Urdu Deccan

Saturday, April 24, 2021

اشفاق احمد صائم

 منزلوں کی اور جاتے سب اشارے مر گئے

آنکھ کی دہلیز پر جب خواب سارے مر گئے


لمحہ بھر کو چاند مٹھی میں چھپا کے رکھ لیا

لمحہ بھر میں دیکھ تو کتنے ستارے مر گئے


اُس نے جب اک پھول کے رخسار پر بوسہ دیا

تم نے دیکھا ہی نہیں کتنے نظارے مرگئے


پانیوں کی چاہ میں اُس کے قدم اُٹھے تو پھر

ہو گیا دریا سمندر اور کنارے مر گئے


اُس نے جب سر کو مرے کاندھے پہ آ کے رکھ دیا

پھر شجر دیوار و در اور سب سہارے مر گئے 


وقتِ رخصت حوصلہ جانے کہاں گم ہو گیا 

سوچ پاگل ہو گئی ، الفاظ سارے مر گئے 


اِس طرح صدقے اتارے اس نے اپنی ذات کے

اُس نے اپنے سر سے جتنے لوگ وارے مر گئے


اشفاق احمد صائم


ذاکر حسین ذاکر ہلسنکی

 دل شجر ہو جاۓگا جب بے اثر

وہ رہےگا بے محبت بے ثمر 


زخم ان کو میں دکھانے آ گیا

جو لئے نشتر کھڑے تھے منتظر


آنکھ سے ٹپکا تھا میرے ہی لہو

جان کر بنتے رہے وہ بے خبر 


میں رہا بت سادگی کا بن کے ہی

وہ اداکاری میں ٹھہرے خوب تر


ایک لغزش کیا ہوئ تھی راہ میں 

ہو گیا ہر راستہ ہی پر خطر


بھول کر مجھ کو گئ جو زندگی

میں رہوں ذاؔکر اسی کا عمر بھر


ذاکر حسین ذاکر ہلسنگی


ذوالفقار علی ذلفی

 زخم پر زخم کھانے کی عادت نہیں

اب مجھے دل لگانے کی عادت نہیں


میں تمہارا یقیں اب کروں کِس طرح

خود کو پاگل بنانے کی عادت نہیں


جو بُھلا دے اُسے بُھول جاتا ہوں میں

اپنے دل کو جلانے کی عادت نہیں


گر کِسی سے بھلائی نہ کر پاٶں تو

مجھ کو دل بھی دُکھانے کی عادت نہیں


رات دن سوچتا ہوں فقط میں تمہیں

مجھ کو سارے زمانے کی عادت نہیں


میں تو لِکھتا ہوں غزلیں تمہارے لئے

ہر کِسی کو سنانے کی عادت نہیں


ساتھ میرا مصیبت میں جو چھوڑ دے

اُس کو پھر آزمانے کی عادت نہیں


ہے وفا کی توقع اُسی سے مجھے

جِس کو وعدہ نِبھانے کی عادت نہیں


تھی طبیعت گلابوں سی پر اب مجھے

بِن ترے مسکرانے کی عادت نہیں


بُھول جاتا ہوں ذُلفی زمانے کو میں

ایک تجھ کو بُھلانے کی عادت نہیں


ذوالفقار علی ذُلفی


Friday, April 23, 2021

مبین ناظر

 جیتے رہنا ہی جینے کا ہرجانہ ہے 

مر ہی جاتے مگر جرم مر جانا ہے


بےرخی اپنی کب تک چھپاے ہوا

ٹوٹا شیشہ تو اک دن بکھر جانا ہے


جیسا بھی ہو سفر کاٹنا ہے ہمیں 

اور پھر لوٹ کے اپنے گھر جانا ہے 


کہنے کو ہے سفر یہ تمہارا مگر 

جاں وہ دیگا اشارہ ادھر جانا ہے 


چھوٹا سا مرحلہ زندگی ہے مگر

تا قیامت رہے نام کر جانا ہے


کون کب تک بسا کس کے دل میں مبین

ایک دن تجھ کو دل سے اتر جانا ہے


مبین ناظر


ریحانء محمد

 مسجد ہو یا مندر ہو کیا؟

تم میرا حتمی گھر ہو کیا؟


یہ حوریں تم سے جلتی ہیں؟

اچھا اتنی سندر ہو کیا؟


ہائے اتنا میٹھا لہجہ

تم اردو کی ٹیچر ہو کیا؟


یہ تیری پوجا کرتی ہیں

تم پریوں کی رہبر ہو کیا؟


اتنی میٹھی چائے جاناں

شوگر مل میں ورکر ہو کیا؟


اف دوزخ سے دھمکاتی ہو

تم عالم کی دختر ہو کیا؟


تم سے پوچھیں تو کھلتے ہیں

تم پھولوں کی افسر ہو کیا؟


تم سے پوچھیں گے سب حانی

تم شاعر کی ہمسر ہو کیا؟


ریحانءمحمد


محمد ہارون علی ماجد

 ترا خیال نہ کردے کہیں فنا ہم کو

اے یار اتنا مسلسل نہ یاد آ ہم کو


نئے مزاج نئی سوچ کے ہوے حامل

