Urdu Deccan

Monday, March 29, 2021

پیر محمد علی نعیمی

 سب سے افضل بشر آپؐ ہیں آپؐ ہیں

خوب سے خوب تر آپ ؐہیں آپؐ ہیں


مسکراکر صحابہ یہ کہتے رہے 

یا نبی ہمسفر آپؐ ہیں آپؐ ہیں


آپ ؐکی یاد ہے آپ ؐکا ذکر ہے

لب پہ شام و سحر آپؐ ہیں آپؐ ہیں


آپؐ کی ذاتِ اقدس ہے خود معجزہ

دوجہاں میں امر آپؐ ہیں آپؐ ہیں


آپؐ کا واسطہ رب کو منظور ہے

ہر دُعا کا اثر آپؐ ہیں آپؐ ہیں


قافیے نور کے، نوری ہر اک ردیف

شاعری کا ثمر آپؐ ہیں آپؐ ہیں


یہ علی کا وظیفہ رہے یا نبیؐ

میں کہوں عمر بھر آپؐ ہیں آپؐ ہیں


صلی اللہ علیہ وسلم


پیر محمد علی نعیمی


Sunday, March 28, 2021

یاسین باوزیر

 پل بھر کو میرے خواب میں آ کر چلا گیا 

اک شخص میری نیند اڑا کر چلا گیا 


ممکن ہے واپسی نہ تو آگے ہے راستہ

تو مجھ کو کیسے موڑ پہ لا کر چلا گیا


نفرت سی ہو گئی ہے مجھے اپنی شکل سے

آئینہ کوئی ایسے دکھا کر چلا گیا


وہ مجھ کو جان سے بھی زیادہ عزیز تھا

جو مجھ سے اپنی جان چھڑا کر چلا گیا


اشکوں کی بارشیں بھی بجھا پائیں نہ جسے

وہ ایسی آگ دل میں لگا کر چلا گیا


اسکی جدائی نے نہ رکھا کام کا مجھے

کچھ دن جو مجھ سے پیار جتا کر چلا گیا


ہنستے تھے اس کے حال پہ سب لوگ ہی مگر

یاسین آج سب کو رلا کر چلا


گیا


یاسین باوزیر

یاور حبیب ڈار

 ہمیں لوگ کیوں کر گدا سوچتے ہیں

مگر یہ حقیقت بجا سوچتے ہیں


ستائش کریں گی، تمنا کسے ہے

تغافل کریں گے بھلا سوچتے ہیں


رہے عرش سے فرش تک بول بالا

فدا جان اپنی خدا سوچتے ہیں


ہمیں فکر تیری شب و روز رہتی

عجب ہے مگر وہ برا سوچتے ہیں


عداوت سہی ہے مگر دشمنوں سے

کروں کوچ پاشا جیا سوچتے ہیں


 ہوئیں دھڑکنیں کب بتا تیز یاور

بھلا سوچتے ہی فنا سوچتے ہیں


یاور حبیب ڈار


عمیر ساحل

 نظم

تیرے چہرے پہ پڑے درد کے وحشی دھبے

قصہ بتلاتے ہیں حالات کی تنگ دستی کا

کیسے پاتے ہیں نمو زیست میں جاں لیوا عذاب

پھیکا پڑ جاتا ہے کس واسطے رنگ ہستی کا


کیسے دب جاتا ہے غربت سے محبت کا گلا

ہجر کھا جاتا ہے کسطرح سے چہرے کے نقوش

حال بتلاتے ہیں شکنوں میں دبے رنج و الم

کتنا پر نور تھا چہرہ کیسے گہرے تھے نقوش


لوگ کہتے ہیں کہ دن رات بدل جاتے ہیں

وقت جب بدلے تو حالات بدل جاتے ہیں

آ ہی جاتا ہے سکون ایک دریدہ دل کو

فلسفے ، سوچ و خیالات بدل جاتے ہیں


عزم پختہ ہو اگر حوصلہ اقبال سا ہو

تو کنول کتنے ہی تالاب میں کھل جاتے ہیں

اک سمندر میں پناہ لیتے ہیں کتنے دریا

کتنے سورج ہیں جو اک شام میں ڈھل جاتے ہیں


عمیر ساحل


جاوید رامش


 یوم پیدائش 28 مارچ 1976


کتنے ہی گھٹا ٹوپ اندھیرے مرے آقاﷺ 

ہونے نہیں دیتے ہیں سویرے مرے آقاﷺ 


اشراف سبھی اپنے ضمیروں میں ہوئے قید 

پھرتے ہیں کُھلے عام لُٹیرے مرے آقاﷺ 


انسان تو پیدائشی آذاد تھا پھر کیوں ؟

قابض ہیں ابھی تک یہ وڈیرے مرے آقاﷺ 


اپنوں میں وہی خوئے ابو جہل بہر طور 

ظالم کے حواری ہیں چچیرے مرے آقاﷺ 


دھرتی بھی ترے ﷺ نقش ِکف ِ پا سے مزیّن 

اور عرش پہ بھی تیرے بسیرے مرے آقاﷺ


یہ دھیان اگر تیرا سمیٹے نہ مجھے تو 

یہ گردش ِ غم کتنا بکھیرے مرے آقاﷺ 


                    جاوید رامشؔ

اسامہ بابر ماحی

 ایک چہرہ کل سے آنکھوں میں سمایا ساقیا

