Urdu Deccan

Tuesday, April 27, 2021

محمد ولی صادقؔ

 یوم پیدائش 25 اپریل


ہوائے تیز کبھی دھوپ سخت جھیلتا ہوں

مصیبتوں کو مثالِ درخت جھیلتا ہوں


خدا نے کڑوی دواؤں میں ہے شفا رکھی

بڑوں کا اس لئے لہجہ کرخت جھیلتا ہوں


شَجَر کے سائے میں ہوتا تھا وصل دونوں کا

سو آج ہجر بھی زیرِ درخت جھیلتا ہوں


سکونِ قلب نہ آسائشوں میں ڈھونڈ کبھی

فقیر مست زمیں پر٬ میں تخت جھیلتا ہوں


تو جانتا ہے میں کیوں خون تھوکتا ہوں یہاں؟

وہ صدمۂ جگرِ لخت لخت جھیلتا ہوں


سکوت٬ ہجر٬ اداسی٬ سیاہ رات کا دکھ

یہ درد وہ ہیں جو میں تیرہ بخت جھیلتا ہوں


بھٹک رہا ہوں لیئے جسمِ نا تواں صادقؔ

تھکن سے چور بدن پر میں رخت جھیلتا ہوں


محمد ولی صادقؔ


Saturday, April 24, 2021

اسامہ طاہر

 کہ ہم سے بے سہاروں کو اذیت ڈھانپ لیتی ہے 

وہاں سے بچ نکل آئیں تو وحشت ڈھانپ لیتی ہے 


کسی کی یاد ایسی ہے ہمیں ہنسنے نہیں دیتی 

ہماری ساری خوشیاں تو محبت ڈھانپ لیتی ہے 


کسی سے بھی گلہ کرتا نہیں تیرے رونے کا 

اُداسی کو یہ دنیاوی تھکاوٹ ڈھانپ لیتی ہے 


کوئی مرتا نہیں ہے دور جانے پر کسی کے اب 

یہاں سب کو کوئی نہ کوئی چاہت ڈھانپ لیتی ہے 


ہماری تو وفاداری بھی جھوٹی لگتی دنیا کو 

تمہاری بیوفائی کو نزاکت ڈھانپ لیتی ہے 


یہاں پر لوگ بکتے ہیں جسے چاہو خریدو تم 

یہاں پر سب گناہوں کو یہ دولت ڈھانپ لیتی ہے 


ہماری زندگی ہے اس قدر سچی اداکاری 

فسانے سے نکلتے ہیں حقیقت ڈھانپ لیتی ہے 


 اُسامہ طاہر


واحد کشمیری

 بڑے لاچار ہیں کیا مانگتے ہیں

سکوں کے ساتھ جینا مانگتے ہیں


نہ کچھ تیرا نہ میرا مانگتے ہیں

یہ خود پر اپنا قبضہ مانگتے ہیں


نہ کرسی نا خزینہ مانگتے ہیں

یہ محنت کش پسینہ مانگتے ہیں


بڑ ی مدت سے دھر نا چل رہا ہے

کرشی قانون ٹلنا مانگتے ہیں


کسانوں سے زمینیں چھین لو اب

یہ اپنا اپنا حصّہ مانگتے ہیں


یہ غیرت اور عزت سے ہمیشہ

بڑی خوشحال دُنیا مانگتے ہیں


کرے پرواہ کوئی بھی نہ واحد

یہ بچے ہیں کھلونا مانگتے ہیں


واحد کشمیری


زاہد فتح پوری

 چھوڑئیے قصۂ ماضی کو نہ اب یاد کر یں

آئیے پھر دلِ ویراں کو ہم آباد کر میں


قدر آزادئ گلشن کی نہ جانی ہم نے

ہم کو کب حق ہے کہ ہم شکوۂ صیاد کریں


پوچھتے ہیں سبھی تاراجیء گلشن کا سبب

ہم تو خاموش ہیں کچھ آپ ہی ارشاد کریں


غم کے ماروں کو ہے اک موجِ تبسم کافی

آپ چاہیں تو علاجِ دل ناشاد کریں


زندگی اپنی کچھ اس طرح گزار اے زاہد

بھولنے والے بھی تاعمر تجھے یاد کریں


زاہد فتح پوری


ستیہ پال آنند

 نظم:- انّا للٰہ و انّا الیہ راجعون


ایک مردہ تھا جسے میں خود اکیلا

