخہء کیمیا ساتھ لایا

مس خام کو جس نے کندن بنایا
کھرا اور کھوٹا الگ کر دکھایا
عرب جس پہ قرنوں سے تھا جہل چھایا
پلٹ دی بس اک آن میں اس کی کایا

رہا ڈر نہ بیڑے کو موجِ بلا کا
اِدھر سے اُدھر پھر گیا رخ ہوا کا

وہ بجلی کا کڑکا تھا یا صوت ہادی
عرب کی زمیں جس نے ساری ہلا دی
نئی اک لگن دل میں سب کے لگا دی
اک آواز میں سوتی بستی جگا دی

پڑا ہر طرف غل یہ پیغام حق سے
کہ گونج اٹھے دشت و جبل نام حق سے

کہ ہے ذات واحد عبادت کے لائق
زباں اور دل کی شہادت کے لائق
اسی کے ہیں فرماں اطاعت کے لائق
اسی کی ہے سرکار خدمت کے لائق

لگاؤ تو لو اس سے اپنی لگاؤ
جھکاؤ تو سر اس کے آگے جھکاؤ 

اسی پر ہمیشہ بھروسہ کرو تم 
اسی کے سدا عشق کا دم بھرو تم
اسی کے غضب سے ڈرو گر ڈرو تم 
اسی کی طلب میں مرو جب مرو تم 

مبرا ہے شرکت سے اس کی خدائی
نہیں اس کے آگے کسی کی برائی

مولانا الطاف حسین حالی



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...