Urdu Deccan

Wednesday, April 5, 2023

گوہر سیما

یوم پیدائش 14 مارچ 1968

چلو دنیا میں مہکائیں محبت 
بشر کو آؤ سکھلائیں محبت
 
کریں مسمار دیواریں انا کی 
زمیں پر مل کے پھیلائیں محبت 

ہوئی ہے گم کہیں یہ وحشتوں میں 
چلو اب ڈھونڈ کر لائیں محبت 

خزاں سی چھا گئی نفرت کی ہر سو 
چمن میں پھر سے بکھرائیں محبت 

بہت مشکل سفر ہے عشق یارو 
کہاں تک سب کو سمجھائیں محبت

گوہر سیما



واقف القادری نانپاروی

یوم پیدائش 13 مارچ 1917

تا حشر رہے دل کو یارب آزار مدینے والے کا
سنتے ہیں مسیحا ہوتا ہے بیمار مدینے والے کا

اے زائر طیبہ فکر ہے کیوں تم نے تو مدینہ دیکھا ہے
 پروانۂ جنت ہوتا ہے دیدار مدینے والے کا
 
خود فاقے کئے غیروں کو دیا اور پیٹ سے یتھر کو باندھا
اے صَلِّ علےٰ سبحان اللہ ایثار مدینے والے کا

کیا ذکر ترے میخانے کا کوثر کو بھی ٹھکرا دیتا ہے
ساقی ہے دو عالم سے برہم میخوار مدینے والے کا

بیواؤں یتیموں کا حامی ہر بے کس و مضطر کا والی
مخلوق پہ تھا اللہ و غنی یہ پیار مدینے والے کا

بیکار ہے یہ فرد عصیاں بے سود ہیں شعلے دوزخ کے
بخشش کیلئے بس کافی ہے اقرار مدینے والے کا

تا حشر ر ہے گی اے واقف گلہائے عقیدت کی خوشبو
شاداب رہے گا عالم میں گلزار مدینے والے کا

واقف القادری نانپاروی


 

تنویر دانش

یوم پیدائش 13 مارچ 1977

یہ جو دو گھونٹ کی اداسی ہے
تم نے بھی دیکھ لی اداسی ہے

میری تصویر الٹ کر دیکھو
دوسری سمت بھی اداسی ہے 

دیکھ تو نے بھی خوب دان کیا
مجھ کو درکار بھی اداسی ہے

رکھ دیا ہے چراغ سرحد پر
دیکھ اس پار بھی اداسی ہے

بات جوں چل رہی تھی دانش سے
اس نے کہنا تھا پی اداسی ہے

تنویر دانش


 

