Urdu Deccan

Wednesday, March 1, 2023

نظر ایٹوی

یوم پیدائش 28 فروری 1953

انکی یادوں کا جشن جاری ہے
آج کی رات ہم پہ بھاری ہے

فاصلے قربتوں میں بدلیں گے
ہونٹ ان کے دعا ہماری ہے

عشق کرنے سے اس کو مت روکو
ہر پرندے کو جھیل پیاری ہے

اب بہت ہنس چکے مرے آنسو
قہقہوں اب تمہاری باری ہے

کون سی زندگی ملی تھی مجھے
کون سی زندگی گزاری ہے

مجھ سے یہ کہہ گیا سورج
اب چراغوں کی زمے داری ہے

ذکر جس کا نظرؔ نظرؔ ہے نظرؔ
اس نظر پر نظر ہماری ہے

نظر ایٹوی


 

حیات لکھنوی

یوم پیدائش 27 فروری 1931

یہ جذبۂ طلب تو مرا مر نہ جائے گا
تم بھی اگر ملوگے تو جی بھر نہ جائے گا 

یہ التجا دعا یہ تمنا فضول ہے 
سوکھی ندی کے پاس سمندر نہ جائے گا 

جس زاویے سے چاہو مری سمت پھینک دو 
مجھ سے ملے بغیر یہ پتھر نہ جائے گا 

دم بھر کے واسطے ہیں بہاریں سمیٹ لو 
ویرانیوں کو چھوڑ کے منظر نہ جائے گا 

یوں خوش ہے اپنے گھر کی فضاؤں کو چھوڑ کر 
جیسے وہ زندگی میں کبھی گھر نہ جائے گا 

اس کو بلندیوں میں مسلسل اچھالیے 
لیکن وہ اپنی سطح سے اوپر نہ جائے گا 

شہر مراد مل بھی گیا اب تو کیا حیاتؔ 
مایوسیوں کا دل سے کبھی ڈر نہ جائے گا 
حیات لکھنوییوم پیدائش 27 فروری 1931

یہ جذبۂ طلب تو مرا مر نہ جائے گا
تم بھی اگر ملوگے تو جی بھر نہ جائے گا 

یہ التجا دعا یہ تمنا فضول ہے 
سوکھی ندی کے پاس سمندر نہ جائے گا 

جس زاویے سے چاہو مری سمت پھینک دو 
مجھ سے ملے بغیر یہ پتھر نہ جائے گا 

دم بھر کے واسطے ہیں بہاریں سمیٹ لو 
ویرانیوں کو چھوڑ کے منظر نہ جائے گا 

یوں خوش ہے اپنے گھر کی فضاؤں کو چھوڑ کر 
جیسے وہ زندگی میں کبھی گھر نہ جائے گا 

اس کو بلندیوں میں مسلسل اچھالیے 
لیکن وہ اپنی سطح سے اوپر نہ جائے گا 

شہر مراد مل بھی گیا اب تو کیا حیاتؔ 
مایوسیوں کا دل سے کبھی ڈر نہ جائے گا 

حیات لکھنوی



اجتبی رضوی

یوم وفات 26 جنوری 1991

اب حالت دل نہ پوچھ کیا ہے 
شعلہ تھا بھڑک کے بجھ گیا ہے
 
انسان کو دل ملا مگر کیا 
اندھے کے ہاتھ میں دیا ہے 

تاثیر نے یہ کہا ہے ہم سے 
نالہ نغمے کی انتہا ہے 

تیری دنیا کو ہم سنواریں 
یہ ایک عجیب ماجرا ہے 

جو دور سے آ رہی ہے رضویؔ 
پہچانی ہوئی سی یہ صدا ہے 

اجتبی رضوی


 

ابراہیم شوبی

یوم پیدائش 26 جنوری 1984

یوں بھی کڑوا انہیں لگوں گا میں
سچ کی عادت ہے سچ کہوں گا میں 

ہار مانوں گا کب سہولت سے 
جب تلک سانس ہے لڑوں گا میں 

لڑکھڑانے لگے قدم میرے
گر گیا بھی تو پھر اُٹھوں گا میں

جیسی کرنی ہے ویسی بھرنی ہے 
گر کیا ہے بُرا بھروں گا میں 

تم جو چاہو تو کیا نہیں ممکن
تم نہ چاہو تو کیا کروں گا میں

جس میں نورِ خُدا بھرا ہوا ہے
طاقچے میں وہ دل رکھوں گا میں

ایسا سوچا بھی تھا نہیں شوبی 
کہ کسی پہ کبھی مروں گا میں 

ابراہیم شوبی


 