اپنے کندھوں پر اٹھائے

آج آخر دفن کر کے آ گیا ہوں

بوجھ بھاری تھا مگر اپنی رہائی کے لیے

بے حد ضروری تھا کہ اپنے آپ ہی اس کو اٹھاؤں

اور گھر سے دور جا کر دفن کر دوں


یہ حقیقت تھی کہ کوئی واہمہ تھا

پر یہ بدبو دار لاشہ

صرف مجھ کو ہی نظر آتا تھا، جیسے

ایک نادیدہ چھلاوا ہو مرے پیچھے لگا ہو

میرے کنبے کے سبھی افراد اس کی

ہر جگہ موجودگی سے بے خبر تھے

صرف میں ہی تھا جسے یہ

ٹکٹکی باندھے ہوئے بے نور آنکھوں سے ہمیشہ گھورتا تھا


آج جب میں

اپنے ماضی کا یہ مردہ دفن کر کے آ گیا ہوں


کیوں یہ لگتا ہے کہ میرا

حال بھی جیسے تڑپتا لمحہ لمحہ مر رہا ہو

اور مستقبل میں جب یہ حال بھی ماضی بنے گا

مجھ کو پھر اک بار اس مردے کو کندھوں پر اٹھائے

دفن کرنے کے لیے جانا پڑے گا


ستیہ پال آنند


تارا اقبال

 یوم پیدائش 24 اپریل


ہم سفر تھا ہی نہیں رخت سفر تھا ہی نہیں

کچھ گنوانے کا مجھے خوف و خطر تھا ہی نہیں


مجھ کو ہر شام جہاں لے کے توقع آئی

در و دیوار تو موجود تھے گھر تھا ہی نہیں


انگلیاں زخمی ہوئیں تب مجھے احساس ہوا

دستکیں دی تھیں جہاں پر وہاں در تھا ہی نہیں


مجھ سے ہی پوچھا کیے میرے بکھرنے کا سبب

اہل دانش میں کوئی اہل نظر تھا ہی نہیں


دھول اڑائی جہاں خوابوں میں مسلسل میں نے

کسی نقشے میں کہیں پر وہ نگر تھا ہی نہیں


کس پہ الزام رکھیں کس پہ لگائیں تہمت

میری مٹی میں سمٹنے کا ہنر تھا ہی نہیں


یاد اک شخص تھا اک نام ہی ازبر تاراؔ

سوا اس کے کوئی تا حد نظر تھا ہی نہیں


تارا اقبال


منیش شکلا

 یوم پیدائش 24 اپریل 1971


تو مجھ کو سن رہا ہے تو سنائی کیوں نہیں دیتا 

یہ کچھ الزام ہیں میرے صفائی کیوں نہیں دیتا 


مرے ہنستے ہوئے لہجے سے دھوکا کھا رہے ہو تم 

مرا اترا ہوا چہرہ دکھائی کیوں نہیں دیتا 


نظر انداز کر رکھا ہے دنیا نے تجھے کب سے 

کسی دن اپنے ہونے کی دہائی کیوں نہیں دیتا 


میں تجھ کو دیکھنے سے کس لیے محروم رہتا ہوں 

عطا کرتا ہے جب نظریں رسائی کیوں نہیں دیتا 


کئی لمحے چرا کر رکھ لیے تو نے الگ مجھ سے 

تو مجھ کو زندگی بھر کی کمائی کیوں نہیں دیتا 


خود اپنے آپ کو ہی گھیر کر بیٹھا ہے تو کب سے 

اب اپنے آپ سے خود کو رہائی کیوں نہیں دیتا 


میں تجھ کو جیت جانے کی مبارک باد دیتا ہوں 

تو مجھ کو ہار جانے کی بدھائی کیوں نہیں دیتا 


منیش شکلا


خلیل مرزا

 نظم........ محبت 

محبت عزم ہوتی ہے سراپا بزم ہوتی ہے

محبت ہی دلوں میں چاہتوں کی بزم ہوتی ہے

محبت دل کی دھڑکن ہے محبت ایک آہٹ ہے

محبت خوف کے لمحوں میں کوئی سنسناہٹ ہے

محبت کے شناسا پر محبت قرض ہوتی ہے

