Urdu Deccan

Monday, July 3, 2023

تحسین مردآبادی

یوم پیدائش 02 مئی 1958

مغرور سر پہ پڑتی ہے جب مفلسی کی چوٹ
محسوس اس کو ہوتی ہے تب زندگی کی چوٹ

بزمِ جنوں میں شام و سحر دل لگی کی چوٹ
دل میرا سہہ سکے گا نہ اب بے رخی کی چوٹ

ہوش و خرد سنورتے ہیں زخموں کی چوٹ سے
ہوتی ہے لالہ زار غمِ عاشقی کی چوٹ

ڈوبا جو ایک بار تو ابھرا نہیں وجود
غرقاب سب کو کرتی ہے یہ خودکشی کی چوٹ

اللہ خیر! پڑتی ہے فیشن کے نام پر
ذہنوں پہ نسلِ نو کے نئی روشنی کی چوٹ

تحسین نے تو ہاتھ بڑھائے خلوص سے
آئی نہ راس پھر بھی مجھے دوستی کی چوٹ

تحسین مردآبادی



تاجور نجیب آبادی

یوم پیدائش 02 مئی 1894

اے آرزوئے شوق تجھے کچھ خبر ہے آج
حسن نظر نواز حریف نظر ہے آج

ہر راز داں ہے حیرتیٔ جلوہ ہائے راز
جو با خبر ہے آج وہی بے خبر ہے آج

کیا دیکھیے کہ دیکھ ہی سکتے نہیں اسے
اپنی نگاہ شوق حجاب نظر ہے آج

دل بھی نہیں ہے محرم اسرار عشق دوست
یہ راز داں بھی حلقۂ بیرون در ہے آج

کل تک تھی دل میں حسرت آزادیٔ قفس
آزاد آج ہیں تو غم بال و پر ہے آج

تاجور نجیب آبادی



خضر حیات خضرؔ

یوم پیدائش 01 مئی 1997

جب نہیں کوئی میسر تو عدو یاد آیا
جوبہا آنکھوں سے ہم کو وہ لہو یاد آیا

تجھ کو دیکھا تو کوئی ٹِیس عبادت کی اٹھی
تجھ کوچھونے کو بڑھے ہم تو وضو یاد آیا

درد جب حد سے بڑھا اس کی دوا یاد آئی
زخم جب ہنسنے لگے ہم کو رفو یاد آیا

پھر کوئی پھول کِھلا باغِ محبت میں کہیں
جب کسی نے یہ کہا مجھ سے تو ٗ تُو یاد آیا

اس نے جب تیر چلایا تو یہ دل کانپ گیا
اس نے خنجر جو اٹھایا تو گلو یاد آیا

جب کوئی زخم ہنسا اس کو خضرؔ یاد کیا
جب کوئی نام پکارا گیا تُو یاد آیا

خضر حیات خضرؔ


 

عقیل عباس

یوم پیدائش 01 مئی 1994

در کھلا اور وہ خیر الوصال آ گئی
کل کسی وقت بنتِ ملال آ گئی

عصر تک لشکری اونگھنے لگ گئے
پھر کہیں سے وہ بادِ شمال آ گئی

ہم نے قحطِ محبت میں دم سادھ کر
چپ کا روزہ رکھا اس کی کال آ گئی

زندگی نے مجھے اتنا گندا کِیا
موت کرنے مری دیکھ بھال آ گئی

عقیل عباس


 

شائستہ سحر شیخ

یوم پیدائش 30 اپریل 1965

یہ کیا کہ خلق خدا ہی ساری دہائی دے دے
 وبال جاں یہ وبا ہوئی ہے رہائی دے دے

خداے خلاق بستیوں میں سکوں نہیں ہے
 الم کشوں کو قرار سے آشنائی دے دے

 بہارکے دن مرے چمن کے خزاں ہوے ہیں
ڈرے ہوے ہیں گل وسمن خود نمائی دے دے

تری جلالت کے تیری قدرت کے ہم نہ منکر
تو مدعا ہے کمال مدح سرائی دے دے

 ہیں مضطرب تیرے اتنے سجدہ گزار بندے
 تو مسجدوں میں در حرم پہ رسائی دے دے

یہ مرگ انبوہ کیسا دہشت کا مرحلہ ہے
 اجڑ رہا ہے ترا جہاں خوش نمائی دے دے

 فراواں کر دے تو ماہ رمضاں میں نعمتوں کو
زمیں کو سبزہ طیور نغمہ سرائی دے دے

کدورتوں سے عداوتوں سے ہو سینہ خالی
جو سچ کہوں مجھ کو جرات لب کشائی دے دے

شائستہ سحر شیخ


 

