Urdu Deccan

Tuesday, February 28, 2023

ریاض غازی پوری

یوم پیدائش 17 فروری 1937

تسلی دے کے بہلایا گیا ہوں 
سکوں کی راہ پر لایا گیا ہوں 

عدم سے جانب گلزار ہستی 
میں خود آیا نہیں لایا گیا ہوں 

کڑی منزل عدم کی ہے اسی سے 
یہاں دم بھر کو ٹھہرایا گیا ہوں 

حقیقت کا ہوا ہے بول بالا 
میں جب سولی پہ لٹکایا گیا ہوں 

حقیقت سے میں افسانہ بنا کر 
ہر اک محفل میں دہرایا گیا ہوں 

خدا معلوم ان کی انجمن سے 
میں خود اٹھا کہ اٹھوایا گیا ہوں 

ریاضؔ اپنا تھا شیوہ گل پرستی 
مگر کانٹوں میں الجھایا گیا ہوں

ریاض غازی پوری


 

آفتاب عالم مٹابرجی

یوم پیدائش 16 فروری 1964

صاف دامن ہے کہاں داغ گناہوں کے ہیں 
کس لئے سادہ دل انسان مجھے کھینچتا ہے 

بحر و آوزان کی حاجت نہیں پڑھتی مجھ کو
خوں پلانے کو قلمدان مجھے کھینچتا ہے 

سر یہ خم کیوں نہ رہے آپ کے آجانے پر 
آج بھی آپ کا احسان مجھے کھینچتا ہے 

آرزو ضبط سے جب آگے نکال جاتی ہے 
" دشت میں روح کا ہیجان مجھے کھینچتا ہے "

میرے اللہ مجھے حفظ و امان میں رکھنا
وسوسے ڈال کے شیطان مجھے کھینچتا ہے 

وہ بلائیں گے تو سب چھوڑ کے جانا ہوگا 
آج کل کوزہء ویران مجھے کھینچتا ہے 

اپنی انکھوں پہ لگائے ہوئے پٹی عالم
بے وجہ عدل کا میزان مجھے کھینچتا ہے 

آفتاب عالم مٹابرجی


 

عبد الحق بیتاب

یوم پیدائش 15 فروری 1964

ہوکر حصارِ ذات میں محبوس آئینہ
کرتا ہے درد و کرب کو محسوس آئینہ

کل کو عجب نہیں کہ وہ ثابت ہو خالی نیک
گو آج میرے حق میں ہے منحوس آئینہ

اے کاش کوئی کھول دے تصویر پر یہ راز
کیوں اپنی زندگی سے ہے مایوس آئینہ

خائف شعور ہے کہیں بیتابؔ کر نہ لے
عکسِ توہّمات کو معکوس آئینہ

عبد الحق بیتاب



منصور عمر

یوم پیدائش 15 فروری 1955

خدایا ذرا ان پہ احسان کر دے 
جو ہیں آدمی ان کو انسان کر دے 

رہیں یاد کے وہ گھروندے سلامت 
مگر دل کے آنگن کو ویران کر دے 

کبھی اپنے ہی روبرو جب کھڑا ہو 
تو آئینہ اس کو بھی حیران کر دے 

زمیں تا فلک ہو مرا نام روشن 
کچھ ایسا ہی جینے کا سامان کر دے 

بہت ناز ہے جن کو اپنی انا پر 
کبھی میرے گھر ان کو مہمان کر دے 

کروں نام کا اپنے سکہ میں رائج 
مجھے ایک دن کا جو سلطان کر دے 

اگر صلح منصورؔ کرتے نہیں وہ 
تو بڑھ کے لڑائی کا اعلان کر دے

منصور عمر


 

نسیم سحر

یوم پیدائش 15 فروری 1944

آپ ہی اپنا سفر دشوار تر میں نے کیا 
کیوں ملال فرقت دیوار و در میں نے کیا 

میرے قد کو ناپنا ہے تو ذرا اس پر نظر 
چوٹیاں اونچی تھیں کتنی جن کو سر میں نے کیا 

چل دیا منزل کی جانب کارواں میرے بغیر 
اپنے ہی شوق سفر کو ہم سفر میں نے کیا 

منزلیں دیتی نہ تھیں پہلے مجھے اپنا سراغ 
پھر جنوں میں منزلوں کو رہ گزر میں نے کیا 

