فناۓ ہستیء انساں ہے اختتامِ حیات
تمام عمر کرے کون اہتمامِ حیات
وہ جن کی صبحیں ہیں رنگینیوں سے آلودہ
اذیتوں میں گزرتی ہے ان کی شامِ حیات
نہ کھیل جان سے اپنوں کی اور نہ غیروں کی
کہ اہلِ عقل پہ واجب ہے احترامِ حیات
وہی ہے خالق و مالک تمام عالم کا
اسی کے فضل پہ موقوف ہے نظام حیات
قنوط و یاس کی باتیں نہ ذکرِ خوف و ہراس
مری غزل کا ہر اک لفظ ہے پیامِ حیات
چراغِ زندگی بجھ بھی گیا تو کیا غم ہے
اندھیری قبرسے آگے ہے اہتمامِ حیات
میسر آتی کہاں لذتیں زمانے کی
جو شاؔد ہم کو میسر نہ ہوتا جام حیات
شمشاد شاؔد