لفظ جو تیر کے امکان میں آ جاتے ہیں
بغض و نفرت کے وہ سیلان میں آ جاتے ہیں
ایک دوجے کی محبت میں ابھرتے جذبے
پھول بن کر کھلے گلدان میں آ جاتے ہیں
جو زمانے کی نگاہوں میں نہیں آ ، پاتے
کم نظر لوگوں کے وجدان میں آ جاتے ہیں
خون جب جمنے لگے اس کی حرارت کے لیے
چھوڑ کے اپنوں کو یاران میں آ جاتے ہیں
گالیاں دینے ، گریبان تلک آنے سے
گھر ہی کیا ملک بھی بحران میں آ جاتے ہیں
اپنی ہر بات سر عام نہیں کی جاتی
منہ کے الفاظ تو اعلان میں آ جاتے ہیں
بیچنے لگتے ہیں ایمان و عقیدے آ کر
چند کم ظرف جو ہیجان میں آ جاتے ہیں
جاگتے رہتے ہیں خوابوں کےنگر میں فیضی
کام گھر کے کہیں دوران میں آ جاتے ہیں