ہر قدم کتنے ہی دروازے کھلے میرے لئے 
جانے کیا سوچا کہ خود کو در بدر میں نے کیا 

لفظ بھی جس عہد میں کھو بیٹھے اپنا اعتبار 
خامشی کو اس میں کتنا معتبر میں نے کیا 

زندگی ترتیب تو دیتی رہی مجھ کو نسیمؔ 
اپنا شیرازہ مگر خود منتشر میں نے کیا

نسیم سحر


 

قیصر القاسمی

یوم پیدائش 14 فروری 1940

رکھنا قدم سنبھال کر اے ناخدا ذرا
بحرِ الم نے لاکھ سفینے ڈبوئے ہیں

قیصر القاسمی



عرش منیر

یوم پیدائش 14 فروری 

عمل کر لو تو پھر جینے میں آسانی بہت ہوگی
مرے لہجے سے ہاں تم کو پریشانی بہت ہوگی

شریفوں کے بہت سے راز پوشیدہ ہیں سینے میں
 زباں کھولو ں گی تو دنیا کو حیرانی بہت ہوگی
 
صعوبت جھیلنا ہے ، رہنما کی رہنمائی میں
ابھی منزل تلک رستے میں ویرانی بہت ہوگی

میں تب پوچھوں گی حضرت اور کہیے اپنے بارے میں
طبیعت آپ کی جب شرم سے پانی بہت ہوگی

کسی مسند پہ گر قابض ہوا کم ظرف اور جاہل
تو پھر دعوے سے کہتی ہوں کہ من ما نی بہت ہوگی

چلیں میں پوچھتی ہوں خاک کب اکسیر ہوتی ہے
اگرچہ آپ نے بھی خاک تو چھانی بہت ہوگی

مجھے معلوم ہی تھا عرش جب آؤں گی محفل میں
مرے آنے سے پہلے حشر سامانی بہت ہوگی

عرش منیر



محمد عثمان سحر

یوم پیدائش 13 فروری 1991

اب کے تجدیدِ وفا ہو تو بہت بہتر ہے
عشق کا رنگ نیا ہو تو بہت بہتر ہے

ہو کے مجبور بچھڑنے کے سوا سب ہےقبول
ہجر کی اور وجہ ہو تو بہت بہتر ہے

لذَّتِ عشق میں جنت کے سبھی درجوں پر 
جانِ من ساتھ ترا ہو تو بہت بہتر ہے 

آخری سانس ہو سجدے میں ترے ہاتھوں پر
سامنے میرے خدا ہو تو بہت بہتر ہے 

خوب واقف ہے محبت کے فضائل سے سحر
دل کا ہر درس ادا ہو تو بہت بہتر ہے 

تبصرہ ہجر پہ میرا ہے فقط اتنا سحر
جسم سے روح جدا ہو تو بہت بہتر ہے

محمد عثمان سحر



ناصر فراز

یوم پیدائش 13 فروری 1961

تصورات میں یادوں کی جب برات چلی
تو یوں لگا کہ مرے ساتھ کائنات چلی

کوئی نہ روک سکا اس کے جاتے قدموں کو
چھڑا کے ہاتھ جو شہزادیِ حیات چلی

عجیب چیز ہے دولت کی یہ حسیں دیوی
یہ جس کے ساتھ نہ چلنا تھا اس کے ساتھ چلی

خدائے قادرِ مطلق کے روبرو اے فرازؔ
نہ میری بات چلی ہے نہ تیری بات چلی

ناصر فراز



نجم السحر ثاقب

یوم پیدائش 13 فروری 2000

سخاوتیں بھی ہیں جدا عنایتیں بھی خوب ہیں
یہ خوشبوؤں کے شہر کی روایتیں بھی خوب ہیں

سمجھ نہیں رہے ہیں کچھ پہ سنتے ہیں بغور سب
عجیب لوگ ہیں یہاں سماعتیں بھی خوب ہیں

بس اک قدم پہ تھا ہدف مگر پہنچ نہیں سکا
یہ وقت اور وقت کی نزاکتیں بھی خوب ہیں

کہاں ہوا ہے فیصلہ کوئی بھی وقت پر یہاں
ہمارے ملک میں تو یوں عدالتیں بھی خوب ہیں

دماغ سوچتا ہے کچھ ، کچھ اور کر رہا ہے دل
مرے دل و دماغ کی رقابتیں بھی خوب ہیں

نجم السحر ثاقب



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...