Urdu Deccan

Saturday, April 15, 2023

شاہدریاض عباس

یوم پیدائش 04 اپریل 1981

بے خطر سارا سفر اور بے ضرر سا راستہ
تم سمجھتے ہو کہ ہے یہ انبیا کا راستہ

چوک تم سےہو گئی ہے مصلحت کے چوک پر
سہل رستہ دیکھ کر چھوڑا جو سیدھا راستہ

کچھ سناؤ اس تذبذب کی گلی کی داستاں
کس نے رکھا یاد اور پھر کون بھولا راستہ؟

راہِ حق میں درہِ جاں سے گزر کر دوستو
ایک لمحے میں سمیٹو عمر بھر کا راستہ

ایک لمحے کیلئے خود موت سے جاکر ملو
زندگی سے پھر ملا دو زندگی کا راستہ

یاس کی شاموں میں جب تشکیک کی آندھی چلے
لا الہ کے نور سے پھر دیکھ لینا راستہ

دستِ موسی اور پھر زورِ عصا بھی چاہیے
ہر کس و نا کس کو کب دیتا ہے دریا راستہ

پیر ، ملا اور لیڈر کے مقلد کیا بنے
پھرنہ کھولیں اپنی آنکھیں پھر نہ دیکھا راستہ

شاہدریاض عباس



محمد فیضی

یوم پیدائش 04 اپریل

نقشہء خاک سجانے کے لئے آپؐ آئے
روح کی روح جگانے کے لئے آپؐ آئے 

بوجھ ایسا کہ پہاڑوں سے نہیں اٹھتا تھا
وہ کڑا بوجھ اٹھانے کے لئے آپؐ آئے

آپ آئے تو بہت تیرہ و تاریک تھے دل
نور پر نور دکھانے کے لئے آپؐ آئے 

آپؐ جب آئے تو پھر اور نہ آیا کوئی 
یعنی ہر ایک زمانے کے لئے آپؐ آئے 

ایک آدم کہ بنایا تھا خدا نے جس کو
اس کو انسان بنانے کے لئے آپؐ آئے 

محمد فیضی


 

بابر علی اسد

یوم پیدائش 04 اپریل 

ہر ایک لب پہ نہ آ ، سب کی التجاء تو نہ بن
تو مہربان بھلے رہ مگر خدا تو نہ بن 

طلب کی سانس پہ کھل اے مشام ِ جاں کی مہک 
یوں اپنا آپ نہ کھو شہر کی فضا تو نہ بن 

جو تجھ کو سوچ کے بولے ، ہو منکشف اس پر 
زباں دراز کسی شخص کا کہا تو نہ بن  

تجھے کہیں کا نہ چھوڑے گا انفراد کا شوق 
تو اپنے آپ سا لگ ، خود سے ماورا تو نہ بن 

بابر علی اسد


 

منظر نقوی

یوم پیدائش 04 اپریل 

سچ کو جھوٹ بنا جاتا ہے بعض اوقات 
بندہ ٹھوکر کھا جاتا ہے بعض اوقات 

گھر کی چھت پر رم جھم بارش جلتی دھوپ 
یہ موسم بھی آ جاتا ہے بعض اوقات 

اچھی قسمت اچھا موسم اچھے لوگ 
پھر بھی دل گھبرا جاتا ہے بعض اوقات 

روزانہ تو رات گئے گھر آتا ہے 
شام سے پہلے آ جاتا ہے بعض اوقات 

جیت کے مجھ سے اتنا کیوں اتراتے ہو 
ہار کے بھی جیتا جاتا ہے بعض اوقات 

تم نے ناحق رونے کا الزام دیا 
آنکھ میں پانی آ جاتا ہے بعض اوقات 

منظرؔ میٹھی باتیں بھی تو کرتا ہے 
کڑوے بول سنا جاتا ہے بعض اوقات

منظر نقوی


 

شازیہ قمر

یوم پیدائش 04 اپریل 

ہر ایک اہل چمن کیوں نہ پھر ہراس میں ہو
جب ایک سانپ کی آمد و رفت گھانس میں ہو

نگاہ شک کی ہر اک محترم پہ رکھنا ضرور
کوئی رجیم فرشتوں کے سے لباس میں ہو

نوازشات ، عنایات ، مہربانی کرم
غرض چھپی ہوئی شاید کہ التماس میں ہو

محل وہ رشتوں کا ہوگا نہیں کبھی زمیں بوس
خلوص و انس کا جذبہ اگر آساس میں ہو

دھیان رکھے گا قرب و جوار پر اپنے
طلب ہے جسکی وہ شاید کہ اس پاس میں ہو

غرور شازیہ کرتی ہوں اپنے بخت پہ جب 
مرا وجود کسی کی نگاہ خاص میں ہو

شازیہ قمر


 

