Urdu Deccan

Sunday, July 17, 2022

تابش رامپوری

بہت پر کیف موسم ہوگیا ہے
سماں سانسوں میں مدغم ہو گیا ہے

کنارے بیٹھ کے فٹ پاتھ پہ اب
غزل کہنا بھی جوکھم ہوگیا ہے

بہت حساس ہے مانا ترا دل
وہ مجھ سے دیکھ برہم ہو گیا ہے

معمہ ڈھونڈتا رہتا ہے جس کو
بشر وہ پھر سے مبہم ہو گیا ہے

ادب کا ایک وہ روشن ستارا
جہاں میں کچھ تو مدھم ہو گیا ہے

تصوف میں کوءی ثانی نہ اس کا
مگر وہ کشف پیہم ہوگیا ہے

کہاں تک شمس کو جلوے دکھائیں
چراغ زیست مدھم ہوگیا ہے

پگھلتا جا رہا ہے برف بن کر
جنون شوق پرنم ہو گیا ہے

چلو تابش اسے ہم ڈھونڈ تے ہیں
جو ہم سے آج برہم ہوگيا ہے

تابش رامپوری

 


نواز دیوبندی

یوم پیدائش 16 جولائی 1956

تیرے آنے کی جب خبر مہکے 
تیری خوشبو سے سارا گھر مہکے 

شام مہکے ترے تصور سے 
شام کے بعد پھر سحر مہکے 

رات بھر سوچتا رہا تجھ کو 
ذہن و دل میرے رات بھر مہکے 

یاد آئے تو دل منور ہو 
دید ہو جائے تو نظر مہکے 

وہ گھڑی دو گھڑی جہاں بیٹھے 
وہ زمیں مہکے وہ شجر مہکے

نواز دیوبندی


 

تنویر احمد علوی

یوم پیدائش 16 جولائی 1920

لمحہ در لمحہ گزرتا ہی چلا جاتا ہے 
وقت خوشبو ہے بکھرتا ہی چلا جاتا ہے 

آبگینوں کا شجر ہے کہ یہ احساس وجود 
جب بکھرتا ہے بکھرتا ہی چلا جاتا ہے 

دل کا یہ شہر صدا اور یہ حسیں سناٹا 
وادئ جاں میں اترتا ہی چلا جاتا ہے 

اب یہ اشکوں کے مرقعے ہیں کہ سمجھتے ہیں نہیں 
نقش پتھر پہ سنورتا ہی چلا جاتا ہے 

خون کا رنگ ہے اس پہ بھی شفق کی صورت 
خاک در خاک نکھرتا ہی چلا جاتا ہے 

واپسی کا یہ سفر کب سے ہوا تھا آغاز
نقش پا جس کا ابھرتا ہی چلا جاتا ہے

جیسے تنویرؔ کے ہونٹوں پہ لکھی ہے تاریخ
ذکر کرتا ہے تو کرتا ہی چلا جاتا ہے

تنویر احمد علوی


 

