Urdu Deccan

Friday, February 24, 2023

معراج بنارسی

یوم پیدائش 03 فروری 1960

بسا دے سینے میں ایسی یارب ولائے خیرالوراﷺ کی خوشبو
نفس نفس سے اٹھے ہماری نبیﷺ کے عشق و وفا کی خوشبو

وہی ہیں تحت الثری کی نکہت وہی ہیں عرش علیٰ کی خوشبو
انہیں کے صدقے مہک رہی ہے تمام ارض و سما کی خوشبو

زمین و افلاک و لامکاں ہو مقامِ سدرہ ہو یا جناں ہو
مہک رہی ہے تمام عالم میں سیدالانبیا کی خوشبو

اِنہیں پہ صدقے ہے صبحِ اول انہیں پہ قرباں ہے یومِ آخر
انہیں میں ہے ابتدا کی خوشبو اِنہیں میں ہے انتہا کی خوشبو

یہی وہ شاداب گل ہے جس میں بسی ہے بوئے نویدِ عیسی
اسی شگفتہ گلاب میں ہے خلیلِ حق کی دعا کی خوشبو

بنا ہے معراجؔ دل کا آنگن محبتِ مصطفیٰ کا گلشن
ہماری روحِ رواں پہ قربان ہے بہشتی ہوا کی خوشبو

معراج بنارسی



اعجاز وارثی

یوم پیدائش 03 فروری 1911

کار خیر اتنا تو اے لغزش پا ہو جاتا 
پائے ساقی پہ ہی اک سجدہ ادا ہو جاتا 

وہ تو یہ کہئے کہ مجبور ہے نظم ہستی 
ورنہ ہر بندۂ مغرور خدا ہو جاتا 

قافلے والے تھے محروم بصیرت ورنہ 
میرا ہر نقش قدم راہنما ہو جاتا 

غم کے ماروں پہ بھی اے داور حشر ایک نظر 
آج تو فیصلۂ اہل وفا ہو جاتا 

یوں اندھیروں میں بھٹکتے نہ کبھی اہل خرد 
کوئی دیوانہ اگر راہنما ہو جاتا 

دل تری نیم نگاہی کا تو ممنون سہی 
درد ابھی کم ہے ذرا اور سوا ہو جاتا 

لذت غم سے ہے ضد فطرت غم کو شاید 
درد ہی درد نہ کیوں درد دوا ہو جاتا 

سن کے بھر آتا اگر ان کا بھی دل اے اعجازؔ 
قصۂ درد کا عنوان نیا ہو جاتا

اعجاز وارثی


 

فرحت حنیف وارثی

یوم پیدائش 03 فروری 1966

مکان چہرے دکان چہرے 
ہماری بستی کی جان چہرے 

اجاڑ نسلوں کے نوحہ گر ہیں 
خزاں رسیدہ جوان چہرے 

دھواں دھواں منظروں کا حصہ 
خیال خوشبو گمان چہرے  

کوئی تأثر ہو زندگی کا 
کریں خوشی غم بیان چہرے 

کوئی نہیں ہے کسی سے واقف 
نگر میں سب بے نشان چہرے 

حنیفؔ قدریں بدل چکی ہیں 
نہ ڈھونڈ وہ درمیان چہرے 

فرحت حنیف وارثی


 

مستحسن عزم

یوم پیدائش 02 فروری 1970

نچوڑتا ہے جو آنکھوں سے نیند ، آب کے ساتھ 
گزارتا ہوں دن اپنا اُس ایک خواب کے ساتھ

میں گیندا ، میں نے رکھی انفرادیت قائم
َرکھا گیا تھا مجھے گچّھےمیں گلاب کے ساتھ

ابھی بھی دھندلا ہےمنظر کچھ اورکھول پرت
مرا سوال کھڑا ہے ترے جواب کے ساتھ 

یہ شہر سارا توپردے میں بھی کھلا ہوا ہے 
کسے برہنہ کہیں کون ہے حجاب کے ساتھ

دلِ تباہ کو حاصل ہے لطفِ خودداری
کہاں جنوں کا تعلق ہےاحتساب کے ساتھ

جوچڑھ گئی ہے نفاست زباں پہ، جاتی نہیں 
ذرا سا بیٹھا تھا اردو کی اک کتاب کے ساتھ

ملا تو طرزِ تخاطب کا عزمؔ بھید کُھلا
لیا تھا اُس نے مرا نام تو جناب کے ساتھ

مستحسن عزم


 

