Urdu Deccan

Tuesday, February 28, 2023

فہیم احمد صدیقی

یوم پیدائش 05 فروری 1948

دن كو چھوڑا ہاتھ تھاما رات کا
ہم کو ہے ادراک ترجیحات کا

ہم نے بس خوشبو کو ہرجائی کہا
لگ گیا ان کو برا اس بات کا

آپ ہو تے ساتھ تو کچھ بات تھی
ہے گراں اب سلسلہ برسات کا

توڑ کر تارے ابھی لا تا ہو ں میں
کام ہے یہ میرے بائیں ہاتھ کا

ان کا رخ تم کو اگر ہے موڑنا
جائزہ تو لیجے گا حالات كا

پختہ تر میرے عزائم ہیں فہیم
مجھ کو اندیشہ نہیں ہے مات کا

فہیم احمد صدیقی



اشفاقؔ حیدر

یوم پیدائش 05 فروری 2005

لوگ سارے مر رہے ہیں بھوک سے
چوریاں بھی کر رہے ہیں بھوک سے

مفلسوں کے بچے اپنے گھر نہیں
پل کسی رہ پر رہے ہیں بھوک سے

ہم سبھی غربت کی چکی میں پسے
کام سارے کر رہے ہیں بھوک سے

بادشہ دولت سے جیبیں اور ہم
پیٹ اپنا بھر رہے ہیں بھوک سے

حکمراں اشفاقؔ سب ہیں عیش میں
ہم گزارا کر رہے ہیں بھوک سے

 اشفاقؔ حیدر


 

محمد جمال اجمل

یوم پیدائش 05 فروری 1985

روٹھو گے ماں سے کھاؤ گے ٹھوکر الگ الگ
پھر بولیاں سنائیں گے گھر بھر الگ الگ

کھارا کے ساتھ ساتھ ہی میٹھا بنا دیا
بہتے ہیں ایک ساتھ سمندر الگ الگ

باد خزاں کے درمیاں تنہا میں پھول ہوں 
آتے ہیں میرے پاس ستمگر الگ الگ

ہیں اہل حق ہی سب کے نشانے پہ دوستو
،،خیمے الگ الگ سہی لشکر الگ الگ ،،

بس نام ہی تو بدلے ہیں وہ واردات کے 
چلتے فقط ہمیں پہ ہیں خنجر الگ الگ

احساس ہونے لگتا ہے خطرہ کہیں پہ ہے 
جب میڈیا دکھاتا ہے منظر الگ الگ

اجمل ہماری قوم میں کیسے ہو اتحاد
ہم ہی بنا کے رکھے ہیں رہبر الگ الگ

محمد جمال اجمل


 

فہیم احمد صدیقی

یوم پیدائش 05 فروری 1948

تُوسمندر ہے تری ذات کا حصہ ہو جاﺅں
ایک مدت سے تمنا ہے کہ دریا ہوجاﺅں

فہیم احمد صدیقی


 

اثر رانچوی

یوم پیدائش 04 فروری 1924

نظم اردو زبان

حیف اردو پہ ابھی تک یہ سِتم جاری ہے
جانے کیوں اِس کو مِٹا دینے کی تیاری ہے
ہر زباں آپ نظروں میں بڑی پیاری ہے
صرف لے دیکے یہی اردو سے بیزاری ہے

اردو ہی بول کے اردو کو مِٹاتے کیوں ہو
تم اِسے غیر سمجھ کر کے بھگاتے کیوں ہو

اور نہ اردو پہ ظلم و سِتم ایجاد کرو
سب زبانوں کی ملکہ ہے ذرا یاد کرو
اِس کو غیروں کی زباں کہکے نہ بیداد کرو
نہ نِلکوا کے یہاں سے اِسے برباد کرو

یہیں پھولی ہے پھلی ہے یہیں رہنے دو اِسے
یہ تو مصری کی ڈلی ہے یہیں رہنے دو اِسے

اِس سے نفرت ہے تو پھر اردو میں تقریر ہے کیوں
اِس کی بربادی کی دِن رات یہ تدبیر ہے کیوں
آج فِلموں میں اِسی اردو کی تصویر ہے کیوں
پھربھی گردن میں بچاری کی ئہ شمشیر ہے کیوں

