Urdu Deccan

Thursday, April 14, 2022

خاور کمال صدیقی

 یوم پیدائش 12 اپریل 1965


 سب نے اپنی نظر سے دیکھا ہے

ہم نے چشمانِ تر سے دیکھا ہے


رونقوں کا زوال ہوتے ہوئے

روشنی کے نگر سے دیکھا ہے


اس کے وعدے تو بس دلاسے تھے

پھل ملا کیا شجر سے دیکھا ہے


کوئی تو بات یہ بتائے ذرا

کچھ بچا ان کے شر سے دیکھا ہے؟


کوئی منزل ملی نہ راہ نما

لوٹ کے ہر سفر سے دیکھا ہے


اس کا اقرار دل لگی ٹھہرا

کتنا کچھ بازی گر سے دیکھا ہے


ایک تیرہ شبی کا عالم بھی

دن ڈھلے تک سحر سے دیکھا ہے


رنج و آلام کا مداوا کبھی

شہر کے چارہ گر سے دیکھا ہے؟


اس سے باندھو وفا کی امیدیں

جس نے غائر نظر سے دیکھا ہے


خاور کمال صدیقی 



ناوک حمزہ پوری

 یوم پیدائش 12 اپریل 1933


زہرآب حیات پی رہا ہوں 

حیرت ہے کہ پھر بھی جی رہا ہوں 


کس کس کی زبان بند کرتا 

خود اپنے ہی ہونٹ سی رہا ہوں 


کیا کم ہے یہ سانحہ کہ میں ہی 

ان آنکھوں کی کرکری رہا ہوں 


سورج سے لڑانے والا آنکھیں 

میں ہی سورج مکھی رہا ہوں 


روداد حیات ہے بس اتنی 

پامال ستم گری رہا ہوں 


اپنی ہی نگہ میں ناوکؔ اب تک 

یہ سچ ہے کہ اجنبی رہا ہوں


ناوک حمزہ پوری




کرن وقار

 یوم وفات 10 اپریل 2021


تمام عمر رہی مرنے کی تمنا ہمیں

خیال جینے کا آیا نہ تیرے جانے کے بعد


کرن وقار




سردار وسیم اکرم سیمی

 یوم پیدائش 10 اپریل 1993


پرس میں جو تری تصویر لیے پھرتے ہیں

درد و غم سے بھری تقدیر لیے پھرتے ہیں


اپنے ہم پاوں کی زنجیر لیے پھرتے ہیں

 اپنے دکھ درد کی جاگیر لیے پھرتے ہیں

  

کھا گیا ہے ہمیں دیمک کی طرح ہجرِ یار

 ہم جوانی میں بھی اک پیر لیے پھرتے ہی


ہے سبب سب کا فقط ایک فقط ایک وسیم

پرس میں اس کی جو تصویر لیے پھرتے ہیں

 

