Urdu Deccan

Sunday, January 17, 2021

منصور آفاق

 یوم پیدائش 17 جنوری 1962


سرد ٹھٹھری ہوئی لپٹی ہوئی صرصر کی طرح

زندگی مجھ سے ملی پچھلے دسمبر کی طرح 


کس طرح دیکھنا ممکن تھا کسی اور طرف

میں نے دیکھا ہے تجھے آخری منظر کی طرح 


ہاتھ رکھ لمس بھری تیز نظر کے آگے

چیرتی جاتی ہے سینہ مرا خنجر کی طرح 


بارشیں اس کا لب و لہجہ پہن لیتی تھیں

شور کرتی تھی وہ برسات میں جھانجھر کی طرح 


کچی مٹی کی مہک اوڑھ کے اتراتی تھی

میں اسے دیکھتا رہتا تھا سمندر کی طرح 


پلو گرتا ہوا ساڑی کا اٹھا کر منصورؔ

چلتی ہے چھلکی ہوئی دودھ کی گاگر کی طرح


منصور آفاق


حیدر دہلوی


 برحق وہ بہت دور ہے نظارے کا ڈر ہے

کونین جسے کہتے ہیں آغوش ِنظر ہے


ہونٹوں پہ تبسم ہے گریباں پہ نظر ہے

آغوش میں تم ہو کہ گلستاں کی سحر ہے


کہتے ہیں کہ فریاد ہے تکذیبِ محبت

معلوم ہوا کفر تمنائے اثر ہے


تو چاہے تو اب ختم یہ سلسلہ ِشام

ظالم تری انگڑائی گریبانِ سحر ہے


ہم آنکھ اٹھاتے ہیں بہت دور پہنچکر

یہ بیخودی ِشوق نہیں راہ گزر ہے

 

اے ذوق طلب عشق سی سو حُسن عبارت

بر خیز کہ اب میرے لئے میری نظر ہے


کیوں محوِ جمال آئینہء زعم میں ہیں وہ

کیا میری نظر سے بھی بلند انکی نظر ہے


نومیدی نظارہ کے اسباب فنا کر

فریاد کہ فریاد بھی محروم اثر ہے


ہم تیرے بغیر اپنی حقیقت سے پرے تھے

یہ بے خبری اصل میں اپنی ہی خبر ہے


آسودہ کبھی حسن تھا شوق طلبی میں

وہ خواب ہے جس عشق سے تعبیر بشر ہے


کیوں نرگس ِمخمور سے مئے ڈھال رہے ہو

غلطیدہ ابھی گیسوئے شب تابہ کمر ہے

 

