یوم پیدائش 18 دسمبر
قربتیں دل کو بھگونے کا ہنر بھول گئیں
اب جو برسات ہوئی دشت میں بے حد نہ ہوئی
میں حریفوں کے مٹانے سے کبھی مٹ نہ سکا
روشنی سایہ ء ظلمات میں بے قد نہ ہوئی
فہم میرا حدِ ادراک سے آگے نکلا
سوچ میری کسی خانے میں مقید نہ ہوئی
سنقر سامی
یوم پیدائش 18 دسمبر
قربتیں دل کو بھگونے کا ہنر بھول گئیں
اب جو برسات ہوئی دشت میں بے حد نہ ہوئی
میں حریفوں کے مٹانے سے کبھی مٹ نہ سکا
روشنی سایہ ء ظلمات میں بے قد نہ ہوئی
فہم میرا حدِ ادراک سے آگے نکلا
سوچ میری کسی خانے میں مقید نہ ہوئی
سنقر سامی
یوم پیدائش 19 دسمبر 1935
قدم اٹھے تو عجب دل گداز منظر تھا
میں آپ اپنے لیے راستے کا پتھر تھا
دل ایک اور ہزار آزمائشیں غم کی
دیا جلا تو تھا لیکن ہوا کی زد پر تھا
ہر آئینہ مری آنکھوں سے پوچھ لیتا ہے
وہ عکس کیا ہوئے آباد جن سے یہ گھر تھا
ہر اک عذاب کو میں سہ گیا مگر نہ ملا
وہ ایک غم جو مرے حوصلے سے بڑھ کر تھا
یہ وہم تھا کہ مجھے وہ بھلا چکا ہوگا
مگر ملا تو وہ میری ہی طرح مضطر تھا
ہزار بار خود اپنے مکاں پہ دستک دی
اک احتمال میں جیسے کہ میں ہی اندر تھا
تمام عمر کی تنہائیاں سمیٹی ہیں
یہی مرے در و دیوار کا مقدر تھا
اداس رستوں میں پیہم سلگتی صبحوں میں
جو غم گسار تھا کوئی تو دیدۂ تر تھا
مشفق خواجہ
بدنامیوں کو نام کہو گے کہاں تلک
یوں پستیوں کو بام کہو گے کہاں تلک
اک اہل زر کا کھیل ہے دستورِ مملکت
اِس ظلم کو نظام کہو گے کہاں تلک
ڈھل جائے گی ہاں خود ہی یہ کیوں انتظار ہے
ظلمت کی شب کو شام کہو گے کہاں تلک
یہ جبر کا نظام کہو اب نہیں قبول
یوں تلخیوں کو جام کہو گے کہاں تلک
ندیم اعجاز
یوم پیدائش 18 دسمبر
ہر طور ہر لحاظ سے ہی مرگِ ہست ہو
ہو وہ شکستِ خواب یا خوابِ شکست ہو
لاؤ گگن سے چاندنی جیسی کوئی شراب
پی کر جسے یہ راندۂ ظلمات مست ہو
کرتے ہو ہر پہر ہی شب و روز کا طواف
تم وقت کے پجاری ہو، لمحہ پرست ہو
آؤ ناں پھر سے یاد کی گلیوں کی سیر کو
بارش کی کوئی شب ہو مہینہ اگست ہو
خالی اگر ہے جیب تو افسوس کچھ نہیں
اک سانحہ ہے دِل بھی اگر تنگ دست ہو
یاؔور کہیں یہ اَن کِھلے گل مجھ سے بار بار
قوسِ قزح کے آنے کا کچھ بندوبست ہو
یاور ماجد
یوم پیدائش 17 دسمبر 1976
وّفّورِ شوق میں لپٹی ہوئی حسیں آنکھیں
وہ نیل گّوں سے مناظر، وہ سرمگیں آنکھیں
وہ ایک ہجر کہ دہلیزِ جاں تلک پہنچا
نبھاتے اّسے کتنی ہی بہہ گئیں آنکھیں
متاعِ درد جہاں بھر میں بانٹتے نہ تھکیں
وفا شعار، ہنر مند ، صندلیں آنکھیں
پھر اّس کے بعد کسے دیکھنے کی حسرت تھی
تجھی کو دیکھ کے تجھ پہ ہی مر مٹیں آنکھیں
فنا سے دارِ بقا تک ہزار رستے تھے
کسے خبر کہاں کس کس کی کھو چکیں آنکھیں
نہ جانے کیسے مراحل تلک ہمیں لائیں
یہ راہِ دل کی مسافت وہ عنبریں آنکھیں
اب اور چاھے بھلا کیا دلِ فقیر منش
نظر میں رکھتی ہیں ہر دم وہ نازنیں آنکھیں
نکل پڑی ہیں تعاقب میں ایک خوشبو کے
نہ جانے کتنے ہی رستوں سے شرمگیں آنکھیں
ہم اپنے فہم و بصارت کو کوستے ہی رہے
نگاہ والوں سے کیا کیا وہ کہہ گئیں آنکھیں
چھلکتے جام و سبو بھی نہ کر سکے اظہر
جو کام جھانکتی چلمن سے کر گئیں آنکھیں
اظہر علی ملک
کیا کہوں اپنے چمن سے مَیں جُدا کیونکر ہوا
اور اسیرِ حلقۂ دامِ ہَوا کیونکر ہوا
جائے حیرت ہے بُرا سارے زمانے کا ہوں میں
مجھ کو یہ خلعت شرافت کا عطا کیونکر ہوا
کچھ دکھانے دیکھنے کا تھا تقاضا طُور پر
کیا خبر ہے تجھ کو اے دل فیصلا کیونکر ہوا
ہے طلب بے مدّعا ہونے کی بھی اک مدّعا
