Urdu Deccan

Saturday, July 1, 2023

امتیاز علی نظر

یوم پیدائش 09 اپریل 1957

مطلب کے سانچے میں ہے ڈھلا پیار آجکل
حرص و ہوس میں سب ہیں گرفتار آجکل

واعظ کو وعظ سے ہے سروکار آجکل
کیوں دور ہوگیا ہے یہ کردار آجکل

اس دور کی لغت میں تو معنی بدل گئے
مکار کو کہے ہیں یہ ہشیار آجکل

سارے یہ فن جہاں کے یوں بیکار ہو گئے
اب ہو گیا فریبی بھی فنکار آجکل

انسان بھوک سے بھی مرے کچھ بھی غم نہیں
لازم ہے ملک کے لئے ہتھیار آجکل

قانون کو پڑھا ہے یہ قانون توڑنے
قانون توڑنے میں مدد گار آجکل

لیڈر بھی بن رہے ہیں وہ دنیا تیاگ کر
بھارت میں سادھو سنت چمتکار آجکل

تعلیم مل رہی ہے یہ تہذیب کھو گئی
ذہنوں سے ہو گئے ہیں یہ بیمار آجکل

اُس قوم کے نصیب میں بربادی کیوں نہ ہو
اب ہر گلی میں ایک ہے سردار آجکل

پنڈت ہو پادری ہو یا ہو مولوی نظر
دامن قناعتوں کا ہوا تار آجکل

امتیاز علی نظر



نسیم مخموری

یوم پیدائش 09 اپریل 1935

پردہ کسی کا کیوں مری بینائی سے اُٹھے
خوشبو سہانی راتوں میں تنہائی سے اُٹھے

احساس مجھ کو جانے کہاں لے کے اُڑ گیا
پتوں کے سوکھے ڈھیر جو انگنائی سے اُٹھے

جلتی رہی خموش فضاؤں کے درمیاں
انگلی نہ مجھ پہ وقت کی رُسوائی سے اُٹھے

لفظوں میں لے کے آئے وہ موجوں کا اضطراب
طوفان بن کے ذہن کی گہرائی سے اُٹھے

پتھر ہٹا دو غار سے زندہ ہوں میں ابھی
ایسا نہ ہو کہ لاش بھی تنہائی سے اُٹھے

بولوں تو ٹوٹ جائے گی برسوں کی خامشی
دیکھوں تو درد روح کا بینائی سے اُٹھے

خوشبو نسیم اپنی چھپائے گی کس طرح
کہتے ہو تم نگاہ بھی دانائی سے اُٹھے

نسیم مخموری


 

سلیمان اطہر جاوید

یوم پیدائش 09 اپریل 1936

شفق کرنیں کنول تالاب اس کے 
یہ منظر سب حسیں شاداب اس کے 

چلو کہنے کو ہیں نیندیں ہماری 
مگر آنکھوں میں سارے خواب اس کے 

جہان تیرگی عالم ہمارا 
اجالے روشنی کے باب اس کے 

اسی کی ذات وجہ نور و نغمہ 
یہ جھرنے کہکشاں مہتاب اس کے 

کتاب زندگی پر نام اپنا 
جو اندر دیکھیے ابواب اس کے 

ہماری گفتگو واہی تباہی 
مگر اقوال سب نایاب اس کے 

قتیل دوستاں جاویدؔ اپنا 
ملے تھے آج پھر احباب اس کے

سلیمان اطہر جاوید



Monday, April 17, 2023

ثریا جبیں قادری

یوم پیدائش 08 اپریل 1941
نظم اردو زبان
مہہ لقا ، اے دل ربا ، اے ریختی تجھ کو سلام
مہہ جبیں، اے دل نشیں اے نازنیں تجھ کو سلام
تاجروں اور صوفیوں کے ساتھ عربی فارسی
ہند ساگر طے کیا پھر سنسکرت سے مل گئی
کچھ زبانیں ہند کی جب ہوگئی تھیں ایک ساتھ
گفتگو ہونے لگی تو بن گئی اردو زباں
شاعری ہو، نثر ہو یا پھر کوئی مضمون ہو
خوبصورت اس طرح ہونے لگی اردو زباں
میر نے اس کو سنوارا ، خسرو نے پالا اسے
جام و مینا بھر لیے غالب نے اس کے عشق میں
شاعری ، گیتوں کی دھن ، کہکشاں چنتی ہے یہ
نکہت و رعنائیاں آہ و بقا بنتی ہے یہ
مسکراتی چاندنی یا چلچلاتی دھوپ ہو
آنکھ میں آنسو بھرے پوں یا دلِ غمگین ہو
دوستو کی دوست ہو ، اہلِ وطن کی ہم نوا
دل میں بستی ہے سبھی کے ، جاوداں اس کی ادا
ہند میں پیدا ہوئی سارے جہاں کی لاڈلی
پھر بھی اب تک مل نہیں پایا اسے جائز مقام
کہہ رہی ہے اب جبیں ، صد آفریں اردو زباں
صد آفریں اردو زباں ، صد آفریں اردو زباں

