Urdu Deccan

Saturday, November 20, 2021

احمد ندیم قاسمی

 یوم پیدائش 20 نومبر 1916


میں کسی شخص سے بیزار نہیں ہو سکتا 

ایک ذرہ بھی تو بیکار نہیں ہو سکتا 


اس قدر پیار ہے انساں کی خطاؤں سے مجھے 

کہ فرشتہ مرا معیار نہیں ہو سکتا 


اے خدا پھر یہ جہنم کا تماشا کیا ہے 

تیرا شہکار تو فی النار نہیں ہو سکتا 


اے حقیقت کو فقط خواب سمجھنے والے 

تو کبھی صاحب اسرار نہیں ہو سکتا 


تو کہ اک موجۂ نکہت سے بھی چونک اٹھتا ہے 

حشر آتا ہے تو بیدار نہیں ہو سکتا 


سر دیوار یہ کیوں نرخ کی تکرار ہوئی 

گھر کا آنگن کبھی بازار نہیں ہو سکتا 


راکھ سی مجلس اقوام کی چٹکی میں ہے کیا 

کچھ بھی ہو یہ مرا پندار نہیں ہو سکتا 


اس حقیقت کو سمجھنے میں لٹایا کیا کچھ 

میرا دشمن مرا غم خوار نہیں ہو سکتا 


میں نے بھیجا تجھے ایوان حکومت میں مگر 

اب تو برسوں ترا دیدار نہیں ہو سکتا 


تیرگی چاہے ستاروں کی سفارش لائے 

رات سے مجھ کو سروکار نہیں ہو سکتا 


وہ جو شعروں میں ہے اک شے پس الفاظ ندیمؔ 

اس کا الفاظ میں اظہار نہیں ہو سکتا 


احمد ندیم قاسمی


احمد علی برقی اعظمی

 یاد رفتگاں: بیاد فیض احمد فیضؔ مرحوم

یوم پیدائش: ۱۳ فروری ۱۹۱۱

یوم وفات: ۲۰ نومبر ۱۹۸۴


فیضؔ تھے دنیائے اردو کے دلوں پر حکمراں 

ہیں جہاں فکر و فن میں اُن کی عظمت کے نشاں


اُن کے ہیں شعروسخن میں جو نقوشِ جاوداں 

آج بھی ہیں اور رہیں گے زیبِ تاریخِ جہاں


اُن کی تخلیقات ہیں اردو ادب کا شاہکار

جو ہیں دنیائے ادب میں مرجعِ دانشوراں


اُن کی غزلیں اور نظمیں شہرۂ آفاق ہیں 

ہوتے ہیں محظوظ یکساں جن سے سب پیر و جواں


شخصیت تھی اُن کی اپنے آپ میں اک انجمن

عہدِ نو میں تھے وہ اردو کے امیرِ کارواں


تھے شعورِ فن سے اپنے خسروِ ملکِ سخن

فکر سے تھے اپنی وہ سب کے دلوں پر حکمراں


فیض اور اردو ادب اب لازم و ملزوم ہیں 

باہمی رشتہ ہے اُن کا جس طرح ہوں جسم و جاں


جاری و ساری رہے گا فیضؔ کا یہ فیضِ عام

ہے مُزین فیضؔ سے اردو ادب کی داستاں


تھے وہ برقی آبروئے خطۂ برِ صغیر

جن کے ہیں آثارِ ادبی ایک گنجِ شایگاں


احمد علی برقیؔ اعظمی


عرفان اللہ عرفان

 یوم پیدائش 20 نومبر 1974


ٹوٹتے خواب کی تعبیر سے اندازہ کیا

میں نے شاید ذرا تاخیر سے اندازہ کیا 


دونوں جانب سے مسلمان تھے مرنے والے

آپ نے نعرہء تکبیر سے اندازہ کیا؟ 


میرے کمرے میں کوئی آیا نہیں میرے بعد

گرد آلود سی تصویر سے اندازہ کیا


جھوٹ کے پائوں بھی ہوتے ہیں اگر تو بولے

آج میں نے تری تقریر سے اندازہ کیا


آپ جادو سے بنا لیتے ہیں مٹی سونا

آپ کی پھیلتی جاگیر سے اندازہ کیا 


آپ تو اپنی خوشی سے ہیں غلام ابن ِ غلام 

آپ کی قیمتی زنجیر سے اندازہ کیا


عرفان اللہ عرفان 


تسنیم فاروقی

 یوم پیدائش 19 نومبر 1915


پھر ترے ہجر کے جذبات نے انگڑائی لی

تھک کے دن ڈوب گیا رات نے انگڑائی لی


جیسے اک پھول میں خوشبو کا دیا جلتا ہے

اس کے ہونٹوں پہ شکایات نے انگڑائی لی


سرخ ہی سرخ ہے اس شہر کا منظر نامہ

امن ہوتے ہی فسادات نے انگڑائی لی


ہم بھی اس جنگ میں فی الحال کیے لیتے ہیں صلح

دیکھا جائے گا جو حالات نے انگڑائی لی


گرمیٔ آہ سے نم ہو گئیں آنکھیں اے دوست

بڑھ گیا حبس تو برسات نے انگڑائی لی


فاصلہ رنج و مسرت میں بس اک سانس کا ہے

مسکرائے تھے کہ صدمات نے انگڑائی لی


جھیل جیسی وہ چمکتی ہوئی آنکھیں تسنیمؔ

ان میں ڈوبے تھے کہ نغمات نے انگڑائی لی


تسنیم فاروقی


خان امیر تابشِ نیازی

 یوم پیدائش 19 نومبر


یہ کون رو رہا تھا تھوڑی سی دیر پہلے