سن لو اب اِس کو مِٹانے سے مِٹے گی نہ کبھی
لاکھ تم کاٹنا چاہوگے کٹے گی نہ کبھی

کیا نہیں اِس میں مروت ہے محبت ہے نہیں
کیا بھلا اِس میں فراوانی وسعت ہے نہیں
کیا یہ بھارت زباں ہے یہ حقیقت ہے نہیں
کیا یہ بھارت کی زباں ہے یہ حقیقت ہے نہیں

پھر بھی اردو سے یہ تم کو بغاوت کیوں ہے
اِس قدر اردو سے حیرت ہے عداوت کیوں ہے

اثر رانچوی


 

آشوتوش مشرا ازل

یوم پیدائش 04 فروری 1989

یہ دولت رتبہ شہرت اور یہ ایمان مٹی ہے 
لگایا ہاتھ تب جانا فلک بے جان مٹی ہے 

لگی جب آگ پتوں میں شجر تب رو پڑا غم میں 
کہا پھر شاخ نے ہر شے یہاں نادان مٹی ہے 

لکھوں میں فلسفے کی شاعری یا گیت الفت کے 
میں شاعر ہوں مری ہر نظم کا عنوان مٹی ہے 

کتاب ہجر میں میں اب لکھوں گا وصل کے قصے 
محبت میں ملا ہے جو مجھے تاوان مٹی ہے 

آشوتوش مشرا ازل



شبیر اصغر

یوم پیدائش 04 فروری 1966

وفورِ شوق میں اک بے کلی ہے
نظرمیں ہر گلی تیری گلی ہے

ترے قدموں کی برکت سے جہاں میں
دکھی انسانیت نے سانس لی ہے

اجالے بھی گدائی پر ہیں نازاں
عجب اک نور کی دھارا چلی ہے

کریمی کی تری تمثیل کیا ہو
معافی دشمنوں کو بھی ملی ہے

خزاں کا دور دورہ تھا چمن میں
بہارِ زندگی تجھ سے چلی ہے

سخاوت ، درگزر ، الفت ، اخوت
ترے سائے میں ساری خو پلی ہے

امیں ، صادق کہےدشمن بھی جس کو
تری ہی ذات وہ دودھو دھلی ہے

شبِ غم ہنس کے جو جینا سکھائے
تری شیوہ ، تری زندہ دلی ہے

چمک جائیں گنہگاروں کے چہرے
گلی شبیرؔ وہ ان کی گلی ہے

شبیر اصغر



حاویؔ مومن آبادی

یوم پیدائش 04 فروری 1982

دکھنے میں باغ باغ ہیں ہم لوگ
ورنہ تو داغ داغ ہیں ہم لوگ

خوابِ خرگوش میں پڑے ہیں گُم 
ہائے کیا خر دماغ ہیں ہم لوگ

دل کی ہر بات مان لیتے ہیں 
کتنے سادہ دماغ ہیں ہم لوگ

کسی مسمار خُمر خانے کے
صد شکستہ ایاغ ہیں ہم لوگ

ایک دوجے سے جل رہے ہیں ہم
گویا حاویؔ چراغ ہیں ہم لوگ

حاویؔ مومن آبادی


 

Friday, February 24, 2023

چندر بھان کیفی دہلوی

یوم وفات 04 فروری 1941

کیا حسن ہے یوسف بھی خریدار ہے تیرا
کہتے ہیں جسے مصر وہ بازار ہے تیرا

تقدیر اسی کی ہے نصیبہ ہے اسی کا
جس آنکھ سے کچھ وعدۂ دیدار ہے تیرا

تا زیست نہ ٹوٹے وہ مرا عہد وفا ہے
تا حشر نہ پورا ہو وہ اقرار ہے تیرا

برچھی کی طرح دل میں کھٹکتی ہیں ادائیں
انداز جو قاتل دم رفتار ہے تیرا

کیا تو نے کھلائے چمن بزم میں کیفیؔ
کیا رنگ گل افشائی گفتار ہے تیرا

چندر بھان کیفی دہلوی



الطاف نادر

یوم پیدائش 03 فروری 1951

خوابیدہ زمانے کو جگاتے جاؤ
نقارہ اخوت کا بجاتے جاؤ
اغلط کوئی کہتا ہے اسے کہنے دو
دیوار عداوت کی گراتے جاؤ

الطاف نادر



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...