اگر ایمان ہو جائے محبت فرض ہوتی ہے 

محبت تیز ہوتی ہے بڑی بے لاگ ہوتی ہے 

محبت سرد ہوتی ہے مگر یہ آگ ہوتی ہے

محبت غم,محبت نم یہ بن کے پیاس آتی ہے

کسی کو توڑ دیتی ہے کسی کو راس آتی ہے

محبت آب ہے ایسا کسی کے زخم دھوتا ہے

کوئی ہنستا ہے الفت میں کوئی غمگین روتا ہے 

محبت بند کمرے میں بھی اکثر سانس لیتی ہے

یہی انجان لوگوں کو بھی خود میں پھانس لیتی ہے 

محبت استعارا ہے وفاوں کا جفاوں کا

سمندر میں اترتی کشتیوں کے ناخداوں کا

محبت روح کا مندر محبت من کے اندر بھی

محبت قطرہ بھی ہے اور اک گہرا سمندر بھی

محبت, قیس کو صحراوں میں لیلی دکھائی دے

یہی فرہاد کو کہسار میں رستہ دکھائی دے

محبت آئینہ ہے ہیر کو رانجھا دکھائی دے

محبت ہے تو سوہنی کو کہاں دریا دکھائی دے

محبت گنگناتی ہے محبت جھومتی بھی ہے

محبت زندگی کے دائرے میں گھومتی بھی ہے

محبت ایسی ناگن ہے جو تنہائی میں ڈستی ہے

یہ شہرِ عشق کے افراد کے ہر گھر میں بستی ہے

محبت امن کے لشکر کے ہر دل کی کہانی ہے

محبت عقلِ کامل بھی محبت اک دیوانی ہے

یہی ایمان سازی ہے یہی کردار سازی ہے

ہمیشہ جیت ہو جسکی محبت ایسی بازی ہے


خلیل مرزا


رشید علی مرکھیانی

 یوم پیدائش 23 اپریل


جس کی تحویل میں ٹوٹا تھا ستارہ دل کا

حال تک اس نے نہیں پوچھا دوبارہ دل کا


میں محبت کے سمندر میں اُتر آیا ہوں

ڈوب جانے کو ہے اب مجھ میں کنارہ دل کا


کاش کچھ وقت تُو رُک جائے مری محفل میں

کاش اے دوست سمجھ لے تُو اشارہ دل کا


میں نہ کہتا تھا محبت میں نہیں حاصل کچھ

میں نہ کہتا تھا کہ ہے عشق خسارہ دل کا


تجھ پہ مرتا ہے تو اس دل کو پشیمان نہ کر

کچھ بھرم رکھ لے محبت میں خدارا دل کا


یہ جو دنیا ہے! صحیفہ ہے کوئی دھیان سے پڑھ

یہ زمیں اصل میں ہے ایک سپارہ دل کا


ہم نے جتنا بھی کہا دل سے کہا ہے راشد

شعر میں لفظ نہیں خون اُتارا دل کا


راشد علی مرکھیانی


کفیل آزر امروہوی

 یوم پیدائش 23 اپریل 1940


اس کی آنکھوں میں اتر جانے کو جی چاہتا ہے

شام ہوتی ہے تو گھر جانے کو جی چاہتا ہے


کسی کم ظرف کو با ظرف اگر کہنا پڑے

ایسے جینے سے تو مر جانے کو جی چاہتا ہے


ایک اک بات میں سچائی ہے اس کی لیکن

اپنے وعدوں سے مکر جانے کو جی چاہتا ہے


قرض ٹوٹے ہوئے خوابوں کا ادا ہو جائے

ذات میں اپنی بکھر جانے کو جی چاہتا ہے


اپنی پلکوں پہ سجائے ہوئے یادوں کے دیے

اس کی نیندوں سے گزر جانے کو جی چاہتا ہے


ایک اجڑے ہوئے ویران کھنڈر میں آذرؔ

نا مناسب ہے مگر جانے کو جی چاہتا ہے


کفیل آزر امروہوی


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...