سماں سانسوں میں مدغم ہو گیا ہے
کنارے بیٹھ کے فٹ پاتھ پہ اب
غزل کہنا بھی جوکھم ہوگیا ہے
بہت حساس ہے مانا ترا دل
وہ مجھ سے دیکھ برہم ہو گیا ہے
معمہ ڈھونڈتا رہتا ہے جس کو
بشر وہ پھر سے مبہم ہو گیا ہے
ادب کا ایک وہ روشن ستارا
جہاں میں کچھ تو مدھم ہو گیا ہے
تصوف میں کوءی ثانی نہ اس کا
مگر وہ کشف پیہم ہوگیا ہے
کہاں تک شمس کو جلوے دکھائیں
چراغ زیست مدھم ہوگیا ہے
پگھلتا جا رہا ہے برف بن کر
جنون شوق پرنم ہو گیا ہے
چلو تابش اسے ہم ڈھونڈ تے ہیں
جو ہم سے آج برہم ہوگيا ہے