Urdu Deccan

Sunday, October 31, 2021

ناز بٹ

 یوم پیدائش 15 اکتوبر


بے خبر ہوتے ہوئے بھی با خبر لگتے ہو تم 

دور رہ کر بھی مجھے نزدیک تر لگتے ہو تم 


کیوں نہ آؤں سج سنور کر میں تمہارے سامنے 

خوش ادا لگتے ہو مجھ کو خوش نظر لگتے ہو تم 


تم نے لمس معتبر سے بخش دی وہ روشنی 

مجھ کو میری آرزوؤں کی سحر لگتے ہو تم 


جس کے سائے میں اماں ملتی ہے میری زیست کو 

مجھ کو جلتی دھوپ میں ایسا شجر لگتے ہو تم 


کیوں تمہارے ساتھ چلنے پر نہ آمادہ ہو دل 

خوشبوئے احساس میرے ہم سفر لگتے ہو تم 


نازؔ تم پر ناز کرتی ہے محبت کی قسم 

زندگی بھر کی دعاؤں کا اثر لگتے ہو تم


ناز بٹ


قمر بدرپوری

 یوم پیدائش 15 اکتوبر 1955


سورج غروب ہونے کا مطلب ہے یہ"قمر"

تاریکیوں کے بعد نئی صبح آئے گی


قمر بدرپوری


نیلما ناہید درانی

 یوم پیدائش 15 اکتوبر 1955


جس گھڑی ان سے بات ہوتی ہے

رقص میں کائنات ہوتی ہے


ان کے آنے سے دن نکلتا ہے

ان کے جانے سے رات ہوتی ہے


لفظ یوں پھول بن کے جھڑتے ہیں

گویا ہر سو برات ہوتی ہے


ان سے ملنے کو معجزہ کہیے

حسن کی یہ زکوٰۃ ہوتی ہے


روگ ایسا لگا ہے الفت کا

اس سے کیسے نجات ہوتی ہے


ظالموں سے وہ ڈر نہیں سکتا

جس کے دل میں فرات ہوتی ہے


نیلما ناہید درانی


ضیاء رشیدی

 حبیبِ خدا ہیں وہ خیر البشربھی 

 گئے رات اسراء وہ معراج پر بھی


 نبیِ مکرم شفیعِ معظم 

ابو بکر ساتھی ہیں ان کے عمر بھی


کیا ظلمتوں کا صفایا یقینا 

گئے آپؐ کے پاء اقدس جدھر بھی 


وہ پہنچا دئے دین کو ہے مکمل  

دیا تھا خدا نے انہیں جس قدر بھی 


 پڑھا ہے انہیں دیکھ کلمہ خدا کا 

بشر تو بشر راستے کے حجر بھی 

 

