Urdu Deccan

Saturday, April 8, 2023

راجیش الفت

یوم پیدائش 21 مارچ 1961

کہہ دو دل میں جو بات باقی ہے 
یہ نہ سوچو کہ رات باقی ہے 

عشق کی بات ہے ابھی کر لو 
بھول جاؤ حیات باقی ہے 

ساری دنیا ہے پھر بھی تنہا ہوں 
اک تمہارا ہی ساتھ باقی ہے 

آج کہتے ہیں بس شراب شراب 
کل کہیں گے نجات باقی ہے 

پہلے لازم ہے جیتنا دل کا 
پھر کہاں کائنات باقی ہے

راجیش الفت


 

سعید الظفر صدیقی

یوم پیدائش 21 مارچ 1944

زیرِ زمیں کھلے کہ تہِ آسماں کھلے
میرےخداکہیں تومری داستاں کھلے

کھلتانہیں ہے بیٹھے بٹھائے کوئی یہاں
ہم نے زمین اوڑھ لی تب آسماں کھلے

مدت ہوئی ہے دونوں کوبچھڑےہوئےمگر
اب تک نہ ہم یہاں نہ وہ ابتک وہاں کھلے

وہ شہرِ دوستاں ہو کہ شہرِ ستم شعار
آوارگانِ عشق کسی پر کہاں کھلے

اب تک تو شہر مہر بلب ہے مرا سعید
شایدستم کچھ اوربڑھے تو زباں کھلے

سعید الظفر صدیقی


 

سعدشاہد

یوم پیدائش 20 مارچ 2002

ہرا بھرا تھا خزاں میں شجر اداسی کا
ہم اہلِ درد نے کھایا ثمر اداسی کا

دیارِ دل کسی خوش رنگ کے در آنے سے 
ہوا ہے بے سر و ساماں نگر اداسی کا 

ِادھر اُدھر ہیں بہاروں نے گھر بسائے ہوئے 
وہ شاخ پھول کھلائے کدھر اداسی کا 

میں خوش خیال تلاشِ خدا میں سمجھا ہوں 
وہی خدا ہے جو ہے چارہ گر اداسی کا

سعدشاہد


 

کنول نور پوری

یوم پیدائش 20 مارچ 1931

آغاز سے غرض ہے نہ انجام سے مجھے
اے عشق واسطہ ہے ترے نام سے مجھے

راحت نصیب ہوتی ہے آلام سے مجھے
کہنا ہے بس یہ گردشِ ایام سے مجھے

کتنا سکوں ہے حسرتِ ناکام سے مجھے
کانٹوں پہ نیند آگئی آرام سے مجھے

دیوانہ وار جل کے پتنگے نے شمع پر
آگاہ کردیا مرے انجام سے مجھے

میرے جنونِ عشق کا شاید ہے یہ اثر
دنیاپکارتی ہے ترے نام سے مجھے

کہنا ہو جو مجھے ، میں وہ کہتا ہوں برملا
تعریف سے غرض ہے نہ دشنام سے مجھے

اک بوند بھی خلوص کی جس میں نہیں کنول
راحت کبھی ملےگی نہ اس جام سے مجھے

کنول نور پوری


 

عالیہ بخآری ہالہ

یوم پیدائش 20 مارچ 1970

اس نے بھیجا ہے پیار کا تحفہ
اک دل بے قرار کا تحفہ

قسمتو ں سے کسی کو ملتا ہے
جانِ جاں وصلِ یار کا تحفہ

سرد موسم نے لی ہے انگڑائی
آ چکا ہے بہار کا تحفہ

میرے قدموں کو کیجیے مضبوط
دیجیے اعتبار کا تحفہ

تیرا غم یوں چھپائے پھرتے ہیں
 جیسے دیرینہ یار کا تحفہ

آپ کے روپ میں ہمیں ہالہؔ
مل گیا غمگسار کا تحفہ

عالیہ بخآری ہالہ


 

محمد ظہور اختر

یوم پیدائش 19 مارچ 1955

قصۂ غم سنانا نہیں چاہیے
زخم دل کا دکھانا نہیں چاہیے

جو زبانِ خموشی نہ سمجھے اسے
حال دل کا بتانا نہیں چاہیے

پونچھ دو سب کے آنسو اگر ہو سکے
پر کسی کو رلانا نہیں چاہیے

شوق سے آسمانوں میں اڑیئے مگر
دن پرانے بھلانا نہیں چاہیے

عید کا چاند سمجھیں گے اہلِ نظر
آپ کو چھت پہ آنا نہیں چاہیے

ہم تو ہر رت میں اخترؔ اجڑتے رہے
دل کی بستی بسانا نہیں چاہیے

محمد ظہور اختر





Friday, April 7, 2023

احکم غازی پوری

یوم پیدائش 19 مارچ 1964

پرے ہے عقل سے پروازِ آرزوئے قلم
حدِ کمال سے آگے ہے جستجوئے قلم

مرے خیال میں مضمون لے کے آتے ہیں
سروشِ علم سے ہوتی ہے گفتگوئے قلم

غذائے ذہن اگر ہے جہاں کی معلومات
دلوں کی پیاس بجھاتا ہے آب جوئے قلم

یہی دعا ہے کہ علم و ادب کے گلشن میں
گلوں کے خامہ سے اٹھے فضا میں بوئے قلم

ادب کی قدر سے جو نابلد ہیں کیا جانیں
کہ اہلِ علم ہی ہوتے ہیں روبروئے قلم

یہ علم ایک قلم کار کی عبادت ہے
نماز حرف ، سیاہی ہے گر وضوئے قلم

میں آج قوم کی تاریخ لکھنے بیٹھا ہوں
یہ امتحان ہے ، رہ جا اے آبروئے قلم

امیرِ شہر ہو احکم ادب کی دنیا کے
اٹھو کہ دستِ سخنور بڑھا ہے سوئے قلم

احکم غازی پوری


 

قیصر صدیقی

یوم پیدائش 19 مارچ 1937

من بھی شاعر کی طرح تن بھی غزل جیسا ہے 
یہ ترے روپ کا درپن بھی غزل جیسا ہے 

ریشمی چوڑیاں ایسی کہ غزل کے مصرعے 
یہ کھنکتا ہوا کنگن بھی غزل جیسا ہے 

ان لچکتی ہوئی زلفوں میں ہے گوکل کا سماں 
یہ مہکتا ہوا ساون بھی غزل جیسا ہے 

لوگ گیتوں کی طرح تو بھی رسیلی ہے مگر 
میری سجنی ترا ساجن بھی غزل جیسا ہے 

میرے جذبات کی شوخی بھی غزل جیسی ہے 
میرے احساس کا بچپن بھی غزل جیسا ہے 

دیکھ کر تجھ کو غزل کیسے نہ لکھے قیصرؔ 
تو غزل جیسی ہے یوون بھی غزل جیسا ہے 

قیصر صدیقی


 

نجمہ خان افکار

یوم پیدائش 18 مارچ 1986

اس حیا کو یوں بے حجاب نہ کر
اپنے چہرے کو بے نقاب نہ کر

نجمہ خان افکار


 

مختار مسافر

یوم پیدائش 18 مارچ 1948

گنوا دو نہ خود کو خوشی کے لیے
یہی موت ہے زندگی کے لیے

گزرتے چلو دشت و دریا سے تم
نہ دم لوکبھی دو گھڑی کے لیے

کوئی نقش ایسا بناتے چلو
جو سورج بنے آدمی کے لیے

بچو اے مسافر کہ اب آدمی
خطرناک ہے آدمی کے لیے

مختار مسافر



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...