ثریا جبیں قادری


 

راحیل فاروق

یوم پیدائش 08 اپریل 1986

پختہ ہونے نہ دیا خام بھی رہنے نہ دیا 
عشق نے خاص تو کیا عام بھی رہنے نہ دیا 

ہائے رے گردش ایام کہ اب کے تو نے 
شکوۂ گردش ایام بھی رہنے نہ دیا 

کوئی کیوں آئے گا دوبارہ تری جنت میں 
دانہ بھی چھین لیا دام بھی رہنے نہ دیا 

عیش میں پہلے کہاں اپنی بسر ہوتی تھی 
یاد نے دو گھڑی آرام بھی رہنے نہ دیا 

دل کو آوارگیاں دور بہت چھوڑ آئیں 
ذکر خیر ایک طرف نام بھی رہنے نہ دیا 

وہی زنجیر ہے تیرے بھی گلے میں راحیلؔ 
جس نے سورج کو لب بام بھی رہنے نہ دیا

راحیل فاروق




 

آغا ظفر احمد

یوم پیدائش 07 اپریل 1940

آج ان کی بزم میں اپنے ذرا لب کھولیے
ان سے کھل کر بات کیجے ، چپ نہ رہیے ، بولیے

سادگی سے کتنی ہم راہِ وفا پر ہولیے
وہ ملے تو ہنس لیے جب وہ گئے تو رولیے

جالیا ہم نے بھی منزل کو پر اس انداز سے
بے خودی میں چل پڑے جب ہوش آیا ہولیے

خوشنما تھے کس قدر وہ خار ، اکثر ہم نے جو
عشق کی راہوں سے چن کر اپنے دل میں بو لیے

آخرش دیوانگی کو ہم نے اپنا ہی لیا
آخرش عقل و خرد سے ہاتھ اپنے دھو لیے

ان کٹھن راہوں پہ بھی ہم مسکراتے ہی رہے
جب ہزاروں غم کے ساتھی ساتھ اپنے ہولیے

زندگی کی راہ میں جب آئے کچھ دلکش مقام
ہم ذرا سی دیر ٹھہرے اور آگے ہولیے

خار بن کے زندگی بھر روح میں چبھتے رہے
ہم نے رومانوں کی پھلواری سے غنچے جو لیے

آنسوؤں کے پاک سرچشموں پہ ہم نے بارہا
حسرتوں کے اور تمناؤں کے دامن دھو لیے

ان تضادوں سے ہی لطفِ زندگی قائم رہے
روتے روتے ہنس پڑے اور ہنستے ہنستے رولیے

فصلِ گل کے اوّلیں رنگیں شگوفوں میں ظفر
آپ بھی اپنی بیاضِ شاعری کو کھو لیے

آغا ظفر احمد


 

رضیہ صدیقی بصیر

یوم پیدائش 07 اپریل 1946

ممکن نہیں الفت کا ہو اظہار غزل میں
کرتی ہوں مگر بات میں ہر بار غزل میں

بھیجا تو ہے خط اس نے مگر سادہ ورق ہے
انکار غزل میں ہے نہ اقرار غزل میں

صحرا کا فسانہ ہو یا جنگل کی کہانی
یہ تذکرے بن جاتے ہیں گلزار غزل میں

اس دور کا حاصل ہے فقط ضبطِ قلم ہی
ہے سوز نہ اب ساز نہ جھنکار غزل میں

ہے غور طلب بات یہی بزمِ سخن میں
بازاروں میں غزلیں ہیں کہ بازار غزل میں

رضیہؔ ہو مبارک تمہیں معراجِ سخن یہ
فطرت کا نظر آتا ہے کردار غزل میں

رضیہ صدیقی بصیر


 

پونم یادو

یوم پیدائش 07 اپریل 1984

کوئی بھی ارمان نہیں ہے 
یوں جینا آسان نہیں ہے 

آہیں اندر گھٹ جاتی ہیں 
دل میں روشن دان نہیں ہیں 

چھوڑو بھی اب ان قصوں کو 
ان قصوں میں جان نہیں ہے 

بات چھپانا سیکھو صاحب 
کس گھر میں طوفان نہیں ہے 

اب بھی تیرا حصہ ہوں میں 
بس تجھ کو ہی دھیان نہیں ہے 

جب تب خواہش اگ آتی ہیں 
دل ہے ریگستان نہیں ہے 

میں اک ایسا افسانا ہوں 
جس کا کچھ عنوان نہیں ہے

پونم یادو


 

ابوزر ہاشمی

یوم پیدائش 06 اپریل1957

سلگتے صحرا کا میں مسافر مری غزل بھی ہے آتشیں سی
مہکتے لمحوں کا ذکر چاہو تو تم کو میرا سلام لوگو

ابوزر ہاشمی


 

شریش چند شوق

یوم پیدائش 05 اپریل 1938

ترے سلوک کا چاہا تھا تجزیہ کرنا
تمام عمر میں الجھا رہا سوالوں میں

شریش چند شوق


 

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...