یوم پیدائش 17 جنوری 1962
سرد ٹھٹھری ہوئی لپٹی ہوئی صرصر کی طرح
زندگی مجھ سے ملی پچھلے دسمبر کی طرح
کس طرح دیکھنا ممکن تھا کسی اور طرف
میں نے دیکھا ہے تجھے آخری منظر کی طرح
ہاتھ رکھ لمس بھری تیز نظر کے آگے
چیرتی جاتی ہے سینہ مرا خنجر کی طرح
بارشیں اس کا لب و لہجہ پہن لیتی تھیں
شور کرتی تھی وہ برسات میں جھانجھر کی طرح
کچی مٹی کی مہک اوڑھ کے اتراتی تھی
میں اسے دیکھتا رہتا تھا سمندر کی طرح
پلو گرتا ہوا ساڑی کا اٹھا کر منصورؔ
چلتی ہے چھلکی ہوئی دودھ کی گاگر کی طرح
منصور آفاق