تنویر احمد علوی

یوم پیدائش 16 جولائی 1925

عجیب شخص ہے پتھر سے پر بناتا ہے
دیار سنگ میں شیشہ کا گھر بناتا ہے

جو زخم پھول کی پتی کا سہہ سکا نہ کبھی
اس آبلہ کو وہ اپنی سپر بناتا ہے

فضا کا بوجھ سمجھتا ہے چاند سورج کو
وہ گردنوں پہ سجانے کو سر بناتا ہے

جہاں سے قافلۂ وقت راہ بھولا تھا
انہیں سرابوں میں وہ رہگزر بناتا ہے

تراشتا ہے جگر وہ بھی آبگینوں سے
خذف کو کاسۂ عرض ہنر بناتاہے

دل و نظر کے فسوں اس کو راس آ نہ سکے
وہ آئنوں سے گزرنے کو در بناتا ہے

یہ کس سے کہئے کہ تنویرؔ خود صلیبوں کو
سکون جاں کے لئے ہم سفر بناتا ہے

تنویر احمد علوی



ایوب رومانی

یوم وفات 15 جولائی 1986

رہ گزاروں میں روشنی کے لیے 
لے کے نکلے ہیں آندھیوں میں دیے 

ذائقہ تلخ ہے محبت کا 
آدمی زہر غم پیے نہ پیے 

دل میں یادوں کے رت جگے جیسے 
ٹمٹماتے ہوں مرگھٹوں کے دیے 

دل میں طوفان ہیں چھپائے ہوئے 
ہم تو بیٹھے ہیں اپنے ہونٹ سیے 

کوئی تجھ سا نظر نہیں آتا 
دل نے سو رنگ انتخاب کیے 

در بدر شہر میں پھرے یارو 
اپنے کاندھے پہ اپنی لاش لیے 

دل کی دل میں رہیں تمنائیں 
آنکھوں آنکھوں میں کتنے اشک پیے 

جان پیاری ہمیں بھی تھی ایوبؔ 
اپنی خاطر مگر کبھی نہ جیے

ایوب رومانی



محمد ذکا اللہ ثناء چشتی

یوم پیدائش 15 جولائی 1983

تیرگی سر نگوں ہے زمانے کے بعد
روشنی ہو گئی تیرے آنے کے بعد

دل ہو ہلکا نہ کیوں اپنی آنکھوں سے جب
 کچھ ندامت کے آنسو گرانے کے بعد
 
 جب سے میرے تصور میں آیا ہے وہ
 نام اس کا لیا ہر فسانے کے بعد
 
ان کی یادوں کے نغموں کا ہے یہ اثر
ہوش گم ہو گئے گنگنانے کے بعد

تھا مسافر وہ کیسا ملا چل دیا
ڈھونڈتا ہی رہا اس کو جانے کے بعد

ایسا بوئیں یہاں زیست کے کھیت کو
مسکرائیں یہاں پھل بھی آنے کے بعد

ہے وجود اپنا ایسا کہ حیراں ہیں سب
اور وسعت ملی ہے مٹانے کے بعد

تخم الفت جو بویا تھا ہم نے کبھی
نذر آتش ہوا لہلہا نے کے بعد 

میرے قد کو ملی ہے بلندی "ثنا"
 آپ کے در پہ سر کو جھکانے کے بعد
 
محمد ذکا اللہ ثناء چشتی



اسما صبا خواج

یوم پیدائش 15 جولائی 1992

نفرتوں کو دلوں سے مٹا دیجیے
الفتوں کو دلوں میں بسا دیجیے

شمع علم و عمل کی جلا دیجیے
اور تعصب کو جڑ سے مٹا دیجیے

ہم کو پیغام دیتا ہے اپنا وطن
سب کو آپس میں رہنا سکھا دیجیے

اب نہ مندر نہ مسجد گرائے کوئی
اک مثال ایسی مل کر بنا دیجیے

ہوں نہ رسوا جہاں میں کبھی بیٹیاں
اے صباؔ ظالموں کو سزا دیجیے

اسما صبا خواج



آمین عاصم

یوم پیدائش 15 جولائی 1968

زندگی کے سارے دکھ سب تلخیاں اپنی جگہ 
اک تبسم تیرا ان کے درمیاں اپنی جگہ

بارشیں اپنی جگہ ہیں، آندھیاں اپنی جگہ
نرم کومل پھول کو خوف خزاں اپنی جگہ

فاصلہ کیوں بڑھ رہا ہے پھر ہمارے درمیاں
میرا گھر اپنی جگہ، اس کا مکاں اپنی جگہ

میں جسے چھوڑ آیا گاؤں میں نہ بھولے وہ مجھے 
پرکشش ہیں شہر کی بھی لڑکیاں اپنی جگہ

 تھی طلوع ماه کی اک بند کھڑکی منتظر 
 منتظر اک چاند کا میں بھی وہاں اپنی جگہ

پنجه زن اپنی جگہ شب سے نجوم آسماں
اور یہ میرے آنسوؤں کی کہکشاں اپنی جگہ

دیکھ کر حیراں ہیں عاصم غازۂ جاناں کا رنگ
سارے پھول اپنی جگہ، سب تتلیاں اپنی جگہ

آمین عاصم



صابر نظر

یوم پیدائش 15 جولائی 1959

ہجر بھی دینے لگا اب راحتِ وصلِ مدام
شوق آ پہنچا ہے شاید لذتِ آزار تک

صابر نظر



حیدر نایاب

یوم پیدائش 15 جولائی 1930

سرِ محفل اگر روشن کسی کا نام ہوتا ہے
عنایت کا اسی کے پاس ہردم جام ہوتا ہے

خودی دیوار بن جاتی ہے راہِ حق شناسی میں
خدا کی جستجو تو بے خودی کا کام ہوتا ہے

وفورِ فطرتِ تخلیق سے بنتی ہیں تصویریں
مزاجِ حسن جب منتِ کشِ پیغام ہوتا ہے

سراشکِ غم بکھر جاتے ہیں آغوشِ تخیل میں
جنھیں چن چن کے شاعر فاتحِ آلام ہوتا ہے

سوائے رازِ مطلق کے نہیں ہے کوئی استثنیٰ
دو عالم میں تو ہر آغاز کا انجام ہوتا ہے

ہماری حس ہی ہوتی ہے بنا خود درد کے نایابؔ
مٹا دو تم جو اس کو تو شروع آرام ہوتا ہے

حیدر نایاب


 

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...