دائم بٹ

یوم پیدائش 25 فروری 1975

خدا بناتے چلے جا رہے ہیں صدیوں سے
بشر مٹاتے چلے جا رہے ہیں صدیوں سے

یہ کس نے کھینچ دیں نفرت کی ہم میں دیواریں 
لہو بہاتے چلے جا رہے ہیں صدیوں سے

عجیب خبط ہے اس شہرِ بے سماعت میں
صدا لگاتے چلے جا رہے ہیں صدیوں سے

قیام اپنے لیے موت کے ہے مترادف
سفر بڑھاتے چلے جا رہے ہیں صدیوں سے

دکھائی دیتا ہے یہ آئینے میں کون ہمیں
نظر چراتے چلے جا رہے ہیں صدیوں سے

ہم ایسے دھوپ گزیدہ کہ صحرا در صحرا
شجر اگاتے چلے جا رہے ہیں صدیوں سے

ہم اپنے مدِ مقابل ہیں آپ ہی دائم
شکست کھاتے چلے جا رہے ہیں صدیوں سے

 دائم بٹ



ظہیر الہ آبادی

یوم پیدائش 25 فروری 1985

کیسے بتاؤں دہر میں کیا کیا بدل گیا
امت کا فاطمہ ؓ سے رویہ بدل گیا

 پرسہ تو دور باپ کا، در بھی جلا دیا 
ماحول کیوں مدینے کا اتنا بدل گیا

در فاطمہ ؓ کا دیکھ کے حیران شہر ہے
سرکارؐ کیا گئے کہ مدینہ بدل گیا

کیسے ستم یہ ٹوٹے ہیں بنت رسول پر
احوال غیر ہو گئے حلیہ بدل گیا

دیتے نہیں جواب سلام علی ؓ کا اب
مردہ ضمیر لوگوں کا لہجہ بدل گیا

دیوار کے سہارے ہی چلتی ہیں سیدہ
چلنا رسول زادی کا کتنا بدل گیا

دیتے نہیں ہیں ساتھ جو کل تک مرید تھے
بعد رسول پل میں زمانہ بدل گیا

  ظہیر الہ آبادی

نجم الحسن کاظمی

یوم پیدائش 25 فروری 1998

خواب کچھ یوں مجھے رکھتا ہے پریشانی میں
اپنے ہی گھر کو جلاتا ہوں میں نادانی میں

ایک موقع تو ملے حسبِ توقع مجھ کو
تھوڑی مہلت ہی سہی وقت کی طغیانی میں

اکثر اوقات مرے قد سے بڑا ہوتا ہے
سائے کو دیکھتا رہتا ہوں میں حیرانی میں

دوست اک بار پلٹ کر مری بربادی دیکھ 
دوست تو دیکھ ابھی خوش ہوں میں ویرانی میں

 سب کے سب رنج برابر نظر آتے ہیں مجھے
عکس دھندلا نہیں ہوتا ہے کبھی پانی میں 

نجم الحسن کاظمی


 

احمد معاذ

یوم پیدائش 25 فروری 2002

آ کے گلشن میں کِھلو پھول سی چاہت کر کے
جب کہ بکھرو گے تو خوشبو کی وضاحت کر کے

خاک ہونا مرے ماتھے پہ لکھا تھا ورنہ
میں نے اک عمر گزاری تھی محبت کر کے

آندھیاں ان کے تعاقب میں چلا کرتی ہیں
جو بھی رہتے ہیں چراغوں کی حمایت کر کے

حافظے میں وہ کہیں جا کے ٹھہر جاتا ہے
یاد کرتا ہوں میں جب اس کو تلاوت کر کے

مجھ سے ناچیز میں شعلے کی جھلک جب دیکھی
کر دیا راکھ مجھے اس نے ملامت کر کے

اس کی ضد تھی کہ کہیں اور نہ دیکھوں احمد
سو مجھے پیار کیا اس نے جسارت کر کے

احمد معاذ


 

ضیاء الحق قاسمی

یوم پیدائش 25 فروری 1935

دل کے زخموں پہ وہ مرہم جو لگانا چاہے 
واجبات اپنے پرانے وہ چکانا چاہے 

میری آنکھوں کی سمندر میں اترنے والا 
ایسا لگتا ہے مجھے اور رلانا چاہے 

دل کے آنگن کی کڑی دھوپ میں اک دوشیزہ 
مرمریں بھیگا ہوا جسم سکھانا چاہے 

سیکڑوں لوگ تھے موجود سر ساحل شوق 
پھر بھی وہ شوخ مرے ساتھ نہانا چاہے 

آج تک اس نے نبھایا نہیں وعدہ اپنا 
وہ تو ہر طور مرے دل کو ستانا چاہے 

میں نے سلجھائے ہیں اس شوخ کے گیسو اکثر 
اب اسی جال میں مجھ کو وہ پھنسانا چاہے 

میں تو سمجھا تھا فقط ذہن کی تخلیق ہے وہ 
وہ تو سچ مچ ہی مرے دل میں سمانا چاہے 

اس نے پھیلائی ہے خود اپنی علالت کی خبر 
وہ ضیاؔ مجھ کو بہانے سے بلانا چاہے

ضیاء الحق قاسمی


 

سرور جاوید

یوم پیدائش 25 فروری 1947

یہی دنیا ہے کھو جائے گا تو بھی
اسی جنگل کا ہو جائے گا تو بھی

مجھے معلوم کب تک طشت دل میں
زیاں کی فصل بو جائے گا تو بھی

مسافت عمر بھر کی ایک شب میں
دم فرقت ہے سو جائے گا تو بھی

تری آنکھیں ستارے بانٹی ہیں
مرا دامن بھگو جائے گا تو بھی 

سرور جاوید



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...