Urdu Deccan

Wednesday, May 12, 2021

محسن نقوی

 یوم پیدائش 05 مئی 1947


ترے بدن سے جو چھو کر ادھر بھی آتا ہے

مثال رنگ وہ جھونکا نظر بھی آتا ہے


تمام شب جہاں جلتا ہے اک اداس دیا

ہوا کی راہ میں اک ایسا گھر بھی آتا ہے


وہ مجھ کو ٹوٹ کے چاہے گا چھوڑ جائے گا

مجھے خبر تھی اسے یہ ہنر بھی آتا ہے


اجاڑ بن میں اترتا ہے ایک جگنو بھی

ہوا کے ساتھ کوئی ہم سفر بھی آتا ہے


وفا کی کون سی منزل پہ اس نے چھوڑا تھا

کہ وہ تو یاد ہمیں بھول کر بھی آتا ہے


جہاں لہو کے سمندر کی حد ٹھہرتی ہے

وہیں جزیرۂ لعل و گہر بھی آتا ہے


چلے جو ذکر فرشتوں کی پارسائی کا

تو زیر بحث مقام بشر بھی آتا ہے


ابھی سناں کو سنبھالے رہیں عدو میرے

کہ ان صفوں میں کہیں میرا سر بھی آتا ہے


کبھی کبھی مجھے ملنے بلندیوں سے کوئی

شعاع صبح کی صورت اتر بھی آتا ہے


اسی لیے میں کسی شب نہ سو سکا محسنؔ

وہ ماہتاب کبھی بام پر بھی آتا ہے


محسن نقوی


ظفر گورکھپوری

 یوم پیدائش 05 مئی 1935


دیکھیں قریب سے بھی تو اچھا دکھائی دے

اک آدمی تو شہر میں ایسا دکھائی دے


اب بھیک مانگنے کے طریقے بدل گئے

لازم نہیں کہ ہاتھ میں کاسہ دکھائی دے


نیزے پہ رکھ کے اور مرا سر بلند کر

دنیا کو اک چراغ تو جلتا دکھائی دے


دل میں ترے خیال کی بنتی ہے اک دھنک

سورج سا آئینے سے گزرتا دکھائی دے


چل زندگی کی جوت جگائے عجب نہیں

لاشوں کے درمیاں کوئی رستہ دکھائی دے


کیا کم ہے کہ وجود کے سناٹے میں ظفرؔ

اک درد کی صدا ہے کہ زندہ دکھائی دے


ظفر گورکھپوری


سردار آصف

 یوم وفات 04 مئی 2021


میں جن کو ڈھونڈنے نکلا تھا گہرے غاروں میں

پتہ چلا کہ وہ رہتے ہیں اب ستاروں میں


پرکھ رہا ہے مجھے جو وہ اس خیال کا ہے

ہمیشہ جھوٹ نہیں ہوتا اشتہاروں میں


انہیں یقین تھا دنیا کی عمر لمبی ہے

جو لوگ پیڑ لگاتے تھے رہ گزاروں میں


میں خود کو دیکھوں اگر دوسرے کی آنکھوں سے

ملیں گی خامیاں اپنے ہی شاہ کاروں میں


تمہاری خوشبو کو مجھ سے کہیں یہ چھین نہ لے

ہوا جو رہتی ہے دیوار کی دراروں میں


خدا کا شکر کہ میں اس سے تھوڑی دور رہا

سفید سانپ تھا گیندے کے پیلے ہاروں میں


نشیلی رات کا نشہ کچھ اور بڑھ جاتا

ترا نظارا بھی ہوتا اگر نظاروں میں


زباں پہ آئی تو اپنی مٹھاس کھو بیٹھی

جو بات ہوتی تھی پہلے کبھی اشاروں میں


سردار آصف


عارف نسیم فیضی

 یوم پیدائش 05 مئی 


حال دل بھی کہا نہیں جاتا 

بن کہے بھی رہا نہیں جاتا 


ہو چکا اب تلک جو، کافی ہے 

اور ہم سے جیا نہیں جاتا 


ہم نے ٹھانی ہے جن منازل کی 

اس طرف راستہ نہیں جاتا 


آج کے دور میں کوئی بھی فرات 

سوئے کرب و بلا نہیں جاتا 


چاکِ دامن ہوئے رفو لیکن 

چاک دل کا سیا نہیں جاتا 


جان لینی ہے لیجئے لیکن 

کیا کروں دل دیا نہیں جاتا 


دار پرچڑھ کے بول اٹھا عارف 

سچ کسی سے سہا نہیں جاتا


عارف نسیم فیضی


سمیع اللہ عرفی

 یوم پیدائش 5 مئ 1958


خون کے دیپ فصیلوں پے جلا رکھےہیں

اپنے انداز زمانے سے جدا رکھے ہیں


دل میں امید نہیں لب پے کوئی بات نہیں

