Urdu Deccan

Monday, March 8, 2021

شمشاد شاؔد

 فناۓ ہستیء انساں ہے اختتامِ حیات

تمام عمر کرے کون اہتمامِ حیات


وہ جن کی صبحیں ہیں رنگینیوں سے آلودہ 

اذیتوں میں گزرتی ہے ان کی شامِ حیات


نہ کھیل جان سے اپنوں کی اور نہ غیروں کی

کہ اہلِ عقل پہ واجب ہے احترامِ حیات


وہی ہے خالق و مالک تمام عالم کا

 اسی کے فضل پہ موقوف ہے نظام حیات


قنوط و یاس کی باتیں نہ ذکرِ خوف و ہراس

مری غزل کا ہر اک لفظ ہے پیامِ حیات


چراغِ زندگی بجھ بھی گیا تو کیا غم ہے

اندھیری قبرسے آگے ہے اہتمامِ حیات


میسر آتی کہاں لذتیں زمانے کی

جو شاؔد ہم کو میسر نہ ہوتا جام حیات


شمشاد شاؔد


عمیر ساحل

 جس جگہ سوچ نہ ہی سوچ کے دھارے پہنچے۔

اس جگہ پاک پیمبر کے اشارے پہنچے۔

سنت شاہ امم سے ملا پروانہ جاں۔

جب بھی ہم لوگ تباہی کے کنارے پہنچے۔


عمیر ساحل


نیاز احمد مجاز انصاری

 ایک شیطان کے انکار سے کیا ہوتا ہے

تیرے سجدے کو یہاں اہلِ جبیں اور بھی ہیں

نیاز احمد مجاز انصاری


محسن کشمیری

 یوم پیدائش 08 مارچ 1991


ترے اس حسن سے اپنی غزل کی ابتداء کر لوں

ترے جیسا حسیں مطلع بنے ایسی خطا کر لوں


بدن سوکھا پڑا ہے اور یہ تشنہ لبی اس پر

پلا ساقی کہ تیرے عشق میں خود کو فنا کر لوں


اٹھا تلوار ،کر لے وار، سر تن سے جدا کر لے

مرے قاتل! محبت کا ذرا سا حق ادا کر لوں


ہٹا پردہ رخِ روشن سے اب تو شام آئی ہے

برا کیا ہے اگر خود کو میں محبوبِ خدا کر لوں


محسن کشمیری


ساحر لدھیانوی

 یوم پیدائش 08 مارچ 1921

گیت


کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے

کے جیسے تجھ کو بنایا گیا ہے میرے لیے


تو اب سے پہلے ستاروں میں بس رہی تھی کہیں

تجھے زمین پہ بلایا گیا ہے میرے لیے


کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے

کے یہ بدن یہ نگاہیں میری امانت ہیں


یہ گیسوئوں کی گھنی چھاؤں ہیں میری خاطر

یہ ہونٹ اور یہ بانہیں میری امانت ہیں


کے جیسے بجتی ہے شہنائیاں سے راہوں میں

سہاگ رات ہے گھونگھٹ اٹھا رہا ہوں میں


سمٹ رہی ہے تو شرما کے اپنی بانہوں میں

کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے


کے جیسے تو مجھے چاہے گی عمر بھر یوں ہی

کے اٹھے گی میرے طرف پیار کی نظر یوں ہی


میں جانتا ہوں تو غیر ہے مگر یوں ہی

کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے


ساحر لدھیانوی


ریاض حنفی

 یوم پیدائش 08 مارچ 1963 


کسی گاؤں کا اک سنسان رستہ ہو گیا ہوں 

گئے ہیں آپ جب سے میں اکیلا ہو گیا ہوں 


بچایا ہے بہت سے ڈوبنے والوں کو میں نے 

کبھی ساحل کبھی دریا کا تنکا ہو گیا ہوں 


مجھے اب لوگ میرے نام سے کم جانتے ہیں 

کسی کا جسم تو چہرہ کسی کا ہو گیا ہوں 


تمہاری یاد کے سورج نے آنکھیں پھیر لی ہیں 

میں دن ہوتے ہوئے بھی شب گزیدہ ہو گیا ہوں 


یہ کس انداز سے دیکھا ہے پیچھے مُڑ کے تم نے 

میں خود اپنی ہی نظروں میں تماشا ہو گیا ہوں 


ریاض حنفی


ساحر لدھیانوی

 یوم پیدائش 08 مارچ 1921

یوم خواتین مبارک


لوگ عورت کو فقط جسم سمجھ لیتے ہیں 

روح بھی ہوتی ہے اس میں یہ کہاں سوچتے ہیں 

روح کیا ہوتی ہے اس سے انہیں مطلب ہی نہیں 

