Urdu Deccan

Sunday, July 2, 2023

شمسؔ ذبیحی بنارسی

یوم پیدائش 18 اپریل 1923

مومنوں آئی ہے قسمت سے مناجات کی رات
ہو مبارک ہے شبِ قدر عبادات کی رات

جس نے بخشی ہے سلام اور تحیات کی رات
بھیجو کثرت سے درود اس پہ ہے صلوۃ کی رات

دیکھو انوارِ الہی کی تجلی ہر سو
لائی ہے نور ہی نور اہلِ سماوات کی رات

لطف معراج کا لے لو بخدا سجدے میں
 کی ہے ﷲ نے مخصوص ملاقات کی رات

قدر والے ہی شبِ قدر کی کرتے ہیں قدر
سونے کا نام نہیں جاگتے ہیں رات کی رات

خوابِ غفلت میں گنواتی ہے دن اپنا اُمّت
آقاﷺ سوئے نہیں اُمّت کے لیے رات کی رات

اے مرے دوستو تم ذکرِ الٰہی کے سوا
اور باتیں نہ کرو آج نہیں بات کی رات

حتی الامکان دل و جان سے تم قدر کرو
قابلِ قدر ہے یہ تحفہ و سوغات کی رات

شمسؔ ہوتی ہے میسّر اسی خوش قسمت کو
جسکی تقدیر میں ہے فضل و کمالات کی رات

شمسؔ ذبیحی بنارسی



برق آشیانوی کلیم

یوم پیدائش 18 اپریل 1918

زیست کیا چیز ہے اور زیست کا غم کیا شے ہے 
تیرے بندوں کے لئے دیر و حرم کیا شے ہے 

تو نے اب تک جو کیا اس کو کرم ہی سمجھا 
ہم نے جانا ہی نہیں تیرا ستم کیا شے ہے 

جو گزرتا ہے وہ رکھ دیتا ہے اس جا پہ جبیں 
کیا بتاؤں کہ ترا نقش قدم کیا شے ہے 

ہم نے طے کر لی ہے تسلیم و رضا کی منزل 
ہم کو معلوم نہیں درد و الم کیا شے ہے 

رند تو رند ہیں ہو جاتے ہیں زاہد بھی اسیر 
مصحف رخ پہ سیہ زلف کا خم کیا شے ہے 

تیری آنکھوں میں دو عالم کی خبر پڑھتے ہیں 
ایسے رندوں کے لئے ساغر جم کیا شے ہے 

میں تو کمتر ہوں ہر اک ذرۂ خاکی سے کلیمؔ 
مجھ سے اس وسعت آفاق میں کم کیا شے ہے

برق آشیانوی کلیم


 

عبد اللہ کمال

یوم پیدائش 17 اپریل 1948

اپنی آنکھوں کو امیدوں سے سجائے رکھنا 
جلتی راتوں میں کوئی خواب بچائے رکھنا 

لوٹ کر آؤں گا پھر گاؤں تمہارے اک دن 
اپنے دروازے پہ اک دیپ جلائے رکھنا 

اجنبی جان کے پتھر نہ سواگت کو بڑھیں 
اپنی گلیوں کو مرا نام بتائے رکھنا 

سونے ساون میں ستائے گی بہت پروائی 
درد کو دل میں مگر اپنے دبائے رکھنا 

ہجر کی تیرہ شبی ٹھہری ہے تقدیر وصال 
میری یادوں کے ستاروں کو جگائے رکھنا 

خوش نقابی کا بھرم ٹوٹنے پائے نہ کمالؔ 
غم کو ہونٹوں کے تبسم میں چھپائے رکھنا

عبد اللہ کمال


 