اختر امام رضوی

یوم پیدائش 04 اپریل 1937

دنیا بھی پیش آئی بہت بے رخی کے ساتھ 
ہم نے بھی زخم کھائے بڑی سادگی کے ساتھ 

اک مشت خاک آگ کا دریا لہو کی لہر 
کیا کیا روایتیں ہیں یہاں آدمی کے ساتھ 

اپنوں کی چاہتوں نے بھی کیا کیا دیئے فریب 
روتے رہے لپٹ کے ہر اک اجنبی کے ساتھ 

جنگل کی دھوپ چھاؤں ہی جنگل کا حسن ہے 
سایوں کو بھی قبول کرو روشنی کے ساتھ 

تم راستے کی گرد نہ ہو جاؤ تو کہو 
دو چار گام چل کے تو دیکھو کسی کے ساتھ 

کوئی دھواں اٹھا نہ کوئی روشنی ہوئی 
جلتی رہی حیات بڑی خامشی کے ساتھ

اختر امام رضوی


 

عمران راقم

یوم پیدائش 02 اپریل 1973

وہ کیا کریں کہ اپنی حماقت سے تنگ ہیں 
جو لوگ میری ذات کی شہرت سے تنگ ہیں 

راہ طلب میں خیر و خبر کس کی کون لے 
سب لوگ اپنی اپنی ضرورت سے تنگ ہیں 

کترا رہا ہے ہر کوئی اپنوں سے غیر سے 
جو مل گئے تو سب کی شکایت سے تنگ ہیں 

تاریکیاں گھنیری ہیں جگنو بھی کیا کرے 
رستے اندھیری رات کی ظلمت سے تنگ ہیں 

کیا ہی مزے کی بات ہے راقمؔ یہاں کے لوگ 
خوددار آدمی کی شرافت سے تنگ ہیں 

عمران راقم



رمیشا قمر

یوم پیدائش 02 اپریل 

عجز و خلوص جب مرے پیکر میں آ گیا
سارا کمال پھر مرے دفتر میں آ گیا

دل کا تھا باب گرچہ مقفّل وہ اجنبی
"دستک دیے بغیر مرے گھر میں آگیا"

اس آسماں نے مجھ پہ مصیبت جو توڑ دی
میرا وجود کرب کے محور میں آگیا

میں منتظر رہی کوئی مشقِ ستم تو ہو
وہ مصلحت شناس کہ لشکر میں آگیا

میری وفا پہ تم کو جو کچھ اعتبار تھا
تو کیسا انقلاب یہ تیور میں آگیا؟

وہ میری زندگی کی تمنا، وہ میری جان
بگڑا تو پھر زمانے کی ٹھوکر میں آگیا

میرے ہر ایک لفظ، مری سوچ کا محل
بے لوث آج دامنِ دلبر میں آگیا

کس کو رمیشا ؔدرد کا انبار چاہیے
جتنا ہنود قسمتِ دختر میں آگیا

رمیشا قمر



سلمان منیر خاور

یوم پیدائش 02 اپریل 1992

کسی کا بدتر کسی کا اچھا گزر رہا ہے
یہ وقت ہے اور ازل سے ایسا گزر رہا ہے

ہزار عاشق خدا سے محوِ دعا ہوئے ہیں
فلک پہ ٹوٹا ہوا ستارا گزر رہا ہے

رقیب میرے نے اسکو ٹھکرا دیا ہے شاید
وہ آج میری گلی سے تنہا گزر رہا ہے

یہ نم تمہاری نگاہ سے بھی بہے گا اک دن
جو میری آنکھوں سے رفتہ رفتہ گزر رہا ہے

یہ ریل گاڑی کی چین کھینچو مجھے اتارو
یہ کیا مصیبت ہے میرا رستہ گزر رہا ہے

تمہیں پتا ہے تمہارا سلمان خوش نہیں ہے؟
تمہیں پتا ہے جو اس پہ صدمہ گزر رہا ہے؟

سلمان منیر خاور


 

آفتاب نعمانی

یوم پیدائش 01 اپریل 1970

شامِ غم کو رات بھر کا آسرا مل جائے گا
شہر میں کوئی نہ کوئی در کھلا مل جائے گا

سر سے پا تک اَٹ گیا ہوں راستے کی دھول میں
میں نے یہ سوچا تھا تیرا نقشِ پا مل جائے گا

شب گئے تک میں نہیں لوٹا تو میرے ہم سفر
غم کے خالی پن سے غم دہلیز کا مل جائے گا

میں نے کتنے موڑ کاٹے ہیں اسی امید پہ
زندگی شاید کہیں تیرا پتا مل جائے گا

غم کے دریاؤں کا رخ تنہا مری جانب نہیں 
اور بھی کوئی یہاں ہنستا ہوا مل جائے گا

 میں زمیں سے آسمانوں تک گیا ہوں آفتاب
کیا وہی جو پہلے میرے ساتھ تھا مل جائے گا

آفتاب نعمانی



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...