وہ تو بس تن کے تقاضوں کا کہا مانتے ہیں 

روح مر جاتے ہیں تو یہ جسم ہے چلتی ہوئی لاش 

اس حقیقت کو نہ سمجھتے ہیں نہ پہچانتے ہیں 

کتنی صدیوں سے یہ وحشت کا چلن جاری ہے 

کتنی صدیوں سے ہے قائم یہ گناہوں کا رواج 

لوگ عورت کی ہر اک چیخ کو نغمہ سمجھے 

وہ قبیلوں کا زمانہ ہو کہ شہروں کا رواج 

جبر سے نسل بڑھے ظلم سے تن میل کریں 

یہ عمل ہم میں ہے بے علم پرندوں میں نہیں 

ہم جو انسانوں کی تہذیب لیے پھرتے ہیں 

ہم سا وحشی کوئی جنگل کے درندوں میں نہیں 

اک بجھی روح لٹے جسم کے ڈھانچے میں لیے 

سوچتی ہوں میں کہاں جا کے مقدر پھوڑوں 

میں نہ زندہ ہوں کہ مرنے کا سہارا ڈھونڈوں 

اور نہ مردہ ہوں کہ جینے کے غموں سے چھوٹوں 

کون بتلائے گا مجھ کو کسے جا کر پوچھوں 

زندگی قہر کے سانچوں میں ڈھلے گی کب تک 

کب تلک آنکھ نہ کھولے گا زمانے کا ضمیر 

ظلم اور جبر کی یہ ریت چلے گی کب تک


ساحر لدھیانوی


قیوم نظر

 یوم پیدائش 07 مارچ 1914


ماتھے پر ٹیکا صندل کا اب دل کے کارن رہتا ہے

مندر میں مسجد بنتی ہے مسجد میں برہمن رہتا ہے 


ذرہ میں سورج اور سورج میں ذرہ روشن رہتا ہے

اب من میں ساجن رہتے ہیں اور ساجن میں من رہتا ہے 


رت بیت چکی ہے برکھا کی اور پریت کے مارے رہتے ہیں

روتے ہیں رونے والوں کی آنکھوں میں ساون رہتا ہے 


اک آہ نشانی جینے کی رہتی تھی مگر جب وہ بھی نہیں

کیوں دکھ کی مالا جپنے کو یہ تنکا سا تن رہتا ہے 


اے مجھ پر ہنسنے اور کسی کو دیکھنے والے یہ تو کہو

یوں کب تک جان پہ بنتی ہے یوں کب تک جوبن رہتا ہے 


دل توڑ کے جانے والے سن دو اور بھی رشتے باقی ہیں

اک سانس کی ڈوری اٹکی ہے اک پریم کا بندھن رہتا ہے


قیوم نظر


آغا شاعر قزلباش

 یوم پیدائش 05 مارچ 1981


بتوں کے واسطے تو دین و ایماں بیچ ڈالے ہیں

یہ وہ معشوق ہیں جو ہم نے کعبے سے نکالے ہیں


وہ دیوانہ ہوں جس نے کوہ و صحرا چھان ڈالے ہیں

انہیں تلووں سے تو ٹوٹے ہوئے کانٹے نکالے ہیں


تراشی ہیں وہ باتیں اس ستم گر نے سر محفل

کلیجے سے ہزاروں تیر چن چن کر نکالے ہیں


جگر دل کے ورق ہیں وعدۂ دیدار سے روشن

انہیں کیوں دوں کسی کو یہ تو جنت کے قبالے ہیں


اگر منہ سے کہا کچھ تو بکھر ہی جائیں گے ٹکڑے

بڑی مشکل سے ہم ٹوٹے ہوئے دل کو سنبھالے ہیں


ہمیں ہیں موجد باب فصاحت حضرت شاعرؔ

زمانہ سیکھتا ہے ہم سے ہم وہ دلی والے ہیں


آغا شاعر قزلباش


Thursday, March 4, 2021

خواجہ ریاض الدین عطش


 یوم پیدائش 04 مارچ 1925

زندگانی وہ معتبر ہوگی
جو محبت کے نام پر ہوگی

ہوگی پھولوں کی منزلت معلوم
عمر کانٹوں میں جب بسر ہوگی

دل رہے گا تو خون دل ہوگا
اشک ہوں گے تو چشم تر ہوگی

جو تجھے دیکھ کے پلٹ آئے
وہ نظر بھی کوئی نظر ہوگی

رات تو دن کی اک علامت ہے
رات ہوگی تو اک سحر ہوگی

رات بھر ہم جلیں گے فرقت میں
روشنی آج رات بھر ہوگی

بیکلی کا گماں عطشؔ تھا مگر
یہ نہ سمجھا تھا اس قدر ہوگی

خواجہ ریاض الدین عطش

#urdupoetry #urdudeccan #اردودکن #اردو #شعراء #birthday  #پیدائش #شاعری #اردوشاعری #اردوغزل #urdugazal #urdu #poetrylover #poetry #rekhta #شاعر #غزل #gazal

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...