اِس کارِ محبت میں تجارت نہیں کی ہے
حاصل کوئی اِس فن میں مہارت نہیں کی ہے
جب کر دیا ! سرخم ترے ہر حکم کے آگے
پھر حکم عدولی کی جسارت نہیں کی ہے
جو رنج و الم سے کرے دو چار کسی کو
ایسی کبھی ہم نے تو شرارت نہیں کی ہے
مٹّی سے بنایا گیا تھا حضرتِ آدم
یہ سوچ کے مٹّی سے حقارت نہیں کی ہے
کب تک ترے دیدار کوترسیں گی یہ آنکھیں
اِک عرصہ ہُوا تیری زیارت نہیں کی ہے
اُلفت کا سبق دے کے اُتارا تھا زمیں پر
کی سب سے محبت ہی حقارت نہیں کی ہے
جُھوٹے ہیں ترے وعدے یہ معلوم تھا رَاحِلؔ
سو جھوٹ پہ تعمیر عمارت نہیں کی ہے
شاعر علی رَاحِلؔ