Urdu Deccan

Wednesday, May 12, 2021

صابر جوہری

 کس ہنر مندی سے قتل تیرگی کرتے ہیں لوگ 

میرا کاشانہ جلا کر روشنی کرتے ہیں لوگ


جانے کیسا شہر ہے یہ، موت کی آغوش میں 

رہ کے بھی ہر وقت جشن زندگی کرتے ہیں لوگ 


میں فصیل شب پہ روشن کرتا ہوں دل کا چراغ

گرچہ میرے راستے میں تیرگی کرتے ہیں لوگ


پا بجولاں قید رہتے ہیں حصار ذات میں

 کیوں بہ زعم علم انکار خودی کرتے ہیں لوگ


یا الہی گلستان زندگی کی خیر ہو

جو نہیں کرنا ہے اب اکثر وہی کرتے ہیں لوگ  


دوستی کا گر گیا معیار کتنا آج کل

صرف مقصد کے لئے اب دوستی کرتے ہیں لوگ


مجھکو کیا معلوم لفظوں کے برتنے کا ہنر

مجھ سے بہتر شہر فن میں شاعری کرتے ہیں لوگ


زندگی کے ہاتھ سے مجبور ہو کر آج کل   

خود کشی ہر وقت صابر جوہری کرتے ہیں لوگ


صابر جوہری


اثر کولوی

 نہ دن کو چین پڑتا ہے نہ شب کو نیند آتی ہے

وہ خوشبو کی طرح میرے مشامِ جاں پہ چھائی ہے


کہ تا حدِ نظر چاروں طرف اک دھند چھائی ہے

بہار ِ شوق میں بھی گلستاں پر قہر طاری ہے


مرے چہرے پہ یونہی تو نہیں آئی یہ تابانی

حقیقت میں مجھے تیری محبت راس آئی ہے


وہ میرے سامنے ہو کر بھی کوسوں دور لگتا ہے

یہ کیسی آزمائش ہے یہ کیسی نارسائی ہے


ڈھلے گا آج کا یہ دن نہ جانے کس طرح میرا

سحر ہونے سے پہلے پھر کسی کی یاد آئی ہے


جو کل تک ہمنوا تھے بن گئے ہیں آج وہ دشمن

یہ کیسا دوستانہ ہے یہ کیسی ہمنوائی ہے


جو خود کرتا ہے اوروں کے لیے وہ کام رد کیوں ہے

خدا کا خوف کر واعظ یہ کیسی پارسائی ہے

 

اثر اس سنگِ دل کو فکر کیا اپنے اسیروں کی 

اِدھر ہم خوں میں ڈوبے ہیں اُدھر وہ گل کھلاتی ہے


اثر کولوی


حاشر افنان

 جس کے بھی دل میں ہو گی محبت رسول کی 

مل جائے گی اسے بھی شفاعت رسول کی 


جس دن سے پڑھ رہا ہوں میں سیرت رسول کی 

بڑھنے لگی ہے دل میں محبت رسول کی  


مجھکو ہے زندگی میں تمنا فقط یہی 

ہو جائے ایک روز زیارت رسول کی


جس چیز کو چھوا وہی انمول ہو گئی

کیسے بتاؤں میں تمہیں عظمت رسول کی 


ہوگا نہ مبتلا وہ کسی درد میں کبھی

جس جس کے حال پر ہو عنایت رسول کی 


ہیں سنتِ رسول میں فوز و فلاح دوست

ہر موڑ پر پڑے گی ضرورت رسول کی 


جب تک رہے گی جان ترے اس غلام میں 

کرتا رہوں گا میں بیاں مدحت رسول کی


حاشر افنان


ابراہیم ہوش

 یوم پیدائش 06 مئی 1918


میں وہ نہیں کہ زمانے سے بے عمل جاؤں

مزاج پوچھ کے دار و رسن کا ٹل جاؤں


وہ اور ہوں گے جو ہیں آج قید بے سمتی

وہی ہے سمت میں جس سمت کو نکل جاؤں


فریب کھا کے جنوں عقل کے کھلونوں سے

خدا وہ وقت نہ لائے کہ میں بہل جاؤں


مرا وجود ہے مومی کہیں نہ ہو ایسا

کسی کی یاد کی گرمی سے میں پگھل جاؤں


جو چاہتا ہے کہ پستی میں گرتے گرتے بچوں

نظر کا اپنی عصا دے کہ میں سنبھل جاؤں


ابراہیم ہوش


ریاض احمد قاری

 یوم پیدائش 06 مئی 1965


سب انبیا ء سے ماسوا ان ﷺ کا مقام ہے

پیغام انﷺ کاجگ میں رواں صبح و شام ہے


پلوائیں گے وہ اپنے غلاموں کو روزِ حشر

" پیارے نبیﷺ کے ہاتھ میں کوثر کا جام ہے "