شہاب لکھنوی

یوم پیدائش 02 فروری 1925

کون احسانِ ناخدائی لے
اس سے بہتر تو ڈوب جانا ہے

شہاب لکھنوی

 

 

اشرف چنگیزی

یوم پیدائش 02 فروری 1932

یہ رنگ سیاست ہے تو پھر اب کے ابابیل
پھینکیں گے وہ پتھر کہ کوئی سر نہ بچے گا

اشرف چنگیزی 

 

نفیس دسنوی

یوم پیدائش 02 فروری 1950

لامکاں کے رہنے والے اس جہاں تک آگئے
ایک لغزش پر کہاں سے ہم کہاں تک آگئے

دل گرفتہ تم بھی کچھ تھے‘ دل گرفتہ ہم بھی تھے
کہتے کہتے داستاں آہ و فغاں تک آگئے

لغزشِ آدم میں پنہاں تھی کسی کی مصلحت
اک قدم بہکا مکاں سے ہم زماں تک آ گئے

ہے فریبِ دل نشیں ان کی محبت بھی نفیسؔ
بات جب نکلی یقیں کی‘ ہم گماں تک آ گئے 

نفیس دسنوی


 

نگار سلطانہ

یوم پیدائش 02 فروری 1956

سب سے شکوہ بھی ہمارا وہ کیا کرتے تھے
حق میں جن کے سدا ہم روز دعا کرتے تھے

تیری فرقت میں بہت درد سہا کرتے تھے
روز مرتے تھے صنم روز جیا کرتے تھے

جن کو ماں باپ کی خدمت میں سکوں ملتا تھا
ایسے بچّے بھی زمانے میں ھوا کرتے تھے

اب تو اپنوں کو بھی ملنے کی کہاں ہے فرصت
پہلے وہ جان کے فرصت سے ملا کرتے تھے

اب تو پہلے سے مراسم نہیں ہیں اپنے بھی
یاد آتا ھے کبھی عشق کیا کرتے تھے

آج تو دیکھ کے کترا کے گزر جاتا ہے
ہم مکیں ہیں جو ترے دل میں بسا کرتے تھے

ہم وفا دار نگار آج بھی اس شخص کے ہیں
اب بھی کرتے تھے وفا پہلے کیا کرتے تھے

نگار سلطانہ



عنبر صدیقی

یوم پیدائش 02 فروری 1957

فضا میں ذکرِ آیاتِ ولادت اور ہی کچھ ہے
کلیم اللہ کی شانِ بشارت اور ہی گچھ ہے

ہزاروں فلسفے بدلے ،بنے ،بگڑے زمانے میں
رسولِ ہاشمی کی علم و حکمت اور ہی کچھ ہے

شکم پر باندھ کے پتھر کھلائی غیر کو روٹی
قسیمِ آبِ کوثر کی قناعت اور ہی کچھ ہے

کھجوروں کی چٹائی زیرِ سر ہے ہاتھ کا تکیہ
شہہِ ارض و سما کی بادشاہت اور ہی کچھ ہے

جہاں میں یوں تو آئے ہیں ہزاروں انبیاء لیکن
محمد مصطفے١ کی شان و عظمت اور ہی کچھ ہے

بھلا میں عارضی دنیاں کی خواہش کیوں کروں عنبر
غلامِِ مصطفےٰ ہوں میری چاہت اور ہی کچھ ہے

عنبر صدیقی

 

بدر عالم خلش

یوم پیدائش 02 فروری 1962

ضرورتوں کی ہماہمی میں جو راہ چلتے بھی ٹوکتی ہے وہ شاعری ہے 
میں جس سے آنکھیں چرا رہا ہوں جو میری نیندیں چرا رہی ہے وہ شاعری ہے 

