Urdu Deccan

Friday, January 13, 2023

پرویز نقوی شادان

یوم پیدائش 02 جنوری 1990

صرف ایک تو ہی غیر فانی ہے
باقی ہر شے کو موت آنی ہے

سنگ پاروں میں جو شرارے ہیں 
تیری قدرت کی ترجمانی ہے 

ہے ہر اک شے پہ تیرا دستِ کرم
تجھ سے دنیا میں دانا پانی ہے

وحدہ لا شریک ہے تو ہی
تیری یکتائی ہی نشانی ہے

چاند, سورج, ہوا, فضا, تارے
سب کے سب تیری مہربانی ہے

تیری قدرت کا ہے کرشمہ یہ 
ابرِ باراں میں جو روانی ہے 

تیرے رحم و کرم سے ہی مولا
گھر میں "شاداں" کے شادمانی ہے 

پرویز نقوی شادان



یعقوب تصور

یوم پیدائش 02 جنوری 1945

مرے چاروں طرف ایک آہنی دیوار کیوں ہے 
اگر سچا ہوں میں سچ کا مقدر ہار کیوں ہے 

نشاط و انبساط و شادمانی زیست ٹھہری 
تو بتلائے کوئی جینا مجھے آزار کیوں ہے 

مسافت زندگی ہے اور دنیا اک سرائے 
تو اس تمثیل میں طوفان کا کردار کیوں ہے 

جہاں سچ کی پذیرائی کے دعویدار ہیں سب 
اسی بزم سخن میں بولنا دشوار کیوں ہے 

یقیناً حادثے بھی جزو خاص زندگی ہیں 
ہمارا شہر ہی ان سے مگر دو چار کیوں ہے 

مری راہوں میں جب ہوتے نہیں کانٹے تصورؔ 
میں ڈر کر سوچتا ہوں راستہ ہموار کیوں ہے

یعقوب تصور



بزم انصاری

یوم پیدائش 02 جنوری 1922

دل گیا شوخئ گفتار کہاں سے لاؤں 
اب وہ پیرایۂ اظہار کہاں سے لاؤں 

قصۂ گردش دوراں سے ابھی ہوش نہیں 
داستان لب و رخسار کہاں سے لاؤں 

التجا کے لئے اپنوں سے تکلف ہے مجھے 
شیوۂ منت اغیار کہاں سے لاؤں 

شرکت غیر محبت میں گوارا کر لوں 
اس قدر جذبۂ ایثار کہاں سے لاؤں 

آتش ہجر کے تپتے ہوئے صحراؤں میں 
راحت سایۂ دیوار کہاں سے لاؤں 

تو ہے نزدیک رگ جاں مگر اے حسن تمام 
تیرا جلوہ ترا دیدار کہاں سے لاؤں 

بزمؔ مہلت نہیں دیتے مجھے افکار جہاں 
فرصت کثرت اشعار کہاں سے لاؤں

بزم انصاری 



صابر اقبال

یوم پیدائش 02 جنوری 1954

نوکِ خنجر پر جو منوایا تو کیا بات ہوئی
بات تو جب ہے کہ تو بات سے قائل کردے

صابر اقبال



اختر عظیم آبادی

یوم پیدائش 02 جنوری 1937

رئیس شہر کرایہ کے گھر میں رہتا ہے
عمارتوں کا خدا اب کھنڈر میں رہتا ہے

وہ آشنا ہے نشیب و فرازِ موسم سے
جو آدمی کہ مسلسل سفر میں رہتا ہے

ہزار تیز ہوا ہو مگر بہ فیضِ جنوں
چراغِ نقش قدم رہ گذر میں رہتا ہے

وہی دکھاتا ہے فروا کی موہنی تصویر
جو احتیاط کا عنصر بشر میں رہتا ہے

وہ آشنا ہی نہیں ہے مزاج دریا ہے
کبھی کبھی جو سفینہ بھنور میں رہتا ہے

جہاں جہاں پہ نظارے فریب دیتے ہیں
وہاں وہاں پسِ منظر نظر میں رہتا ہے

صبا کی طرح جو چلتا ہے راہ ہستی میں
وہ ہر قدم پہ جہانِ دگر میں رہتا ہے

تمام شرک ِتمنا کا سلسلہ ہے دراز
ضرورتوں کا صنم سب کے گھر میں رہتا ہے

بجھے بجھے سے نظارے ہیں ہر طرف اختر
نہ جانے کیسا دھندلکا سحر میں رہتا ہے 

اختر عظیم آبادی
 


ناظم ناگپوری

یوم پیدائش 02 جنوری 1929

پھول ہو کر بھی خار ہیں ہم لوگ
