Urdu Deccan

Tuesday, February 28, 2023

خطاب عالم شاذ

یوم پیدائش 08 فروری 1982

مِری ترقی کے ضامن مِرے رقیب ہوئے
ملا جو مجھ کو یہاں اُن کو کیا؟ نصیب ہوئے

ہنسی اڑاتے رہے جو ،وہی خموش ہوئے
جو دور دور رہے برسوں اب قریب ہوئے

مخالفت جو سدا دشمنی میں کرتے رہے
زمین اور زماں بدلا کیا! حبیب ہوئے

ہمارے چاہنے والوں کی چاہ کو چاہو
اگرملے وہی چاہت زہے نصیب ہوئے

گلاب دل میں جو ہر دم کھِلائے رکھتے ہیں
وہی سبھی کے دلوں میںبھی عندلیب ہوئے

ملاپسند کا مضمون جس کی چاہت تھی
حیاتیات سے رغبت ہوئی طبیب ہوئے

جنھیں شغف تھا قلم اور کتاب سے دن بھر
وہی زما ں میں معلم وہی ادیب ہوئے

خطاب عالم شاذ


 

انیس عظیم آبادی

یوم پیدائش 08 فروری 1943

پوشیدہ درد و غم میں معراجِ زندگی ہے
تاریکیوں میں پنہاں دھندلی سی روشنی ہے

دن رات کشمکش میں کیوں میری زندگی ہے
تم سے چھپی نہیں ہے جو میری بے بسی ہے

مہتاب بن کے چمکو تاروں کی انجمن میں
تم خوش رہو ہمیشہ میری یہی خوشی ہے

قربان تم یہ کردوں قلب و جگر میں اپنا
کہہ دو زباں سے اپنی ، خاطر میں جو کمی ہے

کیوں سرد پڑ گئی ہے جام و سبو کی محفل
کیا بات ہوگئی ہے ، ہر سمت خامشی ہے

وہ ہم نوا ہمارے ، ہم خود بھی جب نہیں ہیں
کیوں پوچھتی ہے دنیا ، یہ کون اجنبی ہے

انیس عظیم آبادی


 

حیرت فرخ آبادی

یوم پیدائش 08 فروری 1930

دل دکھانا تمہاری فطرت ہے 
چوٹ کھانا ہماری عادت ہے 

مجھ کو یوں ہی خراب ہونا تھا 
بے سبب تم کو کیوں ندامت ہے 

جھانک کر ایک بار آنکھوں میں 
خود ہی پڑھ لو جو دل کی حالت ہے
 
راہ الفت میں جان دے دینا 
اس سے بڑھ کر کوئی شہادت ہے 

تیری فرقت ہو یا تری قربت 
ایک دوزخ ہے ایک جنت ہے 

تم نے دیکھا ہے ایسے جلووں کو 
کس لیے مجھ سے پھر شکایت ہے 

اس بھروسے گناہ کرتا ہوں 
بخش دینا تمہاری فطرت ہے 

سوئے مے خانہ اٹھ چلے ہیں قدم 
جیسے یہ بھی کوئی عبادت ہے 

زندگی کو سنبھال کر رکھنا 
ایک بے درد کی امانت ہے 

درد ہی درد جس کے شعروں میں 
اور ہے کون صرف حیرتؔ ہے 

حیرت فرخ آبادی 


 

گووند گلشن

یوم پیدائش 07 فروری 1957

منتظر آنکھیں ہیں میری شام سے 
شمع روشن ہے تمہارے نام سے 

چھین لیتا ہے سکوں شہرت کا شوق 
اس لیے ہم رہ گئے گمنام سے 

سچ کی خاطر جان جاتی ہے تو جائے 
ہم نہیں ڈرتے کسی انجام سے 

اپنے من کی بات اب کس سے کہوں 
آئنہ ناراض ہے کل شام سے 

کیا عجب دنیا ہے یہ دنیا یہاں 
لوگ ملتے ہیں مگر بس کام سے 

ایسا کچھ ہو جائے دل ٹوٹے نہیں 
سوچیے گا آپ بھی آرام سے 

مجھ سے پوچھو آنسوؤں کی برکتیں 
مطمئن ہوں رنج و غم آلام سے

گووند گلشن


 

