Urdu Deccan

Wednesday, January 20, 2021

پروندر شوخ

 یوم پیدائش 20 جنوری 1964


ذرا سوچا تو کیا کیا ذہن سے منظر نکل آئے 

مرے احساس کے کچھ کھنڈروں سے گھر نکل آئے 


لگیں دینے سبق وہ پھر پرندوں کو اڑانوں کا

ذرا سے شہر میں جب چینٹیوں کے پر نکل آئے 


یہ عالم ہے کہ جب بھی گھر میں کچھ ڈھونڈنے بیٹھا

پرانے کاغذوں سے یاد کے منظر نکل آئے  


دکھائی دے کبھی یہ معجزہ بھی مجھ کو الفت میں

کسی شب چاند بن کر وہ مری چھت پر نکل آئے 


ملے ہیں زخم جب سے شوخؔ وہ گلشن سے برتا ہے

بھروسہ کچھ نہیں کس پھول سے پتھر نکل آئے


پروندر شوخ


جمیل الدین عالی

 یوم پیدائش 20 جنوری 1925


بہت دنوں سے مجھے تیرا انتظار ہے آ جا

اور اب تو خاص وہی موسم بہار ہے آ جا 


کہاں یہ ہوش کہ اسلوب تازہ سے تجھے لکھوں

کہ روح تیرے لیے سخت بے قرار ہے آ جا 


گزر چلی ہیں بہت غم کی شورشیں بھی حدوں سے

مگر ابھی تو ترا سب پہ اختیار ہے آ جا 


وہ تیری یاد کہ اب تک سکون قلب تپاں تھی

تری قسم ہے کہ اب وہ بھی ناگوار ہے آ جا 


غزل کے شکوے غزل کے معاملات جدا ہیں

مری ہی طرح سے تو بھی وفا شعار ہے آ جا 


بدل رہا ہو زمانہ مگر جہان تمنا

ترے لیے تو ابد تک بھی سازگار ہے آ جا 


ہزار طرح کے افکار دل کو روند رہے ہیں

مقابلے میں ترے رنج روزگار ہے آ جا

 

جمیل الدین عالی


Tuesday, January 19, 2021

اکبر حیدرآبادی

 یوم پیدائش 20 جنوری 1925


گھٹن عذاب بدن کی نہ میری جان میں لا

بدل کے گھر مرا مجھ کو مرے مکان میں لا 


مری اکائی کو اظہار کا وسیلہ دے

مری نظر کو مرے دل کو امتحان میں لا 


سخی ہے وہ تو سخاوت کی لاج رکھ لے گا

سوال عرض طلب کا نہ درمیان میں لا 


دل وجود کو جو چیر کر گزر جائے

اک ایسا تیر تو اپنی کڑی کمان میں لا 


ہے وہ تو حد گرفت خیال سے بھی پرے

یہ سوچ کر ہی خیال اس کا اپنے دھیان میں لا 


بدن تمام اسی کی صدا سے گونج اٹھے

تلاطم ایسا کوئی آج میری جان میں لا 


چراغ راہ گزر لاکھ تابناک سہی

جلا کے اپنا دیا روشنی مکان میں لا 


بہ رنگ خواب سہی ساری کائنات اکبرؔ

وجود کل کو نہ اندیشۂ گمان میں لا


اکبر حیدرآبادی


Monday, January 18, 2021

چکبست برج نرائن

 یوم پیدائش 19 جنوری 1882

درد دل پاس وفا جذبۂ ایماں ہونا
آدمیت ہے یہی اور یہی انساں ہونا

نو گرفتار بلا طرز وفا کیا جانیں
کوئی نا شاد سکھا دے انہیں نالاں ہونا

روکے دنیا میں ہے یوں ترک ہوس کی کوشش
جس طرح اپنے ہی سائے سے گریزاں ہونا

زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب
موت کیا ہے انہیں اجزا کا پریشاں ہونا