جاوید جمیل

یوم پیدائش 17 اپریل 1958

کیا نگاہوں نے کوئی خواب سجایا نہ کبھی 
کیا کسی کو بھی قریب اپنے بلایا نہ کبھی 

آتے رہنے کے لئے شکریہ اے یاد کہ دوست 
میں ہی مجرم ہوں تری یاد میں آیا نہ کبھی 

اس کی البم میں تو تصویر مری ہے موجود 
اس نے تصویر کو سینے سے لگایا نہ کبھی 

میں تجھے کیسے بتا دیتا دل ناز کا حال 
حال دل میں نے تو خود کو بھی بتایا نہ کبھی 

دل چرا کر مرا کہتا ہے مجھے چور یہ اب 
خود ہی چوری ہوا اس نے تو چرایا نہ کبھی 

قہقہے اوروں کی خوشیوں میں رہے ہیں شامل 
میرے حالات نے خود مجھ کو ہنسایا نہ کبھی 

میں نے اوروں سے سنا ہے کہ نسیم آتی ہے 
کیوں مجھے وقت سحر اس نے جگایا نہ کبھی 

تیری جاویدؔ یہ عادت ہے خدا کو بھی پسند 
تو نے نظروں سے کسی کو بھی گرایا نہ کبھی

جاوید جمیل


 

رانا التمش ماشی

یوم پیدائش 17 اپریل 2001

جو بات بس میں نہ ہو وہ کہی،، نہیں جاتی
کسی کو اپنی زباں یوں ہی دی نہیں جاتی 

ہمارے سامنے وہ گھنٹوں بیٹھی رہتی ہے 
ہمارے آنکھ کی تشنہ لبی نہیں جاتی 

سنائی دیتی ہے اندر سے ہچکیوں کی صدا
تبھی تو آنکھوں سے میری نمی نہیں جاتی

تمھاری یاد سے کیسے بھریں گے زخم مرے
گلوں کی چوٹ تو کانٹوں سے سی نہیں جاتی

غموں کا کیسے کروں قہقہوں سے اندازہ
وہ رو پڑے بھی تو لب سے ہنسی نہیں جاتی

سنا ہے وہ بھی مجھے یاد کرتی ہے ماشی
جدائی مجھ سے بھی اس کی سہی نہیں جاتی

رانا التمش ماشی

شہریار حیدر

یوم پیدائش 17 اپریل 

خواہشیں بے لگام ہونے پر
دل مچلتا ہے شام ہونے پر

ترکِ الفت سے جان جاتی ہے
آپ خوش ہیں یہ کام ہونے پر

معذرت کی گئی ستاروں سے
رات کا اختتام ہونے پر

عشق ہوتا تو آپ کیا کرتے
رو رہے ہیں زُکام ہونے پر

شہریار حیدر


 