ہاتھ پھر بھی تو دعاؤں کو اٹھا رکھے ہیں


گھل رہاہے کہ وہ اوروں کو بتائے کیسے

خواب گونگے نے بھی آنکھوں میں بسا رکھے ہیں


یہ الگ بات کہ اظہار تلک آنہ سکے

دل میں جذبات مگر بیش بہا رکھے ہیں


اپنی عمروں کا لہو دے کےا نہیں پالا ہے

ہم نے تو درد بھی بیٹوں سے سوا رکھےہیں


کوئی وعدہ ہی نہیں ہے کہ کوئی آئےگا

جانے کیوں راہ میں دل پھول کھلا رکھے ہیں


کتنے ڈرپوک پیں عرفی یہ قبیلے والے

گزرے وقتوں کے سبھی قرض اٹھارکے ہیں


سمیع اللہ عرفی


علیم اسرار

 یوم پیدائش 05 مئی 1976


کبھی رستہ کبھی منزل تمنا

امیدوں کا حسیں ساحل تمنا


جہاں کا فلسفہ مشکل تمنا

کسی کی آرزو حاصل تمنا


سجائے کاغذوں پر اک دوانہ 

ستارےچاند جان و دل تمنا


کنارہ کرتے ہو کیوں خواہشوں سے

نہیں ہوتی کوئی کامل تمنا 


نئے عنوان سن کر مسکرائے

پرانے زخم کی حامل تمنا


کہواسرار ہم سے کہتی ہے کیا

نگاہوں سے عیاں جھمل تمنا


علیم اسرار


محمد شبیر انصاری راج

 یوم پیدائش 05 مئی 1976


ہے قیامت کی نشانی دنیا والوں دیکھ لو

جس قدر سے ڈر رہا ہے آدمی سے آدمی


محمد شبیر انصاری راج


Tuesday, May 4, 2021

محشر بدایونی

 یوم پیدائش 04 مئی 1922


آخر آخر ایک غم ہی آشنا رہ جائے گا

اور وہ غم بھی مجھ کو اک دن دیکھتا رہ جائے گا


سوچتا ہوں اشک حسرت ہی کروں نذر بہار

پھر خیال آتا ہے میرے پاس کیا رہ جائے گا


اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ

جس دیے میں جان ہوگی وہ دیا رہ جائے گا


آج اگر گھر میں یہی رنگ شب عشرت رہا

لوگ سو جائیں گے دروازہ کھلا رہ جائے گا


تا حد منزل توازن چاہئے رفتار میں

جو مسافر تیز تر آگے بڑھا رہ جائے گا


گھر کبھی اجڑا نہیں یہ گھر کا شجرہ ہے گواہ

ہم گئے تو آ کے کوئی دوسرا رہ جائے گا


روشنی محشرؔ رہے گی روشنی اپنی جگہ

میں گزر جاؤں گا میرا نقش پا رہ جائے گا


محشر بدایونی


اختر شیرانی

 یوم پیدائش 04 مئ 1905


اے دل وہ عاشقی کے فسانے کدھر گئے

وہ عمر کیا ہوئی وہ زمانے کدھر گئے


ویراں ہیں صحن و باغ بہاروں کو کیا ہوا

وہ بلبلیں کہاں وہ ترانے کدھر گئے


ہے نجد میں سکوت ہواؤں کو کیا ہوا

لیلائیں ہیں خموش دوانے کدھر گئے


اجڑے پڑے ہیں دشت غزالوں پہ کیا بنی

سونے ہیں کوہسار دوانے کدھر گئے


وہ ہجر میں وصال کی امید کیا ہوئی

وہ رنج میں خوشی کے بہانے کدھر گئے


دن رات مے کدے میں گزرتی تھی زندگی

اخترؔ وہ بے خودی کے زمانے کدھر گئے


اختر شیرانی


فارح مظفرپوری

 حد سبھی توڑکے چپکے چپکے

آ گئے گھر مرے چپکے چپکے


ہم نےہنس کر سہےچپکےچپکے

درد تھے جو دیے چپکے چپکے


باپ اور ماں کے سوا دنیا میں

کون ہے پیار دے چپکے چپکے


حکم سب اس کے بجا لاتے ہیں

ہاتھ باندھے ہوئے چپکے چپکے


میری بیماری کی خبریں پھیلیں

سب جدا ہو گئے چپکے چپکے


دیں گے میت کو ہمارے کاندھا؟

وہ جو پیچھے ہٹے چپکے چپکے


ہچکیاں آ کے یہ بولیں فارح

یاد ہم کو کیے چپکے چپکے


 فارح مظفرپوری


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...