مظہر محی الدین

یوم وفات 12 مارچ 2021

غم حیات کہاں تک تجھے مناؤں میں
نشاط وکیف کے ساماں کہاں سے لاؤں میں

بس اک صدا کہ دلِ مضطرب سے اٹھتی ہے
نہ تم کو یاد رکھوں اب نہ بھول پاؤں میں

تمام عمر رفیقوں کے درمیاں گزری
کچھ ایسا ہو کہ کبھی خود سے مل بھی پاؤں میں

بہت اُٹھائے ترے ناز زندگی اب تو
متاع درد بتا اور کیا کماؤں میں

زمانہ اپنے فتور نظر پہ شاداں ہے
بس ایک فکر ہر اک پل ، اسے جگاؤں میں

مظہر محی الدین 



عبد الطیف عارف

یوم پیدائش 12 مارچ 1947

غم عیش کے پردے میں نہاں دیکھ رہا ہوں
محرومیِ قسمت کو جواں دیکھ رہا ہوں

شید دلِ مضطر میں کہیں آگ لگی ہے
نزدیک گریباں کے دھواں دیکھ رہا ہوں

ہوتا ہے جہاں ذکر غم و رنج و الم کا
اے قلبِ حزیں تجھ کو وہاں دیکھ رہا ہوں

بس یاد ہی تیری ہے شبِ غم کا سہارا
رہ رہ کے اسے راحتِ جاں دیکھ رہا ہوں

عارفؔ کے خیالاتِ مزیّن کی نزاکت
ہرشعر کے پردے میں نہاں دیکھ رہا ہوں 

عبد الطیف عارف



اکرم کُنجاہی

یوم پیدائش 12 مارچ

ہیں بد نما جو تھے کبھی شہکا ر یا رسولؐ
خود دیکھ لیں یہ زیست کے رخسار یا رسولؐ

ہیں شاخ شاخ سوختہ وہ نخل بد نصیب
شاداب تھے کبھی مرے اشجار یارسولؐ

اِس بار ہیں شکستہ مرے بال و پر حضورؐ
 اِس بار حادثے ہیں دل ا فگار یا رسولؐ

آشوب زندگی کا ہے اِس بار خو ف ناک 
اب ساتھ سر کے جائے گی دستار یا رسولؐ

سب کر ر ہے ہیں زند گی کو روز خار زار
یہ زندگی کے دکھ سبھی آزار یا رسولؐ

کچھ بھی نہیں ہے تاز گی اور کچھ نہیں مٹھاس
بھولے ہیں اپنے ذائقے اشجار یا رسولؐ

ہر سانس ناؤ کیجیے در پیش ہے سفر 
 دریا کی موج موج میں منجدھار یا رسول ؐ

کرتے ہیں ہم تلاش سکوں بھی کہاں کہاں 
  قرآن اور حدیث مدد گار یا رسولؐ

ہر گز نہ منکشف ہوئے وہ رازِ کائنات
جو آپؐ ہی پہ وا ہو ئے اسرار یارسولؐ

آقاؐ ہیں عاصیوں کے بس اک آپؐ چارہ گر
کس سے کریں گے عرض گنہگار یا رسولؐ

ہو جائے اِس سماج میں بھی زیست خوش نما
میرے کریں نصیب کو بیدار یا رسولؐ

اکرم کُنجاہی


 

مطرب بلیاوی

یوم پیدائش 12 مارچ 1929

بڑی لطیف کشش تھی حسیں پناہ میں تھا 
کھلی جو آنکھ تو میں اپنی خواب گاہ میں تھا 

حدیث عہد مسرت مری نگاہ میں تھی 
کہ ایک پیکر رعنا دل تباہ میں تھا 

تلا ہوا تھا کبھی جان لینے دینے پر 
عجیب رنگ وفا اس کے انتباہ میں تھا 

مری حیات ہی قاتل سہی مگر مطربؔ 
بڑے سکون سے میں اپنی قتل گاہ میں تھا

مطرب بلیاوی


 

ہستی مل ہستی

یوم پیدائش 11 مارچ 1947

پیار کا پہلا خط لکھنے میں وقت تو لگتا ہے 
نئے پرندوں کو اڑنے میں وقت تو لگتا ہے 

جسم کی بات نہیں تھی ان کے دل تک جانا تھا 
لمبی دوری طے کرنے میں وقت تو لگتا ہے 

گانٹھ اگر لگ جائے تو پھر رشتے ہوں یا ڈوری 
لاکھ کریں کوشش کھلنے میں وقت تو لگتا ہے 

ہم نے علاج زخم دل تو ڈھونڈ لیا لیکن 
گہرے زخموں کو بھرنے میں وقت تو لگتا ہے

ہستی مل ہستی



نفیس الحسینی نفیس

یوم پیدائش 11 مارچ 1933

جس تصوف میں خود نمائی ہے
وہ عبادت نہیں خدائی ہے

وہ سزاوارِ پارسائی ہے
جس کی فطرت میں بے ریائی ہے

کچھ جو میری سمجھ میں آتی ہے
زندگی موت کی دہائی ہے

قید ہستی سے جو رہائی ہے
خیر مقدم کو مرگ آئی ہے

روزِ اوّل سے جانتا ہوں اُنھیں
ان سے دیر ینہ آشنائی ہے

اللہ اللہ ، خالق و مخلوق
صفر سے نسبتِ اکائی ہے

ہمیں تیرا نشاں ملے نہ ملے
آرزوئے شکستہ پائی ہے

سدرۃ المنتہی سے بھی گزرے (صلی اللہ علیہ وسلم)
اللہ اللہ کیا رسائی ہے

غم وہ تحریر ہے محبت کی
خونِ دل جس کی روشنائی ہے

ہائے اس بے نیاز کی دُنیا
جس میں نمرود کی خدائی ہے

تنگ اسلاف ہوں ، معاذ اللہ
توبہ توبہ یہ بے وفائی ہے

جو برائی ہے میری اپنی ہے
اُن کا صدقہ ہے جو بھلائی ہے

دل کے ساغر سے پی رہا ہوں نفیس
 وہ جو پثرب سے کھنچ آئی ہے

نفیس الحسینی نفیس



احمد کمال پروازی

یوم پیدائش 11 مارچ 1944

تجھ سے بچھڑوں تو تری ذات کا حصہ ہو جاؤں
جس سے مرتا ہوں اسی زہر سے اچھا ہو جاؤں

تم مرے ساتھ ہو یہ سچ تو نہیں ہے لیکن
میں اگر جھوٹ نہ بولوں تو اکیلا ہو جاؤں

میں تری قید کو تسلیم تو کرتا ہوں مگر
یہ مرے بس میں نہیں ہے کہ پرندہ ہو جاؤں

آدمی بن کے بھٹکنے میں مزا آتا ہے
میں نے سوچا ہی نہیں تھا کہ فرشتہ ہو جاؤں

وہ تو اندر کی اداسی نے بچایا ورنہ
ان کی مرضی تو یہی تھی کہ شگفتہ ہو جاؤں

احمد کمال پروازی


 

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...