Urdu Deccan

Friday, January 13, 2023

مبشرحسین فیضی

یوم پیدائش 03 جنوری 1975

لفظ جو تیر کے امکان میں آ جاتے ہیں
بغض و نفرت کے وہ سیلان میں آ جاتے ہیں

ایک دوجے کی محبت میں ابھرتے جذبے
پھول بن کر کھلے گلدان میں آ جاتے ہیں

 جو زمانے کی نگاہوں میں نہیں آ ، پاتے
کم نظر لوگوں کے وجدان میں آ جاتے ہیں

خون جب جمنے لگے اس کی حرارت کے لیے
چھوڑ کے اپنوں کو یاران میں آ جاتے ہیں

گالیاں دینے ، گریبان تلک آنے سے
گھر ہی کیا ملک بھی بحران میں آ جاتے ہیں

اپنی ہر بات سر عام نہیں کی جاتی 
منہ کے الفاظ تو اعلان میں آ جاتے ہیں

بیچنے لگتے ہیں ایمان و عقیدے آ کر
چند کم ظرف جو ہیجان میں آ جاتے ہیں

جاگتے رہتے ہیں خوابوں کےنگر میں فیضی
کام گھر کے کہیں دوران میں آ جاتے ہیں

  مبشرحسین فیضی



مسلم شمیم

یوم پیدائش 03 جنوری 1939

تیری دل نواز باتیں تری دل نشیں ادائیں 
تری آرزو میں کیسے نہ جہاں کو بھول جائیں 

کوئی گیت گنگنائیں کہ غزل کوئی سنائیں 
ترے گیسوؤں کے سائے میں یہ سوچ بھی نہ پائیں 

یہ نہ جانے آج کس نے در دل پہ دی ہے دستک 
یہ جو اٹھ رہا ہے طوفاں اسے کس طرح دبائیں 

یہ نوازش جنوں ہے کہ فسوں تری نظر کا 
یہ مطالبہ ہے دل کا ابھی اور فریب کھائیں 

تری انجمن میں اب بھی ہیں شمیمؔ اجنبی سے 
کسے رازداں بنائیں کسے زخم دل دکھائیں

مسلم شمیم



خان نثار غازی پوری

یوم وفات 03 جنوری 1949

جب سفاری بن گیا فیشن تمھارے شہر میں
ہم پہن کر آئے ہیں اچکن تمھارے شہر میں

کیا غضب ہے سب اسے سرمہ سمجھ کر لے گئے
بیچنے لائے تھے ہم چورن تمھارے شہر میں

سیب اور انگور بکتے ہیں یہاں کوڑی کے مول
ہیں مگر مہنگے بہت بیگن تمھارے شہر میں

جیب کتروں کو بلاؤ اس کا فیتہ کاٹنے
ہو اگر تھانے کا ادگھاٹن تمھارے شہر میں

جب سے استادوں نے کھولیں اپنی اپنی منڈیاں
شاعری کرنے لگے جمّن تمھارے شہر میں

شعر کی بھٹی میں جھونکے جارہے ہیں رات دن
خان صاحب بن گئے ایندھن تمھارے شہر میں

خان نثار غازی پوری



طالب صدیقی

یوم پیدائش 02 جنوری 1973

بجز چراغِ وفا ظلمتوں کی بستی میں
جلا کے خود کو شبِ غم کے نام کس نے کیا

طالب صدیقی 



معراج الدین تشنہ

یوم پیدائش 02 جنوری 1963

آتا ہے فلک جہد مسلسل سے زمیں پر
مٹھی میں کبھی اڑ کے خزانے نہیں آتے

معراج الدین تشنہ

 


اصغر ندیم نظامی

یوم پیدائش 02 جنوری 1962

اپنی مفلسی میں بھی ہم تو خوش ہیں لیکن وہ
رکھ کے مال و دولت بھی غم زدہ سا لگتا ہے

 اصغر ندیم نظامی

 