دفتر حسن پہ مہر ید قدرت سمجھو
پھول کا خاک کے تودے سے نمایاں ہونا

دل اسیری میں بھی آزاد ہے آزادوں کا
ولولوں کے لیے ممکن نہیں زنداں ہونا

گل کو پامال نہ کر لعل و گہر کے مالک
ہے اسے طرۂ دستار غریباں ہونا

ہے مرا ضبط جنوں جوش جنوں سے بڑھ کر
ننگ ہے میرے لیے چاک گریباں ہونا

قید یوسف کو زلیخا نے کیا کچھ نہ کیا
دل یوسف کے لیے شرط تھا زنداں ہونا

چکبست برج نرائن


نعیم احمد نیم

 یوم پیدائش 18 جنوری 2000


جب مرا وہم و گماں سوئے سحر جاتا ہے

تب سیہ رات کا ڈر دل سے اتر جاتا ہے


وحشت و درد کے رستوں پہ تھکن اتنی ہے

جو میں چلتا ہوں تو پھر سایہ ٹھہر جاتا ہے


زندہ رہ سکتا نہیں کوٸ بھی تعبیر تلک

میری آنکھوں میں تو ہر خواب ہی مر جاتا ہے


ایسے ڈرتا ہوں ترے ہجر کی پرچھائیں سے

جیسے اک بچہ برے خواب سے ڈر جاتا ہے


جیسے آتش سے کیا جاتا ہے سونا کندن

ایسے دل درد کی لذت سے نکھر جاتا ہے


ایسی شمشیرِ اَنا ہم کو ملی ورثے میں

جب وہ چلتی ہے تو بس اپنا ہی سر جاتا ہے


بغض و نفرین کی آلودہ فضاٶں میں نعیم

سانس لینے سے مرا جسم مکر جاتا ہے


نعیم احمد نیم


تاباں واسطی

 یوم پیدائش 18 جنوری 1945


مری زندگی کے ورق ورق پہ ہے تیرا نام لکھا ہوا

مرے ہر نفس میں اے جانِ جاں ہے ترا نفس بھی گھُلا ہوا


ہے تُجھی سے رونقِ انجمن، تو ہی میری جاں تو ہی میرا من

مری آرزو کے چمن میں ہے تو ہی ایک پھول کھِلا ہوا


مری سادگی کی ہر اک ڈگر پہ ہے حسنِ ناز و نیاز تو

تری دوستی کا بھرم ہے یہ کہ چراغ ہوں میں جلا ہوا


ترے لمس کی وہ لطافتیں ہیں مرے دِماغ کی نُزہتیں

ہوں صبا کے سیلِ بہار میں تری رہ گذر پہ کھڑا ہوا


نہ جھٹک تو گیسوئے عنبریں، نہ لُٹا تو نکہتِ دلنشیں

بادب کہ آئینہ زیست کا تری زلف سے ہے بندھا ہوا


ہوں تری نگاہ میں معتبر،تو ہی دوست ہے تو ہی چارہ گر

لے خبر کہ موجِ فراق میں مرا قافلہ ہے پھنسا ہوا


میں شکستہ ساز ہوں منفرد، مرے آئینے میں تری اَدا

کوئی ڈھونڈے میری کتاب میں ترے غم کا موتی چھپا ہوا


ترے عارضوں کا گُلاب ہوں،میں ترے لبوں کی شراب ہوں

میں وہ ایک نخلِ حیات ہوں تری دھوپ میں جو ہرا ہوا


تاباں واسطی


صغریٰ عالم

 یوم پیدائش 18 جنوری 1938


دید کا اصرار موسیٰ لن ترانی کوہ طور

ہم نے آنکھیں بند کیں اور آ گئے تیرے حضور 


اب حنائی دست کی ہوں گی اجارہ داریاں

آنکھ میں شبنم جبیں کے نور میں رنگ شعور 


بات کرنا موسم برسات کی پہلی جھڑی

مسکرا کے دیکھنا قوس قزح کا ہے ظہور


پھول بستی میں چلیں ہمجولیوں کا ساتھ ہے

شہروں شہروں بڑھ گیا ہے سنگ زادوں کا فتور 


پیش خدمت ہے یہ اپنی بات اپنا ادعا

دیکھنا حرف سخن پر کس کو حاصل ہے فتور


صغریٰ عالم


مومن خان مومن

 یوم پیدائش 18 جنوری 1801


وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

وہی یعنی وعدہ نباہ کا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو 


وہ جو لطف مجھ پہ تھے بیشتر وہ کرم کہ تھا مرے حال پر

مجھے سب ہے یاد ذرا ذرا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو 


وہ نئے گلے وہ شکایتیں وہ مزے مزے کی حکایتیں

وہ ہر ایک بات پہ روٹھنا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو 


کبھی بیٹھے سب میں جو روبرو تو اشارتوں ہی سے گفتگو

وہ بیان شوق کا برملا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو 


ہوئے اتفاق سے گر بہم تو وفا جتانے کو دم بہ دم

گلۂ ملامت اقربا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو 


کوئی بات ایسی اگر ہوئی کہ تمہارے جی کو بری لگی

تو بیاں سے پہلے ہی بھولنا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو 


کبھی ہم میں تم میں بھی چاہ تھی کبھی ہم سے تم سے بھی راہ تھی

کبھی ہم بھی تم بھی تھے آشنا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو 


