یوم پیدائش 05 مئی 1947
ترے بدن سے جو چھو کر ادھر بھی آتا ہے
مثال رنگ وہ جھونکا نظر بھی آتا ہے
تمام شب جہاں جلتا ہے اک اداس دیا
ہوا کی راہ میں اک ایسا گھر بھی آتا ہے
وہ مجھ کو ٹوٹ کے چاہے گا چھوڑ جائے گا
مجھے خبر تھی اسے یہ ہنر بھی آتا ہے
اجاڑ بن میں اترتا ہے ایک جگنو بھی
ہوا کے ساتھ کوئی ہم سفر بھی آتا ہے
وفا کی کون سی منزل پہ اس نے چھوڑا تھا
کہ وہ تو یاد ہمیں بھول کر بھی آتا ہے
جہاں لہو کے سمندر کی حد ٹھہرتی ہے
وہیں جزیرۂ لعل و گہر بھی آتا ہے
چلے جو ذکر فرشتوں کی پارسائی کا
تو زیر بحث مقام بشر بھی آتا ہے
ابھی سناں کو سنبھالے رہیں عدو میرے
کہ ان صفوں میں کہیں میرا سر بھی آتا ہے
کبھی کبھی مجھے ملنے بلندیوں سے کوئی
شعاع صبح کی صورت اتر بھی آتا ہے
اسی لیے میں کسی شب نہ سو سکا محسنؔ
وہ ماہتاب کبھی بام پر بھی آتا ہے
محسن نقوی