جب سے بے اقتدار ہیں ہم لوگ

بیچ ڈالیں گے تم کو مولانا
یہ نہ سمجھو گنوار ہیں ہم لوگ

تیرے در پر کھڑے رہیں کب تک
کیا کوئی پہرہ دار ہیں ہم لوگ؟

ایک مدت سے کھوج میں تیری
اپنے گھر سے فرار ہیں ہم لوگ

واعظان جہاں سمجھتے ہیں
خلد کے ٹھیکیدار ہیں ہم لوگ

عشق کے کا لجوں میں اے ناظم
آج کل لکچرار میں ہم لوگ

ناظم ناگپوری



اقبال گوہر

یوم پیدائش 01 جنوری 1950

کھنچی ابرو کماں اللہ اکبر
 نشانہ میری جان اللہ اکبر

صنم خانوں میں دل اٹکا ہوا ہے
پہ ہے وردِ زباں اللہ اکبر

نمایاں ہے وہ۔۔ ہر کون و مکاں سے
نہ کر کچھ این وآں اللہ اکبر

عجب منظر درونِ میکدہ تھا
تھے واں تسبیح خواں اللہ اکبر

کیا مجھ کو زمانے بھر میں رسوا 
یہ میرے رازداں اللہ اکبر

کیا ان سے جو اظہار تمنا
کہا پڑھیے میاں اللہ اکبر
 
کروں اعمالِ بد، جنت کی خواہش
ہوں کیسا خُوش گماں اللہ اکبر

وہ اپنا تذکرہ لالہ رخوں میں 
وہ عہدِ رفتگاں اللہ اکبر
 
یہ لاوا عشق کا، سینے میں میرے
کہ جوں آتش فشاں اللہ اکبر
 
وہ کہتے ہیں کہ گوہر۔۔۔ عشق تیرا 
ہے اک کارِ زیاں اللہ اکبر

اقبال گوہر



شہرِ حسن

یوم پیدائش 01 جنوری 2000

لوحِ محفوظ کے اشارے میں
آدمی ہے سو ہے خسارے میں

قیس سے مل چکی ہوں صحرا میں 
کچھ رہا ہی نہیں بچارے میں

اُن پہ لیلیٰ کی طرح مر جائوں
 اور چمک جائوں پھر ستارے میں

وہ سمندر میں لہر ہے جیسے
ایسی کیا چیز ہے تمہارے میں 

یہ جو لپکا تو حشر کر دے گا
عشق آیا ہے دل شرارے میں 

جھوم جائوں گی عرش کے سایے
حسن آیا ہے میرے وارے میں 

آئینہ ہے وہ میرے جیسا ہے
دیکھ آئی ہوں میرے پیارے میں 

یہ تخیل ہے یہ تصور ہے
دیکھتی عرش ہوں نظارے میں

جب ترا ہاتھ، ہاتھ میں پایا
زندگی مل گئی سہارے میں 

نیم جاں ہوں میں ہجر میں تیرے
 چیر دوں گی یہ دل بھی آرے میں 

حسن کی تاب آپ ہے شہرو
عشق کی گونج اس کے نعرے میں

شہرِ حسن



حبیب سعید

یوم پیدائش 01 جنوری 1975

معلوم کہاں اس کو ہے ،کیا ہونے چلا ہے
پھل خوش ہے کہ ٹہنی سےرہاہونےچلاہے 

جا کر سرِ افلاک ہی پھر رہنا پڑے گا
اے خاک نشیں گر تو خدا ہونے چلا ہے

سایا جو بڑھا دیکھا تو خوش فہم یہ سمجھا
قد اس کا بھی شاید کہ بڑا ہونے چلا ہے

جو کَل کا ہُوا حال ہے ،اے آج ! ترے ساتھ
اس سے بھی کہیں بڑھ کے بُرا ہونے چلاہے

یہ قطع تعلق بھی تو خواہش تھی تمہاری
 اب تھوڑا کریں صبربھی،کیا ہونے چلا ہے

حبیب سعید



طلحہ بن زاہد

یوم پیدائش 01 جنوری 1980

نمک کھاتا ہوں سرکارِ نبی کا 
گدا ہوں میں رسولِ آخری کا 

غلامِ فاطمہ زہرا ہوں آقا 
بھرم رکھنا مری اس نوکری کا 

مجھے بلوالیں اب شہرِ مدینہ 
نہیں کچھ بھی بھروسہ زندگی کا 

اگر دل میں نہیں حبِ نبی تو 
نہیں کچھ فائدہ پھر بندگی کا 

لبوں پر وردِ احمد کو سجا کر 
ہوں کرتا قتل طلحہ تیرگی کا 

طلحہ بن زاہد



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...