Urdu Deccan

Wednesday, May 12, 2021

اقبال خلش آکوٹوی

 یوم وفات 08 مئی 2021

انا اللہ وانا الیہ راجعون


تصور میں نبیﷺ کے شہر کا منظر بھی ہوتا ہے 

غمِ ہجراں میں لیکن میرا دامن تر بھی ہوتا ہے 


ہمیں قرآں بتاتا ہے یہ سنّت ہے رسولوں کی 

نبی کارِ نبوّت کے لیے بے گھر بھی ہوتا ہے 


نبیﷺ چھولیں اگر سوکھا شجر سرسبز ہوجائے

اگر چومیں لبوں سے معتبر پتھر بھی ہوتا ہے 


کیے ظلم و ستم سرکارﷺ نے انگیز ایسے بھی

کہ جن کا سوچنا اپنے لیے دوبھر بھی ہوتا ہے 


سفیر آتا ہے فارس کا اگرچہ کرٌ و فر کے ساتھ 

چٹائی پر نبیﷺ کو دیکھ کر ششدر بھی ہوتا ہے 


حیاتِ مصطفیٰﷺ کا جزوِ لازم بوریا ٹھہرا 

تہجٌد میں مصلٌیٰ بعد میں بستر بھی ہوتا ہے 


نبیﷺ کی پرورش کا فیض ہو جس کے مقدّر میں 

وہ دیدہ ور بھی ہوتا ہے علیؓ حیدر بھی ہوتا ہے 


درِ سرکارﷺ پر نعتیں خلش ! روکر سناتےہیں 

ہمارے خواب میں یہ واقعہ اکثر بھی ہوتا ہے 


اقبال خلش آکوٹوی


محسن کشمیری

 آپﷺ کے صدقے میں آقا دین پیارا مل گیا

"آپﷺ آئے بے سہاروں کو سہارا مل گیا"


آپﷺ جب تشریف لائے دور ظلمت ہوگئی

زندگی سب کی ہوئی روشن وہ تارا مل گیا


چاند بھی شرما گیا میرے نبیﷺ کو دیکھ کر

اور دو ٹکڑے ہوا جب اک اشارہ مل گیا


آپ کی نسبت کا ہے آقاﷺ مرے سارا اثر

جو مجھے بھی نعت خوانی کا وتیرا مل گیا


مشکلیں آساں ہوئیں آقاﷺ بڑا احسان ہے

ڈوبتی کشتی کو میری اک کنارہ مل گیا


نعت میں سرکار کی لکھتا گیا پھر یوں ہوا

مصطفیﷺ کے در پہ جانے کا اشارہ مل گیا


کیا تمنا اب کروں جنت کی محسؔؔن تو بتا

گنبد خضراء کا مجھ کو جب نظارہ مل گیا


محسن کشمیری


مصور عباس

 یوم پیدائش 08 مئی


یہ کِس کے ہاتھوں جَلایا گیا چراغوں کو 

کہ رَستہ چھوڑ کے چَلنا پَڑا ہواؤں کو


ہَوا کے ہاتھ پہ لاشے ہیں سوکھے پَتوں کے

خزاں نے کَر دیا پامال سب درختوں کو


فقیر وجد میں آیا تو سب نے توبہ کی

بشر ہی بَننا پڑا شہر کے خداٶں کو


مباہلے کی روایت ہے اور حکم بھی ہے

میں اپنے ساتھ فقط لے کے جاٶں سَچوں کو


پھر اَندھےلوگوں کےہاتھوں میں روشنی دےدی

 یوں اب کی بار ڈرایا گیا اندھیروں کو


وہ ساری رات بَھلا کیسے تجھ سے بات کرے

سکول چھوڑنے جَانا ہو جِس نے بچوں کو


پھراُس جگہ سے ہی سب دیکھتے ہیں دنیا میں

جہاں بناۓ مُصّوِر تمہاری آنکھوں کو


مصور عباس


خالد ملک

 یوم پیدائش 08 مئی


یہ جھگڑے کیسے ختم ہونگے ہائے کچھ خبر نہیں 

چھٹیں گے کب اداسیوں کے سائے کچھ خبر نہیں 


ہماری زندگی میں کچھ نہیں ھے سسکیاں ہیں بس

 ہماری روح کب سفر پہ جائے کچھ خبر نہیں 


ہماری سوچ میں اداسی ڈیرہ ڈالے بیٹھی ہے  

  کہاں تمام زندگی ہو جائے کچھ خبر نہیں 


میں روز کوچے میں تمہارے آتا ہوں امید پر

  کہ کب مجھے نصیب تُو ہو جائے کچھ خبر نہیں 


کہیں کسی کی تھوڑی سی نظر تو لگ نہیں گئی ؟

یہ کیوں مرا ہے دل بھی ڈوبا جائے کچھ خبر نہیں  


نجومی نے بھی ہاتھ دیکھ کر مرا یہ کہہ دیا 

تری لکیریں ۔۔۔اف خدا بچائے کچھ خبر نہیں 

 

 خالد ملک


سلیم شوق پورنوری

 لوٹے گی زندگی کی رمق حوصلہ رکھو 

پلٹے گا ایک دن یہ ورق حوصلہ رکھو


ہوتی ہے رات صبح کے آنے کے واسطے

کیوں کر ہو تیرگی کا قلق حوصلہ رکھو


مظلومیت بھی رنگ دکھائے گی ایک دن 

منہ ہوں گے ظلم و جبر کے فق حوصلہ رکھو


ہم حل کریں گے زیست کے ہر ہر سوال کو 

مضموں ہو چاہے لاکھ ادق حوصلہ رکھو!!


جیتیں گے ہم کورونا سے یہ جنگ دوستو!

