Urdu Deccan

Friday, April 7, 2023

سید اظہار مہدی بخاری

یوم پیدائش 15 مارچ 1973

خطہ ء پاک کے ہر گوشے سے آئے ہوئے لوگ
امن و تعلیم کی محفل ہیں سجائے ہوئے لوگ

زیورِ صبر و تحمل سے ہیں آراستہ سب
جذبہ ء امن و مروّت سے بنائے ہوئے لوگ

دستِ قاتل نظر آتا ہے کہیں باہر سے
جس نے سازش سے اُٹھائے ہیں کِرائے ہوئے لوگ

آج ہم لوٹ کے جائیں گے اسی عزم کے ساتھ 
قُرب محسوس کریں ہم سے ہٹائے ہوئے لوگ

ایسا کردار کرو پیش کہ سب لوگ کہیں 
امن و تعلیم کی ترویج سکھائے ہوئے لوگ

آپ کی ذات سے امیدِ امن رکھتے ہیں
دہشت و قتل و تعصب سے ستائے ہوئے لوگ

اشک شوئی کے لیے دیکھتی ہے چشم اُن کی
نام مذہب پہ تشدد سے رُلائے ہوئے لوگ

اپنا اظہار کرو ایسا کہ سب کھِل اُٹھیں
بادِ نفرت سے شب و روز بجھائے ہوئے لوگ

سید اظہار مہدی بخاری


 

بدر شمسی

یوم پیدائش 15 مارچ 1930

یوں بچھڑ جاؤں گا تجھ سے میں نے یہ سوچا نہ تھا
قربتوں میں فاصلوں کا کوئی اندازہ نہ تھا

جانے پہچانے ہوئے چہرے بھی سب تھے اجنبی
کتنا تنہا تھا وہاں بھی میں جہاں تنہا نہ تھا

اپنے دل کا زہرِغم آنکھوں سے جو چھلا گیا
وہ سمندر تھا مگر میری طرح گہرا نہ تھا

زندگی ہم بھی تری قدروں کے وارث تھے مگر
اپنی قسمت میں فقط دیوار تھی سایا نہ تھا

روٹھنے والے مری چاہت کا اندازہ تو کر
اس قدر تو میں نے خود کو بھی کبھی چاہا نہ تھا

زخم بھی جس نے دیئے ہیں مجھ کو غیروں کی طرح
وہ مرا اپنا تھا لیکن مجھ کو پہچانا نہ تھا

پیار آخر کیوں نہ آتا اپنے قاتل پر مجھے
میرے اس کے درمیاں کیا خون کا رشتا نہ تھا

بے وفائی کی شکایت تھی مجھے اس سے مگر
اس کی مجبوری کو جب تک بدر میں سمجھا نہ تھا

بدر شمسی


 

انوری بیگم

یوم پیدائش 15 مارچ 1959

جانے کیوں کر اس قدر سہما ہوا ہے آئینہ 
آئینے کو دیکھ کر بھی ڈر رہا ہے آئینہ 

کیا کوئی معصوم سی صورت نظر میں آ گئی 
کیوں سوالوں میں الجھ کر رہ گیا ہے آئینہ 

آپ اپنے آپ کو اس سے چھپا سکتے نہیں 
آپ کی اک اک ادا سے آشنا ہے آئینہ 

خواہشوں کے جال میں الجھا ہوا ہے ہر بشر 
کون کتنا بے غرض ہے جانتا ہے آئینہ 

آشیاں میرا جلایا نوچ ڈالے پر مرے 
آپ کو اس حال میں بھی دیکھتا ہے آئینہ 

اس لئے سب نے نگاہوں سے گرایا ہے اسے 
جس کی جیسی شکل ہے وہ بولتا ہے آئینہ 

ہاتھ میں پتھر لئے کیوں بڑھ رہے ہو اس طرف 
چوٹ کھا کر خود بھی پتھر بن چکا ہے آئینہ 

ظلم کی تلوار کے سائے میں بھی ہوں سجدہ ریز 
انوریؔ ہر حال میں پہچانتا ہے آئینہ 

انوری بیگم


 

اولاد رسول قدسی

یوم پیدائش 15 مارچ 1963

کس قدر ہے تو بے وفا سورج 
شام ہوتے ہی بجھ گیا سورج 

سخت حدت میں گھر گیا عالم 
دے گیا دھوپ کو ہوا سورج 

خود کرن مانگتی ہے تجھ سے پناہ 
اوڑھ لے ابر کی ردا سورج

اب تو بربادیاں ہیں سر پہ ترے 
وقت اپنا نہ تو گنوا سورج 

بار غم ڈال کر زمانے پر 
خوب لیتا رہا مزا سورج 

جان دے کر بھی راہ سے اپنی 
سرگراں سنگ کو ہٹا سورج 

خود مری ذات مجھ سے روٹھ گئی 
کم سے کم تو گلے لگا سورج 

ہم بھی مہماں ہوں ترے گھر کے 
پاس اپنے کبھی بلا سورج 

قدسیؔ اکتا گیا ہے چھاؤں سے 
سوزشوں میں اسے جلا سورج

اولاد رسول قدسی


 

