Urdu Deccan

Tuesday, February 28, 2023

محمد عثمان سحر

یوم پیدائش 13 فروری 1991

اب کے تجدیدِ وفا ہو تو بہت بہتر ہے
عشق کا رنگ نیا ہو تو بہت بہتر ہے

ہو کے مجبور بچھڑنے کے سوا سب ہےقبول
ہجر کی اور وجہ ہو تو بہت بہتر ہے

لذَّتِ عشق میں جنت کے سبھی درجوں پر 
جانِ من ساتھ ترا ہو تو بہت بہتر ہے 

آخری سانس ہو سجدے میں ترے ہاتھوں پر
سامنے میرے خدا ہو تو بہت بہتر ہے 

خوب واقف ہے محبت کے فضائل سے سحر
دل کا ہر درس ادا ہو تو بہت بہتر ہے 

تبصرہ ہجر پہ میرا ہے فقط اتنا سحر
جسم سے روح جدا ہو تو بہت بہتر ہے

محمد عثمان سحر



ناصر فراز

یوم پیدائش 13 فروری 1961

تصورات میں یادوں کی جب برات چلی
تو یوں لگا کہ مرے ساتھ کائنات چلی

کوئی نہ روک سکا اس کے جاتے قدموں کو
چھڑا کے ہاتھ جو شہزادیِ حیات چلی

عجیب چیز ہے دولت کی یہ حسیں دیوی
یہ جس کے ساتھ نہ چلنا تھا اس کے ساتھ چلی

خدائے قادرِ مطلق کے روبرو اے فرازؔ
نہ میری بات چلی ہے نہ تیری بات چلی

ناصر فراز



نجم السحر ثاقب

یوم پیدائش 13 فروری 2000

سخاوتیں بھی ہیں جدا عنایتیں بھی خوب ہیں
یہ خوشبوؤں کے شہر کی روایتیں بھی خوب ہیں

سمجھ نہیں رہے ہیں کچھ پہ سنتے ہیں بغور سب
عجیب لوگ ہیں یہاں سماعتیں بھی خوب ہیں

بس اک قدم پہ تھا ہدف مگر پہنچ نہیں سکا
یہ وقت اور وقت کی نزاکتیں بھی خوب ہیں

کہاں ہوا ہے فیصلہ کوئی بھی وقت پر یہاں
ہمارے ملک میں تو یوں عدالتیں بھی خوب ہیں

دماغ سوچتا ہے کچھ ، کچھ اور کر رہا ہے دل
مرے دل و دماغ کی رقابتیں بھی خوب ہیں

نجم السحر ثاقب



صفدر صدیق رضی

یوم پیدائش 13 فروری 1949

آنکھوں میں ہے اب تک وہی زیبائشِ دنیا
رکھا نہ کہیں کا مجھے اے خواہشِ دنیا

اچھا ہے کہ جلتے ہو خود اپنی ہی تپش میں
تم تک ابھی پہنچی ہی نہیں آتشِ دنیا

وسعت میں ہمیشہ سے جداگانہ ہیں دونوں
دنیا میں نہیں دل میں ہے گنجائشِ دنیا

اے جذبہءپندار قدم بوس نہ ہونا
 پیروں سے لپٹ جائے گی آلائشِ دنیا

چشم و لب و رخسار تو غارت گرِ جاں ہیں
 جس دم وہ کھُلا ہم پہ کھُلی سازشِ دنیا

دنیا کو کیا ترک جب اس کیلئے ہم نے
کی ہم سےتب اس شخص نےفرمائشِ دنیا

صفدر صدیق رضی


 

مضطر مجاز

یوم پیدائش 13 فروری 1935

فن کار ہے تو اپنے ہنر کی بھی جانچ کر 
دو اور دو کو چھ نہیں کرتا تو پانچ کر 

ہیں تیرے کتنے کام کے بے کار کس قدر 
دریاؤں کو کھنگال ستاروں کی جانچ کر 

لے لے نہ سارے شہر کو اپنی لپیٹ میں 
سر میں سلگ رہی ہے جو ٹھنڈی وہ آنچ کر 

سچ بولنے کی تاب نہیں ہے تو کم سے کم 
اے عقل مند جھوٹ کو چمکا کے سانچ کر 

کب تک زمیں مکاں زن و فرزند کاروبار 
ہستی کا حل بھی ڈھونڈ کوئی سونچ سانچ کر 

مٹی بھی تیری دیکھ کے اگلے گی سیم و زر 
اپنے لہو سے چھوڑ اسے سینچ سانچ کر 

ہیرے کو کون پوچھنے والا ہے اے عزیز 
ہیرے کو چھیل چھال کے چمکا کے کانچ کر 

مضطر مجاز


 

کیدار ناتھ کیدار

یوم پیدائش 12 فروری 1926

بن رہا ہے پھر جنوں نغموں کے جال
انگلیاں رکھی ہیں کس نے ساز پر

کیدار ناتھ کیدار


 

حیدر صفت

یوم پیدائش 12 فروری 1949

کچھ تو وہ سست کچھ زمانہ تیز
اور سفر بھی تو حسبِ حال نہ تھا

حیدر صفت


 

یوسف جمال

یوم پیدائش 11 فروری 1947

کورے کاغذ کی طرح بے نور بابوں میں رہا 
تیرگی کا حاشیہ بن کر کتابوں میں رہا 

میں اذیت ناک لمحوں کے عتابوں میں رہا 
درد کا قیدی بنا خانہ خرابوں میں رہا 

جس قدر دی جسم کو مقروض سانسوں کی زکوٰۃ 
کیا بتاؤں جسم اتنا ہی عذابوں میں رہا 

بے صفت صحرا ہوں کیوں صحرا نوردوں نے کہا 
ہر قدم پر جب کہ میں اندھے سرابوں میں رہا 

وقت کی محرومیوں نے چھین لی میری زبان 
ورنہ اک مدت تلک میں لا جوابوں میں رہا 

ڈھونڈتے ہو کیوں جلی تحریر کے اسباق میں 
میں تو کہرے کی طرح دھندلے نصابوں میں رہا

یوسف جمال



عبد الغفور نساخ

یوم پیدائش 11فروری 1834

ظاہراً موت ہے قضا ہے عشق
پر حقیقت میں جاں فزا ہے عشق

دیتا ہے لاکھ طرح سے تسکین
مرض ہجر میں دوا ہے عشق

تا دم مرگ ساتھ دیتا ہے
ایک محبوب با وفا ہے عشق

دیکھ نساخؔ گر نہ ہوتا کفر 
کہتے بے شبہ ہم خدا ہے عشق

عبد الغفور نساخ 

 


کمار وشواس

یوم پیدائش 10 فروری 1970

دل تو کرتا ہے خیر کرتا ہے 
آپ کا ذکر غیر کرتا ہے 

کیوں نہ میں دل سے دوں دعا اس کو 
جبکہ وہ مجھ سے بیر کرتا ہے 

آپ تو ہو بہ ہو وہی ہیں جو 
میرے سپنوں میں سیر کرتا ہے 

عشق کیوں آپ سے یہ دل میرا 
مجھ سے پوچھے بغیر کرتا ہے 

ایک ذرہ دعائیں ماں کی لے 
آسمانوں کی سیر کرتا ہے

کمار وشواس


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...