بدلتے وقت نے کتنا بدل دیا ہم کو


نشاطِ روح ودل کی تھی آروزو لیکن

سوائے درد کے کچھ بھی نہیں ملا ہم


کبھی تھے موم کی صورت پگھلنے والے ہم

فریبِ زیست نے پتھر بنا دیا ہم کو


قصور اتنا تھا حق کے لئے زباں کھولی 

ملی نا کردہ گناہوں کی پھر سزا ہم کو


بکھرنا طئے تھا ہمارا کہ قرب سے تیرے

ملا ہے جینے کا اے یار حوصلہ ہم کو


ہوئیں خطائیں بہت ہم سے روز وشب ماجد

کہ جبکہ اچھے برے کا شعور تھا ہم کو


محمد ہارون علی ماجد 


شائستہ کنول عالی

 ظلمت شب سے کہیں دور اجالا مچلے   

چاند مچلے تو کہیں چاند کا ہالہ مچلے 


روح کی بالکنی میں کوئی خوشبو پھیلے  

دل کے صحرا و بیابان میں لالہ مچلے 


فکر روشن ہو کسی پیار کے افسانے کی   

نوک خامہ میں کوئی مست مقالہ مچلے 


کوئی دلدار ملے "کے ٹو" کی چوٹی جیسا 

دل کے آنگن میں کوئی عشق ہمالہ مچلے 


مرے دل میں مرے بابا کی محبت دھڑکے 

میرے ماتھے پہ میری ماں کا حوالہ مچلے  


وجد میں جام دھمالی ہو صبوحی ناچے 

مے کدہ رقص کرے مے کا پیالہ مچلے  


آج خاموشی میں طوفان چھپا ہے عالی 

برف کے بوجھ تلے جیسے جوالا مچلے 


شائستہ کنول عالی


ماہ لقا چندا

 یوم پیدائش 18 اپریل 1768


گل کے ہونے کی توقع پہ جئے بیٹھی ہے

ہر کلی جان کو مٹھی میں لیے بیٹھی ہے


کبھی صیاد کا کھٹکا ہے کبھی خوف خزاں

بلبل اب جان ہتھیلی پہ لیے بیٹھی ہے


تیر و شمشیر سے بڑھ کر ہے تری ترچھی نگاہ

سیکڑوں عاشقوں کا خون کیے بیٹھی ہے


تیرے رخسار سے تشبیہ اسے دوں کیوں کر

شمع تو چربی کو آنکھوں میں دیئے بیٹھی ہے


تشنہ لب کیوں رہے اے ساقیٔ کوثر چنداؔ

یہ ترے جام محبت کو پیے بیٹھی ہے


ماہ لقا چندا


فرید جاوید

 یوم پیدائش 18 اپریل 1927


یہ کہاں سے موج طرب اٹھی کہ ملال دل سے نکل گئے

وہی صبح و شام جو تھے گراں نفس بہار میں ڈھل گئے


یہ دیار شوق ہے ہم نشیں یہاں لغزشوں میں بھی حسن ہے

جو مٹے وہ اور ابھر گئے جو گرے وہ اور سنبھل گئے


حسیں زندگی کی تلاش تھی ہمیں سر خوشی کی تلاش تھی

ہوئے زندگی سے جو آشنا تو جراحتوں سے بہل گئے


ترے سوگواروں کی زندگی کبھی مطمئن نہ گزر سکی

جو بجھی کبھی کوئی تشنگی کئی اور درد مچل گئے


مری آرزوؤں کے خواب تھے کہ فضائے حسن و شباب تھے

کہیں نکہتوں میں بکھر گئے کہیں رنگ و نور میں ڈھل گئے


انہیں راحتوں کا خیال ہے نہ صعوبتوں کا ملال ہے

جو تری تلاش میں چل پڑے جو تری طلب میں نکل گئے


ہے بھری بہار تو کیا کروں نہ ملے قرار تو کیا کروں

مرے سامنے ہیں وہ آشیاں جو بھری بہار میں جل گئے


فرید جاوید


نیاز احمد عاطر

 چھن گیا سائباں دربدر ہو گیا

مرگئی جب سے ماں دربدر ہو گیا


شہر بھی ہے وہی لوگ بھی ہیں وہی

ڈھونڈتے آشیاں دربدر ہو گیا


ہر گلی ہر سڑک دیکھی بھالی مری

ہاۓ قسمت کہاں دربدر ہو گیا


کوئلوں بلبلوں کا جو تھا ہم نوا

دیکھ لے باغباں دربدر ہو گیا


جھڑکیوں ہچکیوں کے سفر میں رہا

بخت کے درمیاں دربدر ہو گیا


اوڑھ کر وحشتیں پھرتا ہوں کوبہ کو

ٹھہروں میں اب کہاں در بدر ہو گیا


دکھ بھری زندگی لٹ گئی ہر خوشی

بول کر داستاں دربدر ہو گیا


اپنے حالات کا ستایا ہوا

آج مالک مکاں دربدر ہو گیا


نیاز احمد عاطر


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...