لے گا زمانہ ہم سے سبق حوصلہ رکھو !


ہم آج ناتواں ہیں مگر سب کے ایک دن

روشن کریں گے چودہ طبق حوصلہ رکھو


بے رنگ زندگی ہے اگر اب تو کیا ہوا 

پھوٹے گی شوق اس میں شفق حوصلہ رکھو


سلیم شوق پورنوی


صابر جوہری

 کس ہنر مندی سے قتل تیرگی کرتے ہیں لوگ 

میرا کاشانہ جلا کر روشنی کرتے ہیں لوگ


جانے کیسا شہر ہے یہ، موت کی آغوش میں 

رہ کے بھی ہر وقت جشن زندگی کرتے ہیں لوگ 


میں فصیل شب پہ روشن کرتا ہوں دل کا چراغ

گرچہ میرے راستے میں تیرگی کرتے ہیں لوگ


پا بجولاں قید رہتے ہیں حصار ذات میں

 کیوں بہ زعم علم انکار خودی کرتے ہیں لوگ


یا الہی گلستان زندگی کی خیر ہو

جو نہیں کرنا ہے اب اکثر وہی کرتے ہیں لوگ  


دوستی کا گر گیا معیار کتنا آج کل

صرف مقصد کے لئے اب دوستی کرتے ہیں لوگ


مجھکو کیا معلوم لفظوں کے برتنے کا ہنر

مجھ سے بہتر شہر فن میں شاعری کرتے ہیں لوگ


زندگی کے ہاتھ سے مجبور ہو کر آج کل   

خود کشی ہر وقت صابر جوہری کرتے ہیں لوگ


صابر جوہری


اثر کولوی

 نہ دن کو چین پڑتا ہے نہ شب کو نیند آتی ہے

وہ خوشبو کی طرح میرے مشامِ جاں پہ چھائی ہے


کہ تا حدِ نظر چاروں طرف اک دھند چھائی ہے

بہار ِ شوق میں بھی گلستاں پر قہر طاری ہے


مرے چہرے پہ یونہی تو نہیں آئی یہ تابانی

حقیقت میں مجھے تیری محبت راس آئی ہے


وہ میرے سامنے ہو کر بھی کوسوں دور لگتا ہے

یہ کیسی آزمائش ہے یہ کیسی نارسائی ہے


ڈھلے گا آج کا یہ دن نہ جانے کس طرح میرا

سحر ہونے سے پہلے پھر کسی کی یاد آئی ہے


جو کل تک ہمنوا تھے بن گئے ہیں آج وہ دشمن

یہ کیسا دوستانہ ہے یہ کیسی ہمنوائی ہے


جو خود کرتا ہے اوروں کے لیے وہ کام رد کیوں ہے

خدا کا خوف کر واعظ یہ کیسی پارسائی ہے

 

اثر اس سنگِ دل کو فکر کیا اپنے اسیروں کی 

اِدھر ہم خوں میں ڈوبے ہیں اُدھر وہ گل کھلاتی ہے


اثر کولوی


حاشر افنان

 جس کے بھی دل میں ہو گی محبت رسول کی 

مل جائے گی اسے بھی شفاعت رسول کی 


جس دن سے پڑھ رہا ہوں میں سیرت رسول کی 

بڑھنے لگی ہے دل میں محبت رسول کی  


مجھکو ہے زندگی میں تمنا فقط یہی 

ہو جائے ایک روز زیارت رسول کی


جس چیز کو چھوا وہی انمول ہو گئی

کیسے بتاؤں میں تمہیں عظمت رسول کی 


ہوگا نہ مبتلا وہ کسی درد میں کبھی

جس جس کے حال پر ہو عنایت رسول کی 


ہیں سنتِ رسول میں فوز و فلاح دوست

ہر موڑ پر پڑے گی ضرورت رسول کی 


جب تک رہے گی جان ترے اس غلام میں 

کرتا رہوں گا میں بیاں مدحت رسول کی


حاشر افنان


ابراہیم ہوش

 یوم پیدائش 06 مئی 1918


میں وہ نہیں کہ زمانے سے بے عمل جاؤں

مزاج پوچھ کے دار و رسن کا ٹل جاؤں


وہ اور ہوں گے جو ہیں آج قید بے سمتی

وہی ہے سمت میں جس سمت کو نکل جاؤں


فریب کھا کے جنوں عقل کے کھلونوں سے

خدا وہ وقت نہ لائے کہ میں بہل جاؤں


مرا وجود ہے مومی کہیں نہ ہو ایسا

کسی کی یاد کی گرمی سے میں پگھل جاؤں


جو چاہتا ہے کہ پستی میں گرتے گرتے بچوں

نظر کا اپنی عصا دے کہ میں سنبھل جاؤں


ابراہیم ہوش


ریاض احمد قاری

 یوم پیدائش 06 مئی 1965


سب انبیا ء سے ماسوا ان ﷺ کا مقام ہے

پیغام انﷺ کاجگ میں رواں صبح و شام ہے


پلوائیں گے وہ اپنے غلاموں کو روزِ حشر

" پیارے نبیﷺ کے ہاتھ میں کوثر کا جام ہے "


شاہوں کو بھی وہ دیتا ہے تاج اور تخت ہی

رتبے میں کیا بلند نبیﷺ کا غلام ہے


رحمت خدا کی آتی ہے بن بن کے اک گھٹا

جب سے نبیﷺ کے شہر میں اپنا قیام ہے


جو ان ﷺ کو مانتا ہے وہی جنتی ہوا

مومن پہ ہی تو آتشِ دوزخ حرام ہے


اے ریاضؔ ان کے بعد نبی کوئی بھی نہیں

وہ آخری نبی ﷺ ہیں انہی کو دوام ہے


ریاض احمد قادری


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...