بشر مہتاب

یوم پیدائش 15 مارچ 1994

مانا اس کو گلہ نہیں مجھ سے 
کچھ تو ہے جو کہا نہیں مجھ سے
 
حق نہیں دوستی کا ایسا کوئی 
جو کہ اس کو ملا نہیں مجھ سے 

دل ہی دل میں وہ بغض رکھتا ہے 
جو بظاہر خفا نہیں مجھ سے 

کچھ تو ہوگا ضرور اس کا سبب 
وہ جو اب تک لڑا نہیں مجھ سے 

لاکھ پیچھا چھڑانا چاہا مگر 
غم ہوا ہی جدا نہیں مجھ سے 

کیسے رہ پائے گا وہ میرے بغیر 
جو الگ ہی رہا نہیں مجھ سے 

جو بظاہر خفا ہے اے مہتابؔ 
وہ بہ باطن خفا نہیں مجھ سے

بشر مہتاب

 

شفقت حیات شفق ٹیکسلا

یوم پیدائش 15 مارچ

مثلِ گل کھل کے بکھرتے تو محبت کرتے
تم کسی دکھ سے گزرتے تو محبت کرتے

جن کو رغبت رہی بستی کے گلی کوچوں سے
دشت کی رہ سے گزرتے تو محبت کرتے

عشق میں ہوتی نہیں کوئی انا نام کی چیز
سر کو دہلیز پہ دھرتے تو محبت کرتے

تم کو ہر آن زمانے کی پڑی رہتی ہے
تم زمانے سے نہ ڈرتے تو محبت کرتے 

تم کو دنیا کے بکھیڑوں نے اجازت ہی نہ دی
اک نظر مجھ پہ جو کرتے تو محبت کرتے

خواب تو دیکھ لیا کچی بہاروں میں مگر
خواب کے رنگ نکھرتے تو محبت کرتے

تم نے تو اپنی الگ دنیا بسا رکھی ہے
گر کسی شخص پہ مرتے تو محبت کرتے 

اپنی ہی ذات میں سمٹے ہوئے رہتے ہو صدا
تم مری رہ میں بکھرتے تو محبت کرتے

آۂینہ ٹوٹ گیا جذبۂ دل کا شفقت
ہم اگر اس میں سنورتے تو محبت کرتے.

شفقت حیات شفق ٹیکسلا

 