سنو ذکر ہے کئی سال کا کہ کیا اک آپ نے وعدہ تھا

سو نباہنے کا تو ذکر کیا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو 


کہا میں نے بات وہ کوٹھے کی مرے دل سے صاف اتر گئی

تو کہا کہ جانے مری بلا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو 


وہ بگڑنا وصل کی رات کا وہ نہ ماننا کسی بات کا

وہ نہیں نہیں کی ہر آن ادا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو 


جسے آپ گنتے تھے آشنا جسے آپ کہتے تھے با وفا

میں وہی ہوں مومنؔ مبتلا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو


مومن خاں مومن


Sunday, January 17, 2021

رضا نقوی واہی

 یوم پیدائش 18 جنوری 1914

اردو کی نسبندی


فیملی منصوبہ بندی کا کرشمہ دیکھ کر

بڑھتی آبادی گھٹانے کا یہ نسخہ دیکھ کر


قوم کو اردو کی نسبندی کا بھی آیا خیال

تاکہ رخصت ہو دلوں سے جلد یہ کافرِ جمال


مختلف ناموں سے نسبندی بَھون کھولے گئے

کچھ تو پہلے سے ہی تھے کچھ دفعتاً کھولے گئے


سربراہوں میں کچھ اپنے بھی تھے کچھ اغیار بھی

مصلحت پیشہ بھی کچھ تھے ان میں کچھ خونخوار بھی


فکر زنگ آلود سے نشترزنی ہونے لگی

زخم اپنا، اپنے ہی خوں سے زباں دھونے لگی


بعد آزادی تو یوں بھی تھی لبوں پر اس کے جاں

اک محقق نے کہا اردو ہے ترکوں کی زباں


یہ تو گھس  پیٹھی ہے بھارت ورش میں کیا اس کا کام

جلد دستورِ اساسی سے ہٹاؤ اس کا نام


غیر تو غیر ہیں اپنوں کا بھی سنئے ماجرا

جن کے پنجوں میں بیچاری کا دبا ہے نرخرا


آئے نسبندی بِھون کی سربراہی کے لیے

کھل گیا اک اور رستہ تاناشاہی کے لیے 


جب سے اپنے شہر میں قائم ہوا یہ ورکشاپ

پیر تسمہ پاکی صورت ہیں مسلط اس پہ آپ


کیمپ میں رکھی گئی کچھ ایسے نسبندوں کی ٹیم

چند دن میں عطائی چند کے جعلی حکیم


یوں غلط بخشی و حق تلفی کا گھن چکر چلا

سب کو یاد آیا پرانا قصہ بندر بانٹ کا


مستند فنکار ہوں یا نو نہالانِ ادب

ایک ہی لاٹھی سے ہانکے کے جا رہے ہیں سب کے سب


جی حضوری اور خوشامد کی تو سودا پٹ گیا

ورنہ نسبندی بَھون سے رشتہ ناتا کٹ گیا


جیسے نادر شاہ نے لوٹی تھی دلی کی بہار

فن ہو یا فنکار ناقدری کے ہیں یوں ہی شکار


گر کسی نے کردیا کچھ ان کی مرضی کے خلاف

غیر ممکن ہے کبھی کردیں بڑے صاحب معاف


جو بجٹ رکھا گیا تھا خوں چڑھانے کے لئے

یعنی اردو کو بچانے اور جِلانے کے لیے


بینک بیلنس اس رقم سے دن بدن بڑھتا گیا

شیر نے کھاکر جو چھوڑا گیدڑوں میں بٹ گیا