اختر شمار

یوم پیدائش 17 اپریل 1960

اس کے نزدیک غم ترک وفا کچھ بھی نہیں
مطمئن ایسا ہے وہ جیسے ہوا کچھ بھی نہیں

اب تو ہاتھوں سے لکیریں بھی مٹی جاتی ہیں
اس کو کھو کر تو مرے پاس رہا کچھ بھی نہیں

چار دن رہ گئے میلے میں مگر اب کے بھی
اس نے آنے کے لیے خط میں لکھا کچھ بھی نہیں

کل بچھڑنا ہے تو پھر عہد وفا سوچ کے باندھ
ابھی آغاز محبت ہے گیا کچھ بھی نہیں

میں تو اس واسطے چپ ہوں کہ تماشا نہ بنے
تو سمجھتا ہے مجھے تجھ سے گلا کچھ بھی نہیں

اے شمارؔ آنکھیں اسی طرح بچھائے رکھنا
جانے کس وقت وہ آ جائے پتا کچھ بھی نہیں

اختر شمار

سلطان ساجد

یوم وفات 16 اپریل 2023

یاد ماضی کے کئی خواب سہانے آئے
مجھ سے ملنے جو مرے یار پرانے آئے

جس کے حصے میں محبت کے خزانے آئے
دن سمجھ لیجیے اُس کے ہی سہانے آئے

ایک مدت سے تڑپتی ہے یہ خواہش دل میں
خشک ہونٹوں پہ کوئی پھول کھلا نے آئے

دولتِ صبر سے لبریز ہے سینہ اپنا
کیوں ہمیں خواب وہ جنت کے دکھانے آئے

عمر بھر جن کو رہی ہم سے عداوت بے جا
آج تربت پہ وہی پھول چڑھانے آئے

جھوٹے موسم کے سبھی آج اشارے نکلے
دن وہی لوٹ کے پھر دیکھ پرانے آئے

 رُخ سمندر کا میاں دیکھ کے حیران ہیں ہم
کون طوفان میں کشتی کو بچانے آئے

شہر جلتا ہے تو جل جائے بلا سے ساجد
کس کو فرصت ہے یہاں آگ بجھانے آئے

سلطان ساجد


 

بشیر منظر

یوم پیدائش 16 اپریل 1960

کس ادا سے وہ بن سنور آئی
جب اداسی ہمارے گھر آئی

پھر دعا عرش تک تو پہنچی تھی
لوٹ کر واں سے بے اثر آئی

ہم سے ان کا تھا شام کا وعدہ
وہ نہ آئے مگر سحر آئی

ہر نیا سچ ہمیں ڈراتا ہے
جھوٹ کی ناؤ پھر سے بھر آئی

شیخ جی نے جو مے کدے توڑے
آسمانوں سے ٹوٹ کر آئی

قتل کر کے مجھے نہ جانے کیوں
میرے قاتل کی آنکھ بھر آئی

میاں منظر سنبھل کے چلیے گا
سامنے پھر وہی ڈگر آئی

بشیر منظر



محمد امین

یوم پیدائش 15 اپریل 1928
المتکبر 
خدا کی ذات کو ہے کبرائی
کہ حاجت سے منزہ ہے الہی
کرے بندہ تکبر تو گنہ ہے
فقط ذات الٰہی کبریا ہے 
بھلا اک قطرہ جس کی ابتدا ہو
مغاک کی تیرہ جس کی انتہا ہو
ضرورت در بدر جس کو پھرائے
جسے ٹٹی میں حاجت جا بٹھائے
نہیں زیبا تکبر اس کو کرنا
نہیں شاداں خدا سے اس کو لڑنا
کوئی نمرود مستکبر ہو کیسا
نہیں مومن کسی کے آگے جھکتا 
کہا آذر نے ابراہیم سے آؤ
بتوں کے آگے سر اپنا جھکاؤ
پرستش چاند سورج کی کرو تم
ستاروں کے پجاری بن رہو تم
کہا حضرت نے سورج چاند تارے
مسخر ہیں قضا کے ساتھ سارے
کبھی روشن کبھی ماند پڑھتے
کبھی چھڑتے ہیں پھر اترتے
کبھی غائب رہے دمدار تارا
کبھی ہوتا ہے ظاہر وہ ستارا
کبھی بڑھتا کبھی ہے چاند گھٹتا
کبھی خورشید کو ہے گہن لگتا
بھلا دیکھا زحل مریخ زہرہ
عطارد مشتری کا تم نے دورہ
کبھی سیدھے کبھی الٹے ہیں چلتے
کبھی آوارہ پھرتے پھرتے تھمتے
وفوق و استقامت اور حرکت
تحیر فہقیری رجعت اقامت
دلائل ہیں قوی کہ حق تعالیٰ
بڑی ہے قدرت و جبروت والا
اسی کے ہاتھ میں انکے ڈورے
جدھر چاہے ادھر ہی باگ موڑے
اسی کی شان سے بس کبرائی
کسی کی اس کے آگے کیا بڑائی
وطن میرا جو چاہو چھڑا دو
پکڑ کر آگ میں مجھ کو گرا دو
سوا اس کے کسی کو میں نہ مانوں
سوا اس کے کسی کو کچھ نہ جانوں
چنانچہ آگ میں اس کو گرایا
نہ پر اس نے سرِ مُو بھی جلایا
جزاک اللہ فی الدارین خیرا
مٹایا شرک کا سارا بکھیڑا
خلیل اللہ کی تعلیم سیکھو
خدا کی ذات کی تعظیم سیکھو
محمد امین




محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...