ضیا اعظم ابادی

یوم پیدائش 02 جنوری 1936

امن کا خود کو جو کہتے ہیں پیمبر یارب
 آستینوں میں لئے پھرتے ہیں خنجر یارب
 
 ابرہہ اٹھا ہے پھر ظلم کی آندھی لے کر
 بھیج پھر کوئی ابابیل کا لشکر یارب
 
 کون حق پر ہے یہاں کون ہے باطل کا نقیب
 فرق کرنے کی فراست بھی عطا کر یارب
 
 جانے کس کرب سے گذرے ہیں گذرنے والے
 خوں بہ داماں ہیں سبھی راہ کے پتھر یارب
 
 قافلہ اپنا لٹا تھا وہ یہی موسم تھا
 سامنے آنکھوں کے ہے پھر وہی منظر یارب
 
ضیا اعظم ابادی



انجم اعظمی

یوم پیدائش 02 جنوری 1931

میری دنیا میں ابھی رقصِ شرر ہوتا ہے
جو بھی ہوتا ہے بہ اندازِ دگر ہوتا ہے

بُھول جاتے ہیں ترے چاہنے والے تجھ کو
اِس قدر سخت یہ ہستی کا سفر ہوتا ہے

اب نہ وہ جوشِ وفا ہے، نہ وہ اندازِ طلب
اب بھی لیکن ترے کوچے سے گزر ہوتا ہے

دل میں ارمان تھے کیا عہد بہاراں کے لیے
چاک گل دیکھ کے اب چاک جگر ہوتا ہے

ہم تو ہنستے بھی ہیں جی جان سے جانے کے لیے
تم جو روتے ہو تو آنسو بھی گُہر ہوتا ہے

سیکڑوں زخم اُسے ملتے اس دنیا سے
کوئی دل تیرا طلب گار اگر ہوتا ہے

قافلہ لٹتا ہے جس وقت سرِ راہ گذر
اُس گھڑی قافلہ سالار کدھر ہوتا ہے

انجمؔ سوختہ جاں کو ہے خوشی کی اُمید
رات میں جیسے کبھی رنگِ سحر ہوتا ہے

انجم اعظمی



اخلاق بندوی

یوم پیدائش 02 جنوری 1964

خوش گوار آئے، نا گوار آئے
جیسے دن آئے ہم گزار آئے 

زندگی اک ترے تعاقب میں 
خود کو ہم قبر میں اتار آئے  

پوچھتے ہیں یہ پاؤں کے چھالے
راہ میں کتنے خارزار آئے

ہر خوشی آئی مثلِ کبکِ دری
اور غم شتر بے مہار آئے 

کیا اسیرِ قفس کو فکرِ چمن 
برگ ریز آئے یا بہار آئے

تیرا چہرہ ہے خوب تر جاناں
چاند کا نور مستعار آئے 

ان کے جلووں کی تاب کب تھی ہمیں
دل کے آئینے میں اتار آئے

ایسے آنا بھی کوئی آنا ہے
برق سا ابر پر سوار آئے 

خوف آتا ہے نقد سے تجھ کو 
کیسے فن میں ترے نکھار آئے 

اخلاق بندوی



کاشف واصفی

یوم پیدائش 02 جنوری 2000

دل جو دہلیز پر گڑا رہا ہے
اشک بھی آنکھ میں جڑا رہا ہے

ریل چل دی ہے منزلوں کی طرف
اور مسافر وہیں کھڑا رہا ہے

کاٹ لیتا نسیں جدائی میں
جانے کس سوچ میں اڑا رہا ہے

لوگ تو رو رہے تھے ہونے پر
مجھ پہ نہ ہونا بھی کڑا رہا ہے

آخری بار تو نے جب دیکھا 
جس کسی کو وہیں پڑا رہا ہے

میں تو مسمار ہو چکا کاشف
وہ بڑا تھا تبھی بڑا رہا ہے

کاشف واصفی



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...