محمد حنیف رامے

یوم پیدائش 15 مارچ 1930

گونگی التجا (نظم)
رب العزت 
وہ زمین جسے تو نے بنی آدم کے لیے جنت بنایا تھا 
اور امن کے گہوارے کا نام دیا تھا 
جہاں ہماری آزمائش کے لیے شجر ممنوعہ کے ساتھ ساتھ 
ہماری ربوبیت کے لیے تو نے شجر حیات بھی اگایا تھا 
ہماری وہ زمین پانی ہوا اور خشکی کی مخلوق کا مشترکہ گھر تھی 
اس پیاری زمین پر آباد ساری مخلوق ایک دوسرے سے راضی تھی 
اور جس کی ساری مخلوق کو باہم راضی دیکھ کر تو بھی ہم سے راضی تھا 
اے رب العزت ہم نے وہ زمین اپنے ہاتھوں برباد کر کے رکھ دی ہے 
ہمارا تجھ پر کوئی حق نہیں کہ ضد کریں 
لیکن تو نے توبہ کا دروازہ تو کھلا رکھا ہے 
بے شک توبہ کی ابتدا اعتراف سے ہوتی ہے 
مگر اس کی انتہا ہمیشہ دعا سے ہوتی آئی ہے 
میرے پاس دعا کے لائق الفاظ نہیں ہیں 
لیکن تیرے پاس میری گونگی التجا سننے کے لیے بہت اچھے کان ہیں 
حسن سماعت تجھ پر ختم ہے 
اس لیے کہ تو ازل سے مضطروں کی سنتا اور مردہ زمینوں کو زندہ کرتا آیا ہے 
سن اے سمیع سن 
ایک مرتبہ پھر اس زمین پر امن امید اور مسرت کے پھریرے لہرا دے 
ایک مرتبہ پھر اس کے بیٹے بیٹیوں کا ہاتھ پکڑ 
انہیں ادھورے پن سے نجات دے دے 
پورا کر دے انہیں 
وہ ہوس اور بے صبری کی کھولتی دلدل میں 
بد صورت مینڈکوں کی طرح اوندھے منہ پڑے ہیں 
انہیں پورے قد سے کھڑا کر دے 
ان کی عظمت آدم لوٹا دے 
انہیں ایک دوسرے پر اعتماد کرنا سکھا دے 
توفیق دے انہیں کہ تیری عطا کردہ قوت تخلیق سے 
زمین کو حسن اور معنی سے مالا مال کر دیں 
احترام ڈال دے ان کے دل و دماغ میں اس زمین کے لیے 
اپنی اس ماں کے لیے 
اس کی ساری مخلوق کے لیے 
نسل عقیدے جنس اور ثقافت کا فرق ان کی وحدت میں نئے رنگ بھرے 
وہ پورے کرۂ ارض پر پھیلے ہوں لیکن ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر 
وہ پورے کرۂ ارض کو ایک ایسے دسترخواں کی شکل دے دیں 
جس پر زمین کا سارا رزق زمین کی ساری مخلوق کے لیے عام ہو 
چھ عرب انسان ہی نہیں زمین کی ساری مخلوق سیراب و شاد کام ہو 
اے رب العزت 
تو نے اس زمین کی صورت میں جو جنت ہمیں دی تھی 
ہم نے اسے اپنے لیے جہنم بنا لیا ہے 
یہ جہنم صرف نفاق اور نفرت ہی نہیں خوف سے بھی لبریز ہے 
ایک دوسرے سے خوف اپنے آپ سے خوف 
اور خوف تو محبت کی نفی ہوتا ہے 
اور ساری محبتوں کی ابتدا اور انتہا 
ہمیں ایک مرتبہ پھر محبت سے سرشار کر دے 
کہ محبت کے بغیر ہمیں نہ تو سچا امن نصیب ہوگا اور نہ سچی زندگی 
ہم محبت سے محروم رہے تو خواہ تو زمین کو سو مرتبہ بھی جنت بنا دے 
ہم ہزار مرتبہ اسے جہنم بنا کے رکھ دیں گے 
ہم نے نفرت نفاق اور خوف کو آزما کر دیکھ لیا ہے 
اے رب العزت 
ہمارے وجود محبت کے لیے اس طرح ترس رہے ہیں 
جیسے پیاسی زمین بارش کے لیے ترستی ہے 
ہمیں محبت نصیب کر دے 

محمد حنیف رامے



رفیق احمد نقش

یوم پیدائش 15 مارچ 1959

ہر سانس ہے کراہ مگر تم کو اس سے کیا
ہو زندگی تباہ مگر تم کو اس سے کیا 

تم ہو سہیلیوں میں مگن اور میرا حال
تنہائی بے پناہ مگر تم کو اس سے کیا

تم تو ہر ایک بات پہ دل کھول کر ہنسو
بھرتا ہے کوئی آہ مگر تم کو اس سے کیا

منزل ملی نہ ساتھ تمہارا ہوا نصیب 
کھوئی ہے میں نے راہ مگر تم کو اس سے کیا

سیلاب میں سروں کی فصیلیں بھی بہہ گئیں 
بے جرم بے گناہ مگر تم کو اس سے کیا

اب زندگی کی مانگتے ہیں بھیک در بہ در 
شاہانِ کج کلاہ مگر تم کو اس سے کیا

رفیق احمد نقش



عبد الرحیم راقم

یوم پیدائش 14 مارچ 1912

آج سہارے چھوٹ گئے ہیں
بن کے مقدر پھوٹ گئے ہیں

عشق میں ان کے جانے کتنے
پیار بھرے دل ٹوٹ گئے ہیں

تاروں بھری راتوں میں اکثر
رنگیں سپنے ٹوٹ گئے ہیں

اب بھی بھروساکس پہ کروں جب
پیار کے رشتے ٹوٹ گئے ہیں

ہم بھی راقمؔ ہجر میں ان کے
چھاتی اپنی کوٹ گئے ہیں

عبد الرحیم راقم


 

عفاف روحی

یوم پیدائش 14 مارچ

اُداسی غزل گنگنانے لگی ہے
مجھے حال میرا بتانے لگی ہے

ہر اک لفظ میں گڑبڑاہٹ ہے اُتری
سکوں,وحشتِ دل مٹانے لگی ہے

جہاں میں کوئی بھی بُرا کب رہا ہے
انا میری جب سے ٹھکانے لگی ہے

دمِ آخری ہے،کہے جا رہی ہوں
مجھے زندگی اب گنوانے لگی ہے

خرد کا جنوں سے نہیں ہے تعلق
نگاہ ولی یہ بتانے لگی ہے

ملمّع بناوٹ کا وقتی سہی پر
دکان ریا جگمگانے لگی ہے

کُھلے زخم سی کر یہاں ایک لڑکی
لباس خودی کو بچانے لگی ہے

عفاف روحی

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...