منزلوں کی اور جاتے سب اشارے مر گئے
آنکھ کی دہلیز پر جب خواب سارے مر گئے
لمحہ بھر کو چاند مٹھی میں چھپا کے رکھ لیا
لمحہ بھر میں دیکھ تو کتنے ستارے مر گئے
اُس نے جب اک پھول کے رخسار پر بوسہ دیا
تم نے دیکھا ہی نہیں کتنے نظارے مرگئے
پانیوں کی چاہ میں اُس کے قدم اُٹھے تو پھر
ہو گیا دریا سمندر اور کنارے مر گئے
اُس نے جب سر کو مرے کاندھے پہ آ کے رکھ دیا
پھر شجر دیوار و در اور سب سہارے مر گئے
وقتِ رخصت حوصلہ جانے کہاں گم ہو گیا
سوچ پاگل ہو گئی ، الفاظ سارے مر گئے
اِس طرح صدقے اتارے اس نے اپنی ذات کے
اُس نے اپنے سر سے جتنے لوگ وارے مر گئے
اشفاق احمد صائم