جو آگ سینے میں پل رہی ہے مچل رہی ہے بیاں بھی ہو تو عیاں نہ ہوگی 
مگر ان آنکھوں کے آبلوں میں جو جل رہی ہے پگھل رہی ہے وہ شاعری ہے 

تھا اک تلاطم مئے تخیل کے جام و خم میں تو جلترنگوں پہ چھڑ گئی دھن 
جو پردہ دار نشاط غم ہے جو زخمہ کار نواگری ہے وہ شاعری ہے 

یہاں تو ہر دن ہے اک سونامی ہے ایک جیسی ہر اک کہانی تو کیا سنو گے 
مگر وہ اک خستہ حال کشتی جو مثل لاشہ پڑی ہوئی ہے وہ شاعری ہے 

ہے بادلوں کے سیاہ گھوڑوں کے ساتھ ورنہ ہوا کی پرچھائیں کس نے دیکھی 
دھلی دھلی دھوپ کے بدن پر جو چھاؤں جیسی سبک روی ہے وہ شاعری ہے 

وہی تو کل سرمئی چٹانوں کے درمیاں سے گزر رہی تھی بپھر رہی تھی 
وہی ندی اب تھکی تھکی سی جو ریت بن کر بکھر گئی ہے وہ شاعری ہے 

گھڑی کی ٹک ٹک دلوں کی دھک دھک سے بات کرتی اگر تنفس مخل نہ ہوتا 
تو ایسی شدت کی گو مگو میں جو ہم کلامی کی خامشی ہے وہ شاعری ہے 

جو قہقہوں اور قمقموں سے سجی دھجی ہے اسی گلی سے گزر کے دیکھو 
اندھیرے زینوں پہ سر بہ زانو جو بیکسی خون تھوکتی ہے وہ شاعری ہے 

نہ ہجرتوں کے ہیں داغ باقی نہ اپنی گم گشتگی کا کوئی سراغ باقی 
سو اب جو طاری ہے سوگواری جو اپنی فطرت سے ماتمی ہے وہ شاعری ہے 

ہے لالہ زار افق سے آگے ابھی جو دھندلا سا اک ستارہ ہے استعارہ 
جو ہوگی تیرہ شبی میں روشن وہ کوئی زہرہ نہ مشتری ہے وہ شاعری ہے 

گذشتگانی ہے زندگانی نہ یہ ہوا ہے نہ ہے یہ پانی فقط روانی 
جو واقعاتی ہے وہ ہے قصہ جو واقعی ہے وہ شاعری 

جو حسن منظر ہے کینوس پر وہ رنگریزی نہیں برش کی تو اور کیا ہے 
اب اس سے آگے کوئی نظر جس جہان معنی کو ڈھونڈھتی ہے وہ شاعری ہے 

یہ شعر گوئی وہ خود فراموش کیفیت ہے جہاں خودی کا گزر نہیں ہے 
خودی کی باز آوری سے پہلے جو بے خودی کی خود آگہی ہے وہ شاعری ہے 

جو وارداتی صداقتوں کی علامتیں ہیں حدیث دل کی روایتیں ہیں 
اسی امانت کو جو ہمیشہ سنبھالتی ہے سنوارتی ہے وہ شاعری ہے 

انا کے دم سے ہے ناز‌ ہستی انا کے جلووں کا آئینہ دار ہے ہر اک فن
وہ خود نمائی جو خوش نما ہے مگر جو تھوڑی سی نرگسی ہے وہ شاعری ہے 

جو بات نثری ہے نظریاتی ہے جدلیاتی ہے وہ مکمل کبھی نہ ہوگی 
مگر جو مجمل ہے اور موزوں ہے اور حتمی اور آخری ہے وہ شاعری ہے 

تجارتوں کی سیاستیں اب ادب کی خدمت گزاریوں میں لگی ہوئی ہیں 
جو جی رہا ہے جو گا رہا ہے مشاعرہ ہے جو مر رہی ہے وہ شاعری ہے 

جو دیدہ ریزی بھی جاں گدازی کے ساتھ ہوگی تو لفظ سارے گہر بنیں گے 
خلشؔ یقیناً یہ صرف زور قلم نہیں ہے جو شاعری ہے وہ شاعری ہے

بدر عالم خلش



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...