عامر سلیم بیتاب

آج نیت مری کل تیری بدل جائے گی
حالت زار یونہی دوست سنبھل جائے گی 

 تا ابد سویا رہے گا نہ ضمیر عالم
چند ہی روز میں یہ برف پگھل جائے گی

میرا وجدان یہ کہتا ہے کہ میرے شاعر
روح انصاف بھی دستور میں ڈھل جائے گی 

صبح نو آئیگی کرنوں کے خزانے لیکر
شب کے عفریت کو جو پل میں نگل جائے گی

کہہ رہی ہے مری فردوس تمنا اے دوست
اب تو عامر تری زنجیر پگھل جائے گی

عامر سلیم بیتاب

 

نسیم نکہت

یوم وفات 29 اپریل 2023

کہیں دن گزر گیا ہے کہیں رات کٹ گئی ہے 
یہ نہ پوچھ کیسے تجھ بن یہ حیات کٹ گئی ہے 

یہ اداس اداس موسم یہ خزاں خزاں فضائیں 
وہی زندگی تھی جتنی ترے ساتھ کٹ گئی ہے 

نہ تجھے خبر ہے میری نہ مجھے خبر ہے تیری 
تری داستاں سے جیسے مری ذات کٹ گئی ہے 

یہ ترا مزاج توبہ یہ ترا غرور توبہ 
تری بزم میں ہمیشہ مری بات کٹ گئی ہے 

ترے انتظار میں میں جلی خود چراغ بن کر 
تری آرزو میں اکثر یوں ہی رات کٹ گئی ہے 

نہ وہ ہم خیال میرا نہ وہ ہم مزاج میرا 
پھر اسی کے ساتھ کیسے یہ حیات کٹ گئی ہے 

یہ کتاب قسمتوں کی لکھی کس قلم نے نکہتؔ 
کہیں پر تو شہہ کٹی ہے کہیں مات کٹ گئی ہے

نسیم نکہت




 

حذیفہ خالد

یوم پیدائش 29 اپریل 1995

عجب ہے شوق میری زندگی کا
کھلا جب راز میری بے خودی کا

شب غم میں اُسے میں نے پکارا
یہی تو امتحاں ہے دوستی کا

ہوائے شام تو مجرم رہی ہے
دیا بھی ہمنوا ہے تیرگی کا

کوئی حکمت تھی میرے بند لب کی
مگر ہے شور میری خامشی کا

بپا ہے محفل یاران خالد
بہت احساس ہے تیری کمی کا

حذیفہ خالد


 

آذر عسکری

یوم پیدائش 28 اپریل 1911
نظم اس سے پہلے کہ گھر کے پردوں سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سے پہلے کہ گھر کے پردوں سے 
ٹیڈی پتلون کوئی سلوا لوں 
اس سے پہلے کہ تجھ کو دے کر دل 
تیرے کوچے میں خود کو پٹوا لوں 
اس سے پہلے کہ تیری فرقت میں 
خودکشی کی سکیم اپنا لوں 
اس سے پہلے کہ اک تری خاطر 
نام غنڈوں میں اپنا لکھوا لوں 
میں ترا شہر چھوڑ جاؤں گا 
اس سے پہلے کہ وہ عدو کم بخت 
تیرے گھر جا کے چغلیاں کھائے 
اس سے پہلے کہ دیں رپٹ جا کر 
تیرے میرے شریف ہمسائے 
اس سے پہلے کہ تیری فرمائش 
مجھ سے چوری کا جرم کروائے 
اس سے پہلے کہ اپنا تھانے دار 
مرغا تھانے میں مجھ کو بنوائے 
میں ترا شہر چھوڑ جاؤں گا 
تجھ کو آگاہ کیوں نہ کر دوں میں 
اپنے اس انتظام سے پہلے 
مشورہ بھی تجھی سے کرنا ہے 
اپنی مرگ حرام سے پہلے 
کوئی ایسی ٹرین بتلا دے 
جائے جو تیز گام سے پہلے 
آج کے اس ڈنر کو بھگتا کر 
کل کسی وقت شام سے پہلے 
میں ترا شہر چھوڑ جاؤں گا 
دل کی گردن مروڑ جاؤں گا

آذر عسکری


 

اطہر شکیل نگینوی

یوم پیدائش 28 اپریل 1968

چاہت کو زندگی کی ضرورت سمجھ لیا 
اب غم کو ہم نے تیری عنایت سمجھ لیا 

کھاتے رہے ہیں زیست میں کیا کیا مغالطے 
قامت کو اس حسیں کی قیامت سمجھ لیا 

کردار کیا رہا ہے کبھی یہ بھی سوچتے 
سجدے کیے تو ان کو عبادت سمجھ لیا 

ریشم سے نرم لہجے کے پیچھے مفاد تھا 
اس تاجری کو ہم نے شرافت سمجھ لیا 

اب ہے کوئی حسین نہ لشکر حسین کا 
سر کٹ گئے تو ہم نے شہادت سمجھ لیا 

اس طرح عمر چین سے کاٹی شکیلؔ نے 
دکھ اس سے جو ملا اسے راحت سمجھ لیا 

اطہر شکیل نگینوی


 

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...