سردار وسیم اکرم سیمی



گوہررحمٰن گہر مردانوی

 یوم پیدائش 10 اپریل 1976


جذبہء شوق جو انسان میں بیدار ہوا

قوم کا مونس و ہمدرد وہ غمخوار ہوا


 فطرتِ نوع کہ آخر وہ شجرسوکھ گیا

اک ذرا وقت سے پہلے جو ثمر بار ہوا


اپنی اوقات دکھائےگا ہی مخلوط نسل

شخص جو رہبر ملت ہوا، سرکار ہوا 


علم رکھ کربھی جہالت نہیں جاتی ہرگز

شاہ، افسر ہوا یا قوم کا معمار ہوا


معتبر کون ہے یہ وقت بتا دیتا ہے

شاعرِ گوہر گمنام جو بیکار ہوا


گوہررحمٰن گہر مردانوی



بلال تیغی

 یوم پیدائش 10 اپریل 2000


ٹکرا کے گر گیا تھا میں خود سے زمین پر

اک روز بھاگتا ہوا ماضی کے خوف سے


بلال تیغی




دانش اثری

 یوم پیدائش 10 اپریل 1991


ہم وہ مجبور کہ ہجرت بھی نہیں کرسکتے

یعنی آزادی کی چاہت بھی نہیں کرسکتے


اپنے کعبہ پہ تو قبضہ ہے عزازیلوں کا

ہم تو اب کھل کے عبادت بھی نہیں کرسکتے


ترکیا مست مئے ناب، عرب مست ریال

اب تو وہ میری حمایت بھی نہیں کرسکتے


قاتلو! ٹھہرو ذرا، ایک تو سجدہ کرلوں

کیا ذرا سی یہ رعایت بھی نہیں کرسکتے؟


جو بھی تھا سب تو لٹا ڈالا ہے حضرت، اب کیا

آپ اب اور سخاوت بھی نہیں کرسکتے


نام رکھا ہے مسلمانوں سا ، مرجاؤ، کہ تم

قوم مسلم سے براءت بھی نہیں کرسکتے


دانش اثری نے بتائی تھی تمھیں کل کی خبر

تم تو اب اس سے شکایت بھی نہیں کرسکتے


دانش اثری



اکبر حمیدی

 یوم پیدائش 10 اپریل 1935


کافر تھا میں خدا کا نہ منکر دعا کا تھا 

لیکن یہاں سوال شکست انا کا تھا 


کچھ عشق و عاشقی پہ نہیں میرا اعتقاد 

میں جس کو چاہتا تھا حسیں انتہا کا تھا 


جل کر گرا ہوں سوکھے شجر سے اڑا نہیں 

میں نے وہی کیا جو تقاضا وفا کا تھا 


تاریک رات موسم برسات جان زار 

گرداب پیچھے سامنے طوفاں ہوا کا تھا 


اک عمر بعد بھی نہ شفا ہو سکے تو کیا 

رگ رگ میں زہر صدیوں کی آب و ہوا کا تھا 


گو راہزن کا وار بھی کچھ کم نہ تھا مگر 

جو وار کارگر ہوا وہ رہنما کا تھا 


اکبرؔ جہاں میں کار کشائی بتوں کی تھی 

اچھا رہا جو ماننے والا خدا کا تھا


اکبر حمیدی



شہناز مزمل

 یوم پیدائش 10 مارچ 1954


وہ سامنے ہوں مرے اور نظر جھکی نہ رہے 

متاع زیست لٹا کر کوئی کمی نہ رہے 


دئے جلائے ہیں میں نے کھلے دریچوں پر 

اے تند و تیز ہوا تجھ کو برہمی نہ رہے 


بتاؤ ایسا بھی منظر نظر سے گزرا ہے 

چراغ جلتے رہیں اور روشنی نہ رہے 


کوئی بھی لمحہ گزرتا نہیں ہے تیرے بغیر 

تعلقات میں ایسی بھی چاشنی نہ رہے 


ہمارے حوصلے کو دیکھ کر یہ کہتے ہو 

زبان بند رہے آنکھ میں نمی نہ رہے 


ملے جو روشنی تجھ سے تو ظلمتیں کم ہوں 

کہ تیرے بعد مری جان زندگی نہ رہے 


لبوں پہ آ گیا دم اپنا حبس موسم میں 

ہوائے ابر بہاراں یوں ہی تھمی نہ رہے


شہناز مزمل



نادرہ ناز

 یوم پیدائش 10 اپریل 1975


خود کو ہم سرخرو نہیں کرتے

تجھ کو بے آبرو نہیں کرتے


کر کے شکوہ گلہ کبھی ان سے

ان کے دل کو لہو نہیں کرتے


غم بھلے دل میں سانس لیتے ہوں

درد تو گفتگو نہیں کرتے


ہم ترے آنسوؤں کے دھاگوں سے

چاک دامن رفو نہیں کرتے


جو نہ آئے گا پھر کبھی واپس

اس کی ہم جستجو نہیں کرتے


بات کہتے ہیں چھپ چھپا کر وہ

ہو کے وہ رو برو نہیں کرتے


جس کو اپنا بناتے ہیں ہم ناز

اس کو بے آبرو نہیں کرتے


نادرہ ناز




محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...