شاہوں کو بھی وہ دیتا ہے تاج اور تخت ہی

رتبے میں کیا بلند نبیﷺ کا غلام ہے


رحمت خدا کی آتی ہے بن بن کے اک گھٹا

جب سے نبیﷺ کے شہر میں اپنا قیام ہے


جو ان ﷺ کو مانتا ہے وہی جنتی ہوا

مومن پہ ہی تو آتشِ دوزخ حرام ہے


اے ریاضؔ ان کے بعد نبی کوئی بھی نہیں

وہ آخری نبی ﷺ ہیں انہی کو دوام ہے


ریاض احمد قادری


اشرف نقوی

 یوم پیدائش 06 مئی 1972


فلک سے جب بھی کسی نے ہمیں اِشارہ کیا 

سو اپنے ہونے, نہ ہونے کا استخارہ کیا 


کیا جو بند کسی نے بھی دل کا دروازہ 

پھر اُس طرف کا کبھی رُخ نہیں دوبارہ کیا 


مکین کوئی نہیں رہتے جن مکانوں میں 

نہ جانے کس لیے ہم نے اُنھیں سنوارا کیا 


میں وہ تھا جس نے تِری شب اُجالنے کے لیے 

جبیں کو چاند کیا, اشک کو ستارہ کیا 


مِرے نواح و مضافات میں ہے حبس اشرف 

سو میں نے لُو کو ہواؤں کا استعارہ کیا  


اشرف نقوی


ماہر اجمیری

 یوم پیدائش 05 مئی 1942


ہے کہیں زر کی کہیں گھر کی کہیں سر کی تلاش

آدمی کے ساتھ ہے بس زندگی بھر کی تلاش


کس طرح ممکن ہے ان حالات میں اپنا ملن

میں سراپا خار ہوں تم کو گلِ تر کی تلاش


سوچتا رہتا ہوں ان دیدہ وروں کو کیا ہوا

پتھروں کے شہر میں ہے آئینہ گر کی تلاش


جس کے لفظوں میں صداؤں میں ہو پیغامِ سحر

ظلمتِ شب کو ہے اب ایسے سخن ور کی تلاش


جس میں اخلاص و وفا کے چاہتوں کے رنگ ہوں

چشم ماہر کو رہی ہے ایسے منظر کی تلاش


ماہر اجمیری


محشر فیض آبادی

 مزاحیہ 

ابھی کھانسی ابھی نزلے کے کچھ آثار رہنے دے 

دواؤں سے ابھی مجھ کو ذرا دو چار رہنے دے 

پڑوسن روز آتی ہے طبیعت پوچھنے میری 

الہی اور کچھ دن تو مجھے بیمار رہنے دے


محشر فیض آبادی


محمد حسین آزاد

 یوم پیدائش 05 مئی 1830

نظم محنت کرو


ہے امتحاں سر پر کھڑا محنت کرو محنت کرو 

باندھو کمر بیٹھے ہو کیا محنت کرو محنت کرو 

بے شک پڑھائی ہے سوا اور وقت ہے تھوڑا رہا 

ہے ایسی مشکل بات کیا محنت کرو محنت کرو 

شکوے شکایت جو کہ تھے تم نے کہے ہم نے سنے 

جو کچھ ہوا اچھا ہوا محنت کرو محنت کرو 

محنت کرو انعام لو انعام پر اکرام لو 

جو چاہو گے مل جائے گا محنت کرو محنت کرو 

جو بیٹھ جائیں ہار کر کہہ دو انہیں للکار کر 

ہمت کا کوڑا مار کر محنت کرو محنت کرو 

تدبیریں ساری کر چکے باتوں کے دریا بہہ چکے 

بک بک سے اب کیا فائدہ محنت کرو محنت کرو 

یہ بیج اگر ڈالوگے تم دل سے اسے پا لو گے تم 

دیکھو گے پھر اس کا مزا محنت کرو محنت کرو 

محنت جو کی جی توڑ کر ہر شوق سے منہ موڑ کر 

کر دو گے دم میں فیصلہ محنت کرو محنت کرو 

کھیتی ہو یا سوداگری ہو بھیک ہو یا چاکری 

سب کا سبق یکساں سنا محنت کرو محنت کرو 

جس دن بڑے تم ہو گئے دنیا کے دھندوں میں پھنسے 

پڑھنے کی پھر فرصت کجا محنت کرو محنت کرو 

بچپن رہا کس کا بھلا انجام کو سوچو ذرا 

یہ تو کہو کھاؤ گے کیا محنت کرو محنت کرو 


محمد حسین آزاد


امداد امام اثر

 یوم پیدائش 05 مئی 1849


جفائیں ہوتی ہیں گھٹتا ہے دم ایسا بھی ہوتا ہے

مگر ہم پر جو ہے تیرا ستم ایسا بھی ہوتا ہے


عدو کے آتے ہی رونق سدھاری تیری محفل کی

معاذ اللہ انساں کا قدم ایسا بھی ہوتا ہے


رکاوٹ ہے خلش ہے چھیڑ ہے ایذا پہ ایذا ہے

ستم اہل وفا پر دم بدم ایسا بھی ہوتا ہے


حسینوں کی جفائیں بھی تلون سے نہیں خالی

ستم کے بعد کرتے ہیں کرم ایسا بھی ہوتا ہے


دل مہجور آخر انتہا ہے ہر نحوست کی

کبھی سعدین ہوتے ہیں بہم ایسا بھی ہوتا ہے


نہ کر شکوہ ہماری بے سبب کی بد گمانی کا

محبت میں ترے سر کی قسم ایسا بھی ہوتا ہے


نہ ہو درد جدائی سے جو واقف اس کو کیا کہیے

ہمیں وہ دیکھ کر کہتے ہیں غم ایسا بھی ہوتا ہے


بتوں کے ملنے جلنے پر نہ جانا اے دل ناداں

بڑھا کر ربط کر دیتے ہیں کم ایسا بھی ہوتا ہے


ہمیں بزم عدو میں وہ بلاتے ہیں تمنا سے

کرم ایسا بھی ہوتا ہے ستم ایسا بھی ہوتا ہے


جگہ دی مجھ کو کعبے میں خدائے پاک نے زاہد

تو کہتا تھا کہ مقبول حرم ایسا بھی ہوتا ہے


ہوا کرتا ہے سب کچھ اے اثرؔ اس کی خدائی میں

کریں دعویٰ خدائی کا صنم ایسا بھی ہوتا ہے


امداد امام اثرؔ


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...