یوم پیدائش 12 اپریل 1965
سب نے اپنی نظر سے دیکھا ہے
ہم نے چشمانِ تر سے دیکھا ہے
رونقوں کا زوال ہوتے ہوئے
روشنی کے نگر سے دیکھا ہے
اس کے وعدے تو بس دلاسے تھے
پھل ملا کیا شجر سے دیکھا ہے
کوئی تو بات یہ بتائے ذرا
کچھ بچا ان کے شر سے دیکھا ہے؟
کوئی منزل ملی نہ راہ نما
لوٹ کے ہر سفر سے دیکھا ہے
اس کا اقرار دل لگی ٹھہرا
کتنا کچھ بازی گر سے دیکھا ہے
ایک تیرہ شبی کا عالم بھی
دن ڈھلے تک سحر سے دیکھا ہے
رنج و آلام کا مداوا کبھی
شہر کے چارہ گر سے دیکھا ہے؟
اس سے باندھو وفا کی امیدیں
جس نے غائر نظر سے دیکھا ہے
خاور کمال صدیقی