ماتَم سا ہو رہا تھا تھوڑی سی دیر پہلے


تُجھ کو بَتانا ہو گا وہ کون تھا تُو جِس کے

سَپنوں میں کھو رہا تھا تھوڑی سی دیر پہلے


محبوب سے مخاطِب ہو کر مَیں داغ دِل کے

اَشکوں سے دھو رہا تھا تھوڑی سی دیر پہلے


پُھولوں پہ سونے والا جانے وہ آج کیسے

کانٹوں پہ سو رہا تھا تھوڑی سی دیر پہلے


روتے ہوئے میں تابِشؔ پڑھ کر تُمہارے خط کا

کاغذ بھِگو رہا تھا تھوڑی سی دیر پہلے


خان اَمیر تابِش نیازی


ایوب اختر

 یوم پیدائش 19 نومبر 1977


آپ کا انتظار اچھا لگا

دل کو یہ اعتبار اچھا لگا


آپ کو دیکھ کر کہا دل نے 

حسن کا شاہکار اچھا لگا


آپ آئے مزاج پرسی کو 

آج اپنا بخار اچھا لگا


تو ملا ہے تو دل میں پھول کھلے

اے غرورِ بہار اچھا لگا


تونے میری جو دل نوازی کی

اے مرے غم گسار اچھا لگا


  ایوب اختر


افتخار امام صدیقی

 یوم پیدائش 19 نومبر 1947


تو نہیں تو زندگی میں اور کیا رہ جائے گا

دور تک تنہائیوں کا سلسلہ رہ جائے گا


کیجئے کیا گفتگو کیا ان سے مل کر سوچئے

دل شکستہ خواہشوں کا ذائقہ رہ جائے گا


درد کی ساری تہیں اور سارے گزرے حادثے

سب دھواں ہو جائیں گے اک واقعہ رہ جائے گا


یہ بھی ہوگا وہ مجھے دل سے بھلا دے گا مگر

یوں بھی ہوگا خود اسی میں اک خلا رہ جائے گا


دائرے انکار کے اقرار کی سرگوشیاں

یہ اگر ٹوٹے کبھی تو فاصلہ رہ جائے گا


افتخار امام صدیقی


سرمد صہبائی

 یوم پیدائش 19 نومبر 1945


مرنے کا پتہ دے مرے جینے کا پتہ دے

اے بے خبری کچھ مرے ہونے کا پتہ دے


اک دوسرے کی آہٹوں پہ چلتے ہیں سب لوگ

ہے کوئی یہاں جو مجھے رستے کا پتہ دے


خود آپ سے بچھڑا ہوں میں اس اندھے سفر میں

اے تیرگی شب مرے سائے کا پتہ دے


اس آس پہ ہر آئینے کو جوڑ رہا ہوں

شاید کوئی ریزہ مرے چہرے کا پتہ دے


گزری ہے مری عمر سرابوں کے سفر میں

اے ریگ رواں اب کسی چشمے کا پتہ دے


ہر پل کسی آہٹ پہ مرے کان لگے ہیں

جیسے ابھی کوئی ترے آنے کا پتہ دے


بکھرا ہوا ہوں صدیوں کی بے انت تہوں میں

مجھ کو کوئی کھوئے ہوئے لمحے کا پتہ دے


دہلیز دلاسا ہے نہ دیوار اماں ہے

اے در بدری میرے ٹھکانے کا پتہ دے


ہوں قید حصار رگ گرداب میں سرمدؔ

کوئی نہیں جو مجھ کو کنارے کا پتہ دے


سرمد صہبائی


واحد کشمیری

 دِل ! آن بان شان یہ اردو زبان ہے

جذبوں کی ترجمان یہ اردو زبان ہے


لمحوں میں اپنے حسن کے جلوے نکھارتی

صدیوں پہ مہر بان یہ اردو زبان ہے


آداب و احترام کے نازوں سے ہے پلی

غالب کی روح و جان یہ اردو زبان ہے


اخلاص کی بلندیاں ربط و ادابھی ہے

ہر باب آسمان یہ اردو زبان ہے


حرفوں میں اسکے عطر یے لفظوں میں چاشنی

نظموں کی پاسبان یہ اردو زبان یے


تہذیب لکھنوی ہے یہ شانِ دکن بھی ہے

گلزارِ گلستان یہ اردو زبان ہے


تاثیر راگ راگنی عکسِ غزل بھی یے

قوموں پہ سائبان یہ اردو زبان ہے


لفظوں کی طرحیں ڈال کے واحد نے جو کہی

خالص وہ نکتہ دان یہ اردو زبان ہے


واحد کشمیری


اعجاز رحمانی

 کام کیا نفرت نے اپنا عشق نے اپنا کام کیا

 دار و رسن کو تم نے سجایا سر ہم نے نیلام کیا

 

 ایسے بھی کچھ راہ طلب میں ہم نے مسافر دیکھے ہیں

 دھوپ سے ہمت ہار گئے تو سائے کو بدنام کیا

 

 وقت یہ سب سے پوچھ رہا ہے جہدو عمل کی منزل میں

کس کس نے تلوار اٹھائی کس کس نے آرام کیا

 

 ایک ہی صورت باقی تھی سو ہم نے کیا یوں غم کا علاج

 چھوڑ دیا ساقی کو ہم نے ٹکڑے ٹکڑے جام کیا

 

 ہم نے فصیل شہر ستم پر دیپ جلا کر زخموں کے 

سورج کو زحمت سے بچایا ظلمت کو ناکام کیا


اعجاز رحمانی


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...