مِری ترقی کے ضامن مِرے رقیب ہوئے
ملا جو مجھ کو یہاں اُن کو کیا؟ نصیب ہوئے
ہنسی اڑاتے رہے جو ،وہی خموش ہوئے
جو دور دور رہے برسوں اب قریب ہوئے
مخالفت جو سدا دشمنی میں کرتے رہے
زمین اور زماں بدلا کیا! حبیب ہوئے
ہمارے چاہنے والوں کی چاہ کو چاہو
اگرملے وہی چاہت زہے نصیب ہوئے
گلاب دل میں جو ہر دم کھِلائے رکھتے ہیں
وہی سبھی کے دلوں میںبھی عندلیب ہوئے
ملاپسند کا مضمون جس کی چاہت تھی
حیاتیات سے رغبت ہوئی طبیب ہوئے
جنھیں شغف تھا قلم اور کتاب سے دن بھر
وہی زما ں میں معلم وہی ادیب ہوئے