ایوب صابر

یوم وفات 07 فروری 1989

متاع فکر و نظر رہا ہوں 
مثال خوشبو بکھر رہا ہوں 

میں زندگانی کے معرکے میں 
ہمیشہ زیر و زبر رہا ہوں 

شفق ہوں سورج ہوں روشنی ہوں 
صلیب غم پر ابھر رہا ہوں 

سجاؤ رستے بچھاؤ کانٹے 
کہ پا برہنہ گزر رہا ہوں 

نہ زندگی ہے نہ موت ہے یہ 
نہ جی رہا ہوں نہ مر رہا ہوں 

جو میرے اندر چھپا ہوا ہے 
اس آدمی سے بھی ڈر رہا ہوں 

وہ میرے اپنے ہی غم تھے صابرؔ 
کہ جن سے میں بے خبر رہا ہوں

ایوب صابر



زین الدین عادل

یوم پیدائش 06 فروری 1973

مہر و اخلاص سے انسان کا دل ہے خالی
رہ گیا صرف یہاں ہاتھ ملانے کا چلن

زین الدین عادل 



افتخار احمد

یوم پیدائش 05 فروری 1971

مکیں رویا مکاں رویا زمیں روئی زماں رویا
ہوا یوسف جو گم تو کارواں کا کارواں رویا

ندامت کا ہراک قطرہ کرم کااستعارہ ہے
گھٹا رحمت کی ہے برسی وہاں ، عاصی جہاں رویا

ستم ایجاد گلچیں نے یوں طرحِ نو سے گل کترا
ہیں پھیلے برگِ گل پر قطرۂ نم ، آسماں رویا

عجب سفاک حاکم تھا وہ سکھ پاتا تھا دکھ دے کر
وہ گزراجب جہاں سے تو خوشی سے نا تواں رویا

عمر چل کر فلسطینِ مقدس جس گھڑی پہنچے
تھی شاہی پا پیادہ شہ نشیں ، تھا , شتر باں رویا

کہیں سوکھا کہیں طوفاں کہیں بارش کہیں سر سر
کرم کردے خدایا اب جہاں کا ہے جہاں رویا

یہ دنیا ہے ، یہاں ہر شے کو نسبت بس غرض سے ہے
نشاطِ حرص میں آکر ہے عیارِ جہاں رویا

ہوس کاروں کی ہے فطرت کہ رو رو کر بنائیں کام
کبھی ان کی زباں روئی ، کبھی ان کا دہاں رویا

معلم ہوں ، جگا دوں پیاس دانش کی ذرا سا بس
اسی خاطر دعا میں افتخارِ بے نشاں رویا

افتخار احمد


 

فہیم احمد صدیقی

یوم پیدائش 05 فروری 1948

دن كو چھوڑا ہاتھ تھاما رات کا
ہم کو ہے ادراک ترجیحات کا

ہم نے بس خوشبو کو ہرجائی کہا
لگ گیا ان کو برا اس بات کا

آپ ہو تے ساتھ تو کچھ بات تھی
ہے گراں اب سلسلہ برسات کا

توڑ کر تارے ابھی لا تا ہو ں میں
کام ہے یہ میرے بائیں ہاتھ کا

ان کا رخ تم کو اگر ہے موڑنا
جائزہ تو لیجے گا حالات كا

پختہ تر میرے عزائم ہیں فہیم
مجھ کو اندیشہ نہیں ہے مات کا

فہیم احمد صدیقی



اشفاقؔ حیدر

یوم پیدائش 05 فروری 2005

لوگ سارے مر رہے ہیں بھوک سے
چوریاں بھی کر رہے ہیں بھوک سے

مفلسوں کے بچے اپنے گھر نہیں
پل کسی رہ پر رہے ہیں بھوک سے

ہم سبھی غربت کی چکی میں پسے
کام سارے کر رہے ہیں بھوک سے

بادشہ دولت سے جیبیں اور ہم
پیٹ اپنا بھر رہے ہیں بھوک سے

حکمراں اشفاقؔ سب ہیں عیش میں
ہم گزارا کر رہے ہیں بھوک سے

 اشفاقؔ حیدر


 

محمد جمال اجمل

یوم پیدائش 05 فروری 1985

روٹھو گے ماں سے کھاؤ گے ٹھوکر الگ الگ
پھر بولیاں سنائیں گے گھر بھر الگ الگ

کھارا کے ساتھ ساتھ ہی میٹھا بنا دیا
بہتے ہیں ایک ساتھ سمندر الگ الگ

باد خزاں کے درمیاں تنہا میں پھول ہوں 
آتے ہیں میرے پاس ستمگر الگ الگ

ہیں اہل حق ہی سب کے نشانے پہ دوستو
،،خیمے الگ الگ سہی لشکر الگ الگ ،،

بس نام ہی تو بدلے ہیں وہ واردات کے 
چلتے فقط ہمیں پہ ہیں خنجر الگ الگ

احساس ہونے لگتا ہے خطرہ کہیں پہ ہے 
جب میڈیا دکھاتا ہے منظر الگ الگ

اجمل ہماری قوم میں کیسے ہو اتحاد
ہم ہی بنا کے رکھے ہیں رہبر الگ الگ

محمد جمال اجمل


 

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...