Urdu Deccan

Friday, April 23, 2021

شاعر علی راحل

 اِس کارِ محبت میں تجارت نہیں کی ہے

حاصل کوئی اِس فن میں مہارت نہیں کی ہے


جب کر دیا ! سرخم ترے ہر حکم کے آگے

 پھر حکم عدولی کی جسارت نہیں کی ہے

 

جو رنج و الم سے کرے دو چار کسی کو

ایسی کبھی ہم نے تو شرارت نہیں کی ہے


مٹّی سے بنایا گیا تھا حضرتِ آدم

  یہ سوچ کے مٹّی سے حقارت نہیں کی ہے


کب تک ترے دیدار کوترسیں گی یہ آنکھیں 

اِک عرصہ ہُوا تیری زیارت نہیں کی ہے


اُلفت کا سبق دے کے اُتارا تھا زمیں پر

 کی سب سے محبت ہی حقارت نہیں کی ہے


جُھوٹے ہیں ترے وعدے یہ معلوم تھا رَاحِلؔ

سو جھوٹ پہ تعمیر عمارت نہیں کی ہے


شاعر علی رَاحِلؔ


ریاض خازم

 فریبِ محبت میں آ کر فدا کی

کہ دنیا میں جیسے ہمی نے خطا کی


بہت عشق میں رو چکے زندگی اب

ہمیں اور ضرورت نہیں ہے سزا کی


تمہیں کون کہتا ہے کہ عشق سیکھو

تمہیں کیا ضرورت پڑی ہے وفا کی


تمہیں تو میسر ہے سب کی توجہ

 تمہیں دولتِ حسن رب نے عطا کی


ہمیں کوئی چاہے ہمیں کوئی مانگے

ہمارے لئے بھی ہو بندی خدا کی


کسے تیری آہوں سے مطلب ہے حازم

تو نے ایسے ہی درد و غم کی صدا کی


ریاض حازم


محمد شہزاد حیدر

 نذرانہ ِ عقیدت بحضور سیدہ فاطمة الزہرہ ؓ 


بنت ِ خیر الوریٰ ﷺ سیدہ فاطمہ ؓ

زوجہ ِ مرتضیٰ ؓ سیدہ فاطمہ ؓ


عظمتوں کی بقا سیدہ فاطمہ ؓ

عابدہ ، زاہدہ سیدہ فاطمہ ؓ


مادر ِ باد شاہ ِ جناں ؓ مرحبا 

اوّلیں با صَفا سیدہ فاطمہ ؓ


زینبی رنگ میں فاطمی ڈھنگ تھا 

آپ کی تھی صدا سیدہ فاطمہ ؓ


" شب سیاہ ہوگی جب دفن کر دینا تب "

حکم تھا آپ کا سیدہ فاطمہ ؓ


درو کر دیجئے سارے رنج و الم 

صدقہ حسنین ؓ کا سیدہ فاطمہ ؓ


کیجے شہزؔاد پر اپنی نظر ِ سخا 

جان ِ شاہ ِ عطا ﷺ سیدہ فاطمہ ؓ


محمد شہزؔاد حیدر


عارف بن قادر

 نہ بُزدل اتنا سمجھ ہم نے کر بھی جانا ہے 

مقامِ شوق سے آگے گزر بھی جانا ہے 


ذرا سی دیر ترے ہاں قیام ہے میرا 

کہ اِس کے بعد مجھے اپنے گھر بھی جانا ہے 


گھُلا ہوا ہے فضا میں عداوتوں کا جو زہر 

نہ سانس لو یہ لہو میں اُتر بھی جانا ہے 


لکھی نہیں ہے مقدر میں سب کے با ثمری 

جہان سے کسی نے بے ثمر بھی جانا ہے


نظامِ گردشِ دوراں ہے انگلیوں پہ تری

 جو تُو نے کہنا ہے رُک, یہ ٹھہر بھی جانا ہے 


چلایا جاتا رہا مجھ کو سیدھے رستے پر 

سو اب کی بار غلط راہ پر بھی جانا ہے 


فقط ہوا نہیں ہوگی اُجالوں کی قاتل

کچھ ان کا قتل چراغوں کے سر بھی جانا ہے 


مری کچھ اور پذیرائی ہونی ہے عارف

تری گلی سے نکل کر جدھر بھی جانا ہے

 