گڑ کھلانے سے اگر بیمار کا قصہ پاک ہو

اس کو ناحق زہر دیکر کیوں کیا جائے ہلاک


سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی دو ٹکڑے نہو

اس کو کہتے ہیں تدبر  اے ادیبو!  شاعرو


اس زبردستی کی نسبندی سے واہی عن قریب

جاں بحق تسلیم ہونے ہی کو ہے اردو غریب

رضا نقوی واہی


بھگوان مرے دل کو وہ زندہ تمنا دے

جو حرص کو بھڑکا دے اور جیب کو گرما دے

وادی ِسیاست کے اس ذرے کو چمکا دے

اس خادم ِادنی کو اک کرسی اعلی دے

اوروں کا جو حصہ ہے مجھ کو وہی داتا دے

محرومِ بتاشہ ہوں تو پوری و حلو دے

ہاں مرغ مسلم دے ہاں گرم پراٹھا دے

سوکھی ہوئی آنتوں کو فوراً ہی جو چکنا دے

تحریر میں چشتی دے تقریر میں گرمی دے

جنتا کو جو پھسلالے اور قوم کو بہکا دے

سکھلادے مجھے داتا وہ راز جہاں بانی

قطرے سے جو دریا لے دریا کو جو قطرہ دے

مفلس کی لنگوٹی تک باتوں میں اتروالوں

احسان کے پردے میں چوری کا سلیقہ دے

قاتل کی طعبیت کو بسمل کی ادا سکھلا

خونریزی کے جذبے کو ہمدردی کا پروا دے

تھوڑی سی جو غیرت ہے وہ بھی نہ رہے باقی

احساس حمیت کو اس دل سے نکلوا دے

القصہ مرے مالک تجھ سے یہ گزارش ہے

مرغی وہ عنایت ہو سونے کا جو انڈا دے


رضا نقوی واہی


حیدر دہلوی


 یوم پیدائش 17 جنوری 1906


برحق وہ بہت دور ہے نظارے کا ڈر ہے

کونین جسے کہتے ہیں آغوش ِنظر ہے


ہونٹوں پہ تبسم ہے گریباں پہ نظر ہے

آغوش میں تم ہو کہ گلستاں کی سحر ہے


کہتے ہیں کہ فریاد ہے تکذیبِ محبت

معلوم ہوا کفر تمنائے اثر ہے


تو چاہے تو اب ختم یہ سلسلہ ِشام

ظالم تری انگڑائی گریبانِ سحر ہے


ہم آنکھ اٹھاتے ہیں بہت دور پہنچکر

یہ بیخودی ِشوق نہیں راہ گزر ہے

 

اے ذوق طلب عشق سی سو حُسن عبارت

بر خیز کہ اب میرے لئے میری نظر ہے


کیوں محوِ جمال آئینہء زعم میں ہیں وہ

کیا میری نظر سے بھی بلند انکی نظر ہے


نومیدیِ نظارہ کے اسباب فنا کر

فریاد کہ فریاد بھی محروم اثر ہے


ہم تیرے بغیر اپنی حقیقت سے پرے تھے

یہ بے خبری اصل میں اپنی ہی خبر ہے


آسودہ کبھی حسن تھا شوق طلبی میں

وہ خواب ہے جس عشق سے تعبیر بشر ہے


کیوں نرگس ِمخمور سے مئے ڈھال رہے ہو

غلطیدہ ابھی گیسوئے شب تابہ کمر ہے

 

تو طور کا بھڑکا ہوا شعلہ دم ِرفتار

لہراتی ہوئی برق تری راہ گزر ہے


حیدر نہ ملی داد کبھی علم و ہنر کی

ہر اہل وطن میرے لئے تنگ نظر ہے 


حیدر دہلوی

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...