مرغِ دل دامِ تمنّا سے رِہا کیونکر ہوا
دیکھنے والے یہاں بھی دیکھ لیتے ہیں تجھے
پھر یہ وعدہ حشر کا صبر آزما کیونکر ہوا
حُسنِ کامل ہی نہ ہو اس بے حجابی کا سبب
وہ جو تھا پردوں میں پنہاں، خود نما کیونکر ہوا
موت کا نسخہ ابھی باقی ہے اے دردِ فراق
چارہ گر دیوانہ ہے، مَیں لا دوا کیونکر ہوا
تُو نے دیکھا ہے کبھی اے دیدۂ عبرت کہ گُل
ہو کے پیدا خاک سے رنگیں قبا کیونکر ہوا
پُرسشِ اعمال سے مقصد تھا رُسوائی مری
ورنہ ظاہر تھا سبھی کچھ، کیا ہوا، کیونکر ہوا
میرے مِٹنے کا تماشا دیکھنے کی چیز تھی
کیا بتاؤں اُن کا میرا سامنا کیونکر ہوا
علامہ اقبال
یوم پیدائش 16 دسمبر 1934
عارضِ پُرنور پر زلفِ گِرہ گیر بھی
صبح کے پہلو میں ہے رات کی تصویر بھی
تلخیِ حالات میں گُم ہوئی تدبیر بھی
گردشِ دوراں بھی ہے گردشِ تقدیر بھی
زخمی جگر ، ٹکڑے دل ، آنکھ مگر نم نہیں
دردِ مجسم بھی ہوں ضبط کی تصویر بھی
اُس نے اس انداز سے کردیا مجھ کو معاف
میں بھی ہوا منفعل اور مری تقصیر بھی
کشمکشِ حسن و عشق آہ و بیاں کیا کروں
خواہشِ تخریب بھی کوششِ تعمیر بھی
اُڑتی ہے مقتل میں خاک قصۂ بسمل ہے پاک
ہوکے رہا چاک چاک دامنِ شمشیر بھی
ہنسنے ہنسانے کی بات سے مجھے کیا واسطہ
غم میری میراث بھی غم میری جاگیر بھی
صدمۂ جاں کاہ نے کردیا اِتنا نحیف
چھوڑ گئی میرا ساتھ پاؤں کی زنجیر بھی
کوششوں کے باوجود نوؔر نہ کچھ ہوسکا
اے مرے ﷲ کیا چیز ہے تقدیر بھی
محمدنورالھدیٰ نؔور ذبیحی بنارسی
یوم پیدائش 16 دسمبر 1913
بڑھتے ہیں خود بہ خود قدم عزم سفر کو کیا کروں
زیر قدم ہے کہکشاں ذوق نظر کو کیا کروں
تیز ہے کاروان وقت تشنہ ہے جستجو ابھی
روک لوں زندگی کہاں شام و سحر کو کیا کروں
دیر و حرم کے رنگ بھی دیکھ چکی نگاہ زیست
دل میں تو ہے وہی چبھن آہ سحر کو کیا کروں
آج بھی ہے وہی مقام آج بھی لب پہ ان کا نام
منزل بے شمار گام اپنے سفر کو کیا کروں
یاد کسی کی آ گئی ہو گئی دھندلی کائنات
پردے میں چھپ گیا کوئی دیدۂ تر کو کیا کروں
کتنی امیدوں کے چراغ راہ میں بجھ کے رہ گئے
اپنے تو پاؤں تھک گئے شوق سفر کو کیا کروں
ہو گئی زندگی کی شام سالکؔ راہ تھک گئے
منزلیں دور ہو گئیں راہ گزر کو کیا کروں
سالک لکھنوی
یوم پیدائش 15 دسمبر 1962
دیدہ و دل میں نہیں رنگ۔نمو اب کوئی
ورنہ کھلتا مرے ہونٹوں پہ گل۔لب کوئی
دل میں در آتے ہیں جذبات چکوروں جیسے
چاند سا مجھ میں نکلتا ہے سر۔شب کوئی
دشت نے کھل کے بتا دی ہے کہانی ساری
کیسے پاتا ہے یہاں قیس کا منصب کوئی
ایک قطرہ بھی مرا مجھ میں نہیں رہ پاتا
ایسے بھرتا ہے مجھے خود سے لبالب کوئی
تب کھلے گا میں سفر میں نہیں جنجال میں ہوں
میرے قدموں سے ملائے گا قدم جب کوئی
بے سروپا تھی مگر تجھ سے ہوئی ہے منسوب
اب نکل آئے گا اس بات سے مطلب کوئی
بات بنتی نظر آتی نہیں باتوں سے کبیر
اب دکھانا ہی پڑے گا ہمیں کرتب کوئی
کبیر اطہر
یوم پیدائش 15 دسمبر 1961
کس قدر محدود کر دیتا ہے غم انسان کو
ختم کر دیتا ہے ہر امید ہر امکان کو
گیت گاتا بھی نہیں گھر کو سجاتا بھی نہیں
اور بدلتا بھی نہیں وہ ساز کو سامان کو
اتنے برسوں کی ریاضت سے جو قائم ہو سکا
آپ سے خطرہ بہت ہے میرے اس ایمان کو
کوئی رکتا ہی نہیں اس کی تسلی کے لیے
دیکھتا رہتا ہے دل ہر اجنبی مہمان کو
اب تو یہ شاید کسی بھی کام آ سکتا نہیں
آپ ہی لے جائیے میرے دل نادان کو
شہر والوں کو تو جیسے کچھ پتا چلتا نہیں
روکتا رہتا ہے ساحل روز و شب طوفان کو
ذیشان ساحل
یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...