معطر ہیں رہتیں یقینا وہ گلیاں 

مہک جاتے ان کے ہر اک رہ گزر بھی


ضیاء تم گزارو شب وروز ایسے 

ہو جنت کی خواہش جہنم سے ڈر بھی


ضیاء رشیدی


محسن احسان

 یوم پیدائش 15 اکتوبر 1933


مرے وجود کے دوزخ کو سرد کر دے گا

اگر وہ ابر کرم ہے تو کھل کے برسے گا


گلہ نہ کر کہ ہے آغاز شب ابھی پیارے

ڈھلے گی رات تو یہ درد اور چمکے گا


قدح کی خیر سناؤ کہ اب کے بارش سنگ

اگر ہوئی تو طرب زار شب بھی ڈوبے گا


یہ شہر کم نظراں ہے ادھر نہ کر آنکھیں

یہاں اشارۂ‌ مژگاں کوئی نہ سمجھے گا


میں اس بدن میں اتر جاؤں گا نشے کی طرح

وہ ایک بار اگر پھر پلٹ کے دیکھے گا


رواں تو ہوں سوئے افلاک آرزو لیکن

یہ زور موج ہوا بازوؤں کو توڑے گا


اگر ہے شوق اسیری تو موند لے آنکھیں

تو عمر بھر در و دیوار بھی نہ دیکھے گا


تلاش قافلۂ زندگی ہے اب بے سود

یہ رہگذار نفس پر کہیں نہ ٹھہرے گا


نہ آنکھ میں کوئی جنبش نہ پاؤں پر کوئی گرد

جہاں سے اتنا بھی محتاط کون گزرے گا


رہے گی دل میں نہ جب کوئی بھی خلش محسنؔ

بھلا چکا ہے جسے تو اسے پکارے گا


محسن احسان


جاوید آغا

 یوم پیدائش 15 اکتوبر


اٹھا کے سر کو چلے خوبرو جوانی ہو

پھر اس کے ہاتھ میں اسلاف کی نشانی ہو


امیرِ شہر مری آخری وصیّت ہے

مجھے جو قتل کرے شخص خاندانی ہو


جہاں پہ فاختہ بے خوف گھونسلے سے اڑے

ترے جہان میں ایسی بھی راجدھانی ہو


ہے شاعری کا اگر شوق تو ضروری ہے

سلیس لہجہ ہو اشعار میں روانی ہو


یہ سانپ بھی مرے لاٹھی بھی اپنی بچ جائے

بتاؤ راستہ ایسا جو درمیانی ہو

 

حضور آپ کی آنکھوں نے بات چھیڑی تھی

یہ بات ختم بھی پھر آپ کی زبانی ہو


تمھارے جانے پہ کچھ اس طرح لگاہے مجھے

کہ جیسے گھر میں کوئی مرگِ ناگہانی ہو


یہی ہے پیار کہ ہو دل میں بات پوشیدہ

ملو تو آنکھوں سے پھر اس کی ترجمانی ہو


مری غزل پہ ہو گر تبصرہ تو یاد رہے

نہ خوش گمانی ہو آغا. نہ. بدگمانی ہو


جاویدآغا


ہما علی

 بہار رنگ مرے چار سو ابھی تک ہے 

دوام حسن ہے وہ ماہ رو ابھی تک ہے 


سنا تھا فرقتیں حلیہ بگاڑ دیتی ہیں ؟

کہاں کا ہجر کہ وہ خوبرو ابھی تک ہے 


ہو رنج کیا اسے محرومیءِ تمنا کا 

انا کے باب میں وہ سر خرو ابھی تک ہے


زمانے والے اسے مجھ سے دور لے جائیں 

وگرنہ خواب میں تو گفتگو ابھی تک ہے


وہ صفحہ ڈائری کا اب بھی ہے مہکتا سا

کہ خشک پھول میں بھی رنگ و بو ابھی تک ہے


یہ کالی شال میں ہر پل جو اوڑھے رکھتی ہوں 

یہ پہلے عشق کی تھی آبرو ابھی تک ہے


ہما علی


شہروز خاور

 یوم پیدائش 14 اکتوبر


خاک ہونے کا نہیں ، موجوں کا مارا ہوا میں

خشکی و تر کی کشاکش میں کنارا ہوا میں


جنگ آمادہ ہُوں دنیا سے بس اک تیرے لیے

خود سے ہاری ہوئی پرچھائیں سے ہارا ہوا میں


لوگ بڑھ بڑھ کے بغل گیر ہوا چاہتے ہیں

چند روزہ ترے کوچے میں گذارا ہوا میں


تو نے دیکھا ہے سدا دیکھنے والوں کی طرح

کب تری چشم تمنا کو گوارا ہوا میں


ہجر کاٹیں گی کہاں تک مری حوریں شہروز

عرش کا فرش پہ مدت سے اتارا ہوا میں


شہروز خاور


قاسم محمد قاسم کلیانوی

 خاک رکھا ہے ان نظاروں میں 

چاند گھل مل گیا ہے تاروں میں 


سرِ محفل نظر ملی ان سے 

بات ہوتی رہی اشاروں میں


ایک مدت ہوئی ملے تم سے

اب کے آجاؤ نا بہاروں میں


وقت آئے تو جان بھی دیں گے

نام لکھ لو ہمارا یاروں میں


تیری یادوں میں سو نہ پائے ہم 

 خواب بیٹھے رہے قطاروں میں


کون پوچھے گا حال دل ہم سے 

کون اپنا پرایا یاروں میں


نام آتا ہے اپنا اے قاسم 

سرِ فہرست غم گساروں میں


 قاسم محمد قاسم کلیانوی


جام اکبر نواز کھور

 آنکھوں میں کچھ دیپ جلانے آ جاؤ

یا پھر اپنی یاد بھلانے آ جاؤ

ہم نے درد کا صحرا آنکھ میں رکھا ہے

صحرا میں کوئی پھول کھلانے آ جاؤ


جام اکبر نواز کھور


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...