عارف بن قادر


ناصر ملک

 یوم پیدائش 15 اپریل 1972


مرا وجود ضروری تھا داستاں کے لیے

مگر اُتارا گیا مرگِ ناگہاں کے لیے


زمیں پہ بھیجنے والے زمیں سنبھال اپنی

نکل پڑا ہوں میں تسخیرِ آسماں کے لیے


اے مقتلِ شبِ تاریک تھوڑی مہلت دے

مجھے چراغ جلانے ہیں کارواں کے لیے


ہر ایک ظلم پہ میری صدا بلند ہوئی

خدائے پاک! میں حاضر ہوں امتحاں کیلئے


یہ بانجھ ضابطے روزی رساں نہیں ہوتے

کمانا پڑتا ہے بچوں کو خانداں کے لئے


ہوائیں کل بھی مسافر شناس ہوتی تھیں

ہوائیں آج بھی چلتی ہیں بادباں کے لیے


تمہارا لمس رہا محوِ گفتگو مجھ سے

یہ سانس چلتی رہی زیبِ داستاں کے لیے


ناصر ملک


خلیل فرحت کارنجوی

 یوم پیدائش 16 اپریل 1935


دل سے مرے تنہائی کی شدت نہیں جاتی

اب تو بھی چلا آئے تو وحشت نہیں جاتی


اس دور کی تعلیم کا معیار عجب ہے

تعلیم تو آتی ہے جہالت نہیں جاتی


کیا سوچ کے امید وفا باندھی تھی تم سے

اک عمر ہوئی دل کی ندامت نہیں جاتی


مفلس بھی تو خوددار ہوا کرتے ہیں لوگو

غربت میں بھی انساں کی شرافت نہیں جاتی


لے جاتی ہیں اب تک بھی مری نیند چرا کر

اب تک بھی ان آنکھوں کی شرارت نہیں جاتی


دے دیتا ہے اللہ مجھے حسب ضرورت

اب لے کے کسی در پہ ضرورت نہیں جاتی


سو بار تری جان پہ بن آئی ہے فرحتؔ

پھر بھی تری حق گوئی کی عادت نہیں جاتی



خلیل فرحت کارنجوی

خضر احمد خان شرر

 لُٹے   لُٹائے   سہی  اہتمام  رکھتے  ہیں 

فقیر  سب  کے  لئے انتظام رکھتے ہیں  


سبق  پڑھاؤ  نہیں  تم  ہمیں  شجاعت کا 

ہم  اپنے  ساتھ   خدائی  نظام  رکھتے ہیں 


کبھی کبھی تو خیالوں میں بھی نہیں آتے

کبھی  کبھی  مرے دل میں قیام رکھتے ہیں 


کبھی کبھی  وہ گذرتے  ہیں اجنبی بن کر 

کبھی کبھی  تو  بہت  اہتمام  رکھتے ہیں 


کبھی کبھی تو وہ خاموش ہیں سمندر سے

کبھی کبھی وہ بڑی دھوم دھام رکھتے ہیں


کوئی  تمھارے  سِوا  اب  نظر  نہیں آتا

تمھارے  نام  اُٹھا صبح  شام رکھتے ہیں 


جواب  دیں گے سرِ حشر  وہ  بھی رازق کو 

جو  تاجرانِ جہاں  اونچے  دام  رکھتے ہیں


کبھی تو  بہرِ خدا  لب تلک  ہنسی آئے

ہُجُومِ  غم  کا  شرر  ازدہام  رکھتے ہیں 

  

   خضر احمد خان شرر


وقاص ذاکر ادبی

 تم نے تو اپنے ہی من کی مانی آخر

نہ سُنی بس اِس دل کی کہانی آخر


بات بِگڑی تھی تو بات بن سکتی تھی 

بات چاہی نہ پھر سے بنانی آخر


اب اچھے ہیں دن پہلے تلف ہوتے تھے

بارہا اب نہ احوال جانی آخر


 تھا دکھاوے کا احساس کب تک رہتا 

جھوٹ ظاہر ہو تو پیار فانی آخر


آخرت بن جائے گی کوشش تو کر

چھوڑ دے رنگیں دنیا بنانی آخر


بے کلی ہو جی کو گر حُزن یا خرمی 

اجنبی سے اب نہ ہے لگانی آخر


وقاص ذاکر ادبی


حنیف شارب

 نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم


پیار کا اظہار ہیں میرے نبیؐ

دین کے غمخوار ہیں میرے نبیؐ


پرسش اعمال کی کیوں فکر ہو

مالک و مختار ہیں میرے نبیؐ


علم گستر آپ سے بڑھ کر نہیں

علم کے مینار ہیں میرے نبیؐ


دشمنوں کو بھی دعا دیتے رہے

ایسے باکردار ہیں میرے نبیؐ


کوئی ان کا ہو نہ ہو پر وہ ضرور

شش جہت کے یار ہیں میرے نبیؐ


ذکر ہے قرآن میں یہ صاف صاف

بارشِ انوار ہیں میرے نبیؐ


ناز سے کہتا ہے شارب ہر جگہ

سر بسر ایثار ہیں میرے نبیؐ


حنیف شارب


شہزاد احمد

 یوم پیدائش 16 اپریل 1932


رخصت ہوا تو آنکھ ملا کر نہیں گیا

وہ کیوں گیا ہے یہ بھی بتا کر نہیں گیا


وہ یوں گیا کہ باد صبا یاد آ گئی

احساس تک بھی ہم کو دلا کر نہیں گیا


یوں لگ رہا ہے جیسے ابھی لوٹ آئے گا

جاتے ہوئے چراغ بجھا کر نہیں گیا


بس اک لکیر کھینچ گیا درمیان میں

دیوار راستے میں بنا کر نہیں گیا


شاید وہ مل ہی جائے مگر جستجو ہے شرط

وہ اپنے نقش پا تو مٹا کر نہیں گیا


گھر میں ہے آج تک وہی خوشبو بسی ہوئی

لگتا ہے یوں کہ جیسے وہ آ کر نہیں گیا


تب تک تو پھول جیسی ہی تازہ تھی اس کی یاد

جب تک وہ پتیوں کو جدا کر نہیں گیا


رہنے دیا نہ اس نے کسی کام کا مجھے

اور خاک میں بھی مجھ کو ملا کر نہیں گیا


ویسی ہی بے طلب ہے ابھی میری زندگی

وہ خار و خس میں آگ لگا کر نہیں گیا


شہزادؔ یہ گلہ ہی رہا اس کی ذات سے

جاتے ہوئے وہ کوئی گلہ کر نہیں گیا


شہزاد احمد


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...