ایک مدت بعد جس نے ہے سلایا ساقیا


کیا لکھوں تعریف میں اس مہ جبیں کے حسن کی

خوب فرصت سے جسے رب نے بنایا ساقیا


اس کی آنکھیں جھیل سی تھیں ڈوبنے کو من کیا

مجھ کو آکر کس لئے تو نے بچایا ساقیا


ہونٹ اس کے سرخی مائل پھول سا نازک مزاج

مجھ کو آکر تتلیوں نے سب بتایا ساقیا


جب سے اس کو دیکھا ہے، مجھ کو نہ جانے کیا ہوا

بھول بیٹھا ہوں میں اپنا اور پرایا ساقیا


بھول جانا یادِ ماضی کتنا مشکل تھا مگر

بھول جانے کا ہنر اس نے سکھایا ساقیا


اسامہ بابر ماحی


راغب مرادآبادی

 یوم پیدائش 27 مارچ 1918


ہٹ جائیں اب یہ شمس و قمر درمیان سے

میری زمیں ملے گی گلے آسمان سے


سینے میں ہیں خلا کے وہ محفوظ آج بھی

جو حرف ادا ہوئے ہیں ہماری زبان سے


وہ میرے ہی قبیلے کا باغی نہ ہو کہیں

اک تیر ادھر کو آیا ہے جس کی کمان سے


صیاد نے کیا ہے اسی کو اسیر دام

طائر جو دل گرفتہ رہا ہے اڑان سے


ناکامیوں نے اور بڑھائے ہیں حوصلے

گزرا ہوں جب کبھی میں کسی امتحان سے


کہلائے جس میں رہ کے ہمیشہ کرایہ دار

کیا انس ہو مکین کو ایسے مکان سے


کیوں پیروی پہ ان کی ہو مائل مرا دماغ

غالبؔ کے ہوں نہ میرؔ کے میں خاندان سے


راغبؔ بہ احتیاط ہی لازم ہے گفتگو

دشمن کو بھی گزند نہ پہنچے زبان سے


راغب مرادآبادی


صفیہ شمیم

 یوم پیدائش 27 مارچ 1920


وہ حسرت بہار نہ طوفان زندگی

آتا ہے پھر رلانے کو ابر بہار کیوں


آلام و غم کی تند حوادث کے واسطے

اتنا لطیف دل مرے پروردگار کیوں


جب زندگی کا موت سے رشتہ ہے منسلک

پھر ہم نشیں ہے خطرۂ لیل و نہار کیوں


جب ربط و ضبط حسن محبت نہیں رہا

ہے بار دوش ہستئ ناپائیدار کیوں


رونا مجھے خزاں کا نہیں کچھ مگر شمیمؔ

اس کا گلہ ہے آئی چمن میں بہار کیوں


صفیہ شمیم


زوار قمر عابدی

 یوم پیدائش 26 مارچ


وہ جو اترا تھا میری روح میں خوشبو بن کر

اب میری آنکھ سے ٹپکا ہے وہ آنسو بن کر


کرجیاں خواب ہیں تعبیر ہے ریزہ ریزہ

رقصِ تقدیر میں ٹوٹا ھوں میں گھنگرو بن کر


یاد کرتا ہوں تو اطراف مہک اٹھتے ہیں 

جیسے وہ آپ ہی آجاتا ہے خوشبو بن کر


گھیرے رکھتے ہیں مجھے یوں تیری یاوں کے حصار

بام و دیوار بھی ملتے ہیں مجھے تو بن کر


ہائے اُس دوش پہ وہ رات سے کالی زلفیں

جن پہ خورشید بھی منڈلائے ہے جگنو بن کر 


جنسِ بازار سمجھتے ہیں مجھے لوگ قمر 

جو بھی ملتا ہے وہ ملتا ہے ترازو بن کر 


زوار قمر عابدی


کہکشاں تبسم

 یوم پیدائش 26 مارچ 1960


ہمیں خانوں میں مت بانٹو

کہ ہم تو روشنی ٹھہرے

کسی دہلیز پر جلتے ہوئے شب بھر

کسی کا راستہ تکتے

چراغوں سے بھی آگے ہے جہاں اپنا

اجالوں کی کمک لے کر

اندھیرے کی صفوں کو چیر جاتے ہیں

یہ جگنو چاند اور تارے

ہماری صورتیں جیسے

ہمیں خانوں میں مت بانٹو

ہوا ہیں ہم

بھلا دیوار و در میں قید کیا ہوں گے

سنہری صبح ڈھلتی شام کی راحت ہمیں سے ہے

ہمیں میزان پر رکھنے سے پہلے

تولنے سے قبل اتنا سوچ لینا ہے

ہمارا بوجھ تیری بند مٹھی میں دبی رسی

اٹھائے گی بھلا کیسے

کہ ہم تو شش جہت میں

جس طرف نظریں اٹھاؤ

دیکھ لو پھیلی ہوئی بکھری ہوئی ہم کو

کہ ہم تو زندگی ہیں


کہکشاں تبسم


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...