تو طور کا بھڑکا ہوا شعلہ دم ِرفتار

لہراتی ہوئی برق تری راہ گزر ہے


حیدر نہ ملی داد کبھی علم و ہنر کی

ہر اہل وطن میرے لئے تنگ نظر ہے 


حیدر دہلوی

Saturday, January 16, 2021

جاوید اختر

 یوم پیدائش 17 جنوری 1945


تم کو دیکھا تو یہ خیال آیا

زندگی دھوپ تم گھنا سایہ


آج پھر دل نے اک تمنا کی

آج پھر دل کو ہم نے سمجھایا


تم چلے جاؤ گے تو سوچیں گے

ہم نے کیا کھویا ہم نے کیا پایا


ہم جسے گنگنا نہیں سکتے

وقت نے ایسا گیت کیوں گایا


(جاوید اختر)​


حبیب احمد صدیقی

 یوم پیدائش 15 جنوری 1908


خزاں نصیب کی حسرت بروئے کار نہ ہو

بہار شعبدۂ چشم انتظار نہ ہو 


فریب خوردۂ الفت سے پوچھئے کیا ہے

وہ ایک عہد محبت کہ استوار نہ ہو 


نظر کو تاب نظارہ نہ دل کو جرأت دید

جمال یار سے یوں کوئی شرمسار نہ ہو 


قبا دریدہ و دامان و آستیں خونیں

گلوں کے بھیس میں یہ کوئی دل فگار نہ ہو 


نہ ہو سکے گا وہ رمز آشنائے کیف حیات

جو قلب چشم تغافل کا رازدار نہ ہو 


طریق عشق پہ ہنستی تو ہے خرد لیکن

یہ گمرہی کہیں منزل سے ہمکنار نہ ہو 


نہ طعنہ زن ہو کوئی اہل ہوش مستوں پر

کہ زعم ہوش بھی اک عالم خمار نہ ہو 


وہ کیا بتائے کہ کیا شے امید ہوتی ہے

جسے نصیب کبھی شام انتظار نہ ہو 


یہ چشم لطف مبارک مگر دل ناداں

پیام عشوۂ رنگیں صلائے دار نہ ہو 


کسی کے لب پہ جو آئے نوید زیست بنے

وہی حدیث وفا جس پہ اعتبار نہ ہو 


جو دو جہان بھی مانگے تو میں نے کیا مانگا

وہ کیا طلب جو بقدر عطائے یار نہ ہو


حبیب احمد صدیقی


عبد الحفیظ نعیمی

 وم پیدائش 15 جنوری 1911

بہار بن کے خزاں کو نہ یوں دلاسا دے
نگاہیں پھیر لے اپنی نہ خود کو دھوکا دے

مصاف زیست ہے بھر دے لہو سے جام مرا
نہ مسکرا کے مجھے ساغر تمنا دے

کھڑا ہوا ہوں سر راہ منتظر کب سے
کہ کوئی گزرے تو غم کا یہ بوجھ اٹھوا دے

وہ آنکھ تھی کہ بدن کو جھلس گئی قربت
مگر وہ شعلہ نہیں روح کو جو گرما دے

ہجوم غم وہ رہا عمر بھر در دل پر
خوشی اسی میں رہی یہ ہجوم رستا دے

لکھا ہے کیا مرے چہرے پہ تو جو شرمایا
زبان سے نہ بتا آئنا ہی دکھلا دے

میں لڑکھڑا سا گیا ہوں وفا کے وعدے پر
پکڑ کے ہاتھ مجھے گھر تلک تو پہونچا دے

سکوت انجم و مہ نے چھپا لیا ہے جسے
جھکی نظر نہ کسی کو وہ راز بتلا دے

ہر ایک درد کا درماں ہے لوگ کہتے ہیں
مگر وہ درد نعیمیؔ جو خود مسیحا دے

عبد الحفیظ نعیمی

#urdupoetry #urdudeccan #اردودکن #اردو #


شعراء #birthday  #پیدائش #شاعری #اردوشاعری #اردوغزل #urdugazal #urdu #poetrylover #poetry #rekhta #شاعر #غزل #gazal

واصف علی واصف

 یوم پیدائش 15 جنوری 1929


اے رب ِسموات تیری ذات وار ہے

ہیبت سے تری کوہ ِگراں کاپ رہا ہے 


انسان بیچارہ تجھے کیا جان سکے گا

اِدراک کی دنیا میں تجھے ڈھونڈ رہا ہے


ہیں تیرے ہی انداز غریبی و امیری

دیتا ہے کبھی اور کبھی مانگ رہا ہے


معلوم ہے اتنا کہ ہمیں کچھ نہیں معلوم

جانا ہے کہ کیا جانے گا جو جان گیا ہے


ہر سمت ہے وَجُہ اللہ عیاں خالق احسن 

خود آئنہ خود دیدہء حیران ہوا ہے 


واصف علی واصف


ندیم بھابھہ



 یوم پیدائش 16 جنوری 1992


تمام عمر جلے اور روشنی نہیں کی

یہ زندگی ہے تو پھر ہم نے زندگی نہیں کی 


ستم تو یہ ہے کہ میرے خلاف بولتے ہیں

وہ لوگ جن سے کبھی میں نے بات بھی نہیں کی 


جو دل میں آتا گیا صدق دل سے لکھتا گیا

دعائیں مانگی ہیں میں نے تو شاعری نہیں کی 


بس اتنا ہے کہ مرا بخت ڈھل گیا اور پھر

مرے چراغ نے بھی مجھ پہ روشنی نہیں کی 


مری سپاہ سے دنیا لرزنے لگتی ہے

مگر تمہاری تو میں نے برابری نہیں کی


کچھ اس لیے بھی اکیلا سا ہو گیا ہوں ندیمؔ

سبھی کو دوست بنایا ہے دشمنی نہیں کی


ندیم بھابھہ

Friday, January 15, 2021

کاشف احسن کاش قنوجی

 زمانے بھر کی بلاؤں کو مات دیتی ہے

 یہ میری ماں کی دعا ہے جو ساتھ دیتی ہے 


دلوں میں رنج و الم بیٹھ جائے جب اکثر 

ہمیں سکون وہی پاک ذات دیتی ہے  


غموں کے دور میں ہر شخص ساتھ چھوڑ گیا

 میں اور بس میری تنہائی ساتھ دیتی ہے 


 بس ایک اس کے لئے جان بھی نچھاور ہے 

 جو ہر گھڑی میرے ہاتھوں میں ہاتھ دیتی ہے 


خدا کے آگے تہجّد میں گر پڑو "کاشف"

 کبھی جو دن نہیں دیتا وہ رات دیتی ہے 

 

کاشف احسن کاش قنّوجی


خالد محمود

 


یوم پیدائش 15 جنوری 1948


ٹھنڈی ٹھنڈی نرم ہوا کا جھونکا پیچھے چھوٹ گیا

جانے کس وحشت میں گھر کا رستہ پیچھے چھوٹ گیا 


بچے میری انگلی تھامے دھیرے دھیرے چلتے تھے

پھر وہ آگے دوڑ گئے میں تنہا پیچھے چھوٹ گیا 


عہد جوانی رو رو کاٹا میرؔ میاں سا حال ہوا

لیکن ان کے آگے اپنا قصہ پیچھے چھوٹ گیا 


پیچھے مڑ کر دیکھے گا تو آگے بڑھنا مشکل ہے

میں نے کتنی بار کہا تھا دیکھا؟ پیچھے چھوٹ گیا 


سر تا پا سیلاب تھے خالدؔ چاروں جانب دریا تھا

پیاس میں جس دن شدت آئی دریا پیچھے چھوٹ گیا


خالد محمود

احمد علوی میرٹھی


 یوم پیدائش 15 جنوری 1956


کیا جانے کہہ گئی ہے وہ کیا میرے کان میں

سر گوشیاں سی ہونے لگیں آسمان میں


دل کو کسی کی یاد سے خالی نہ کیجئے

آسیب رہنے لگتے ہیں خالی مکان میں


خوابوں کو بیچ دوں ابھی اتنا نہیں غریب

رکھی ہیں صرف آنکھیں ہی میں نے دوکان میں


سر کاٹ کر علم کی طرح خود اٹھا لیا 

کچھ فرق آ نہ جائے کہیں آن بان میں


جو کر سکے تو دل سے تعلق کی قدر کر

رشتوں کا اعتبار نہیں ہے جہان میں


سوغات پتھروں کی ملے گی پڑوس سے 

پھل دار کوئی پیڑ لگا لو مکان میں 


احمد علوی میرٹھی

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...