Urdu Deccan

Wednesday, May 12, 2021

جلیل عالی

 یوم پیدائش 12 مئی 1945


ہدف رکھے ہوئے ہے ایک ہی ہر وار پیچھے

پڑا ہے رات دن کوئی مرے پندار پیچھے


سمے نے چھین لی ہے سوچ بینائی مگر دل 

برابر دیکھ لیتا ہے ابھی دیوار پیچھے


کہانی اوج امکانوں کی جانب بڑھ رہی تھی

کِیا کس کے کہے پر مرکزی کردار پیچھے


اور اب دستار دے کر سر بچائے جا رہے ہیں

کبھی کٹوا دیے جاتے تھے سر دستار پیچھے


ابھی تک سوچ اندھیاروں کی وحشت حکمراں ہے

کہا کس نے کہ انساں چھوڑ آیا غار پیچھے


چُنی ہے اپنی مرضی سے دلِ درویش نے جو

علم لہرا رہا ہے جِیت کا اُس ہار پیچھے


پسِ حرف و صدا عکسِ رجا یوں جھلملائیں

لِشکتی جھیل ہو جیسے گھنے اشجار پیچھے


سخن میں تو رہے وہ شہرِ خواب آباد عالی

قلم آگے نظر آئے جہاں تلوار پیچھے


جلیل عالی


عجیب ساجد

 نعت رسؐول مقبولؐ


مانگی ہے میں نے رب سے دعا نعت کے لیئے

لفظوں کو پھر ملی ہے رِدا نعت کے لیئے


یہ تیرے ہاتھ پاوں یہ چلتا ہوا قلم 

رب نے جو کچھ تجھے وہ دیا نعت کے لیئے


جتنے بھی رنگ،و،روپ ہیں سب اِس جہان میں

بادل ،فضا، گھٹا، یہ ہوا نعت کے لیئے


الفاظ کی لڑی یوں اُترتی چلی گئی

مانگی ہے جب سے میں نے دعا نعت کے لیئے


میں توخطیبِ شہر نہ شُعلہ بیان تھا

آقؐا بُلا رہے ہیں ، کہ، آ نعت کےلیئے


 تجھ کو لکِھے پڑھے کا یہ جتنا شعور ہے 

رب نے سُخن کیا ہے عطا نعت کے لیئے


لکِھے نہیں قصیدے کسی بادشاہ کے

جب بھی اُٹھا قلم تو اُٹھا نعت کے لیئے


اب زندگی کی اُسکو سمجھ آ گئ عجیب

جتنے بھی دن جیا،وہ، جیا نعت کے لیئے


عجیب ساجد


محشر فیض آبادی

 کس طرح میں آپ سے ملتا مہ رمضان میں 

لاک ڈاون چل رہا تھا پورے ہندوستان میں 

کیا کہیں اس سال محشر عید کی خوشیوں کے ساتھ 

مسکراہٹ سو گئی لوگوں کی قبرستان میں 


محشر فیض آبادی


شارق خلیل آبادی

 نظم ( پگلی اردو)


ابر خاماش تھا مغموم گھٹا بھی چپ تھی

چاند پھیکا تھا ستاروں کی ضیا بھی چب تھی

اشک آنکھوں میں لئے آج ہوا بھی چپ تھی

یعنی ماحول تھا چپ چاپ فضا بھی چپ تھی


ہاں مگر دور بہت دور کہیں کونے سے

ہلکی ہلکی سی کبھی روشنی آجاتی تھی

چند لمحوں کے لئے چیر کے سناٹے کو

چینخ اک شخص کی ماحول سے ٹکراتی تھی


میں بھی تھا وقت کا دربان وہاں جا پہنچا

کتنا غمناک سماں تھا وہ جو میں نے دیکھا

جسم اک بڑھیا کا اک کھاٹ پہ تھا رکھا ہوا

پاس ہی بیٹھی ہوئی بیٹیوں سے اس نے کہا


بیٹیوں تم کو مری عزت و عظمت کی قسم

بیٹیوں تم کو مرے پیا ر و محبت کی قسم

تم ہو جڑوا کبھی تم دونوں الگ مت ہونا

خون کے رشتے میں پنہاں مری شفقت کی قسم


تھی یہیں بات کہ اک موت کی ہچکی آئی

شمع اخلاص نے اک بارگی دم توڑ دیا

لڑکھڑاتے ہوئے قدموں سے شرابی کی طرح

شب کے ماحول نے اک ساغر جم توڑ دیا


چند لمحات سکوں کے نہ گزر پائے تھے

انقلابات زمانہ کا وہ طوفان اٹھا

جس نے دو پھول سی جانوں کو جدائی دے کر

ایک کو قصر میں اور اک کو قفس میں رکھا


ایک زندہ ہے تو اس دور میں شاہوں کے لئے

دوسری مفلس و نادار و گداؤں کے لئے

اک کی بہبودی پہ ہر دل کی نظر رہتی ہے

ایک مجبور ہے خود اپنی پناہوں کے لئے


ایسا کیوں کر ہے یہی سوچ کے اک دن من میں

جو مقید تھی وہ زنداں سے نکل آتی ہے

ہاتھ میں ہتھکڑی اور پاؤں میں پہنے بیڑی

نئے حالات سے ماحول کےگھبراتی ہے


شب کی تنہائی ہو یا دن کا کوئی ہنگامہ

حال دل سب سے نہیں خود سے کہا کرتی ہے

چینخ اٹھتی ہے کبھی سوچ کے ماضی اپنا

اور پھر زور سے پردرد صدا کرتی ہے


مخملی کپڑوں میں لپٹے ہوئے دولت والوں

اک نظر جسم غریباں پہ اٹھا کر دیکھو

تم نے جس چیز کو سمجھا ہے صفر کی مانند

اس کے اک زرے کو بھی ہاتھ لگا کر دیکھو


لوگ ہر سمت سے برساتے ہیں پتھر اس پر

آبرو اس کی سر عام لٹی جاتی ہے

جس طرف چلتی ہے ننگی وہ کھلی سڑکوں پر

نام سے پگلی کے منسوب ہوئی جاتی ہے


ہیں حقیقت میں یہی دونوں حقیقی بہنیں

ایک ہے" ہندی زباں" دوسری "پگلی اردو"

گردش وقت نے کچھ ایسا چلایا جادو

رہ گئے ہو کے جدا جسم کے دو بوند لہو


شارق خلیل آبادی


خالد وارثی

 یوم پیدائش 11 مئی 


پاس اُس کے آگر جگر ہوتا

چاہتوں کا مری اثر ہوتا


حُسن میں گر انا نہیں ہوتی

عشق رُسوا نہ در بدر ہوتا


آج ہوتا بہت بلندی پر

جھوٹ کہنے کا گر ہنر ہوتا


ہم محبت قبول کر لیتے

تیری رسوائی کا نہ ڈر ہوتا


تم تغافل اگر نہیں کرتے

تُم سے اچھا نہ ہم سفر ہوتا


مجھکو منزل ضرور مل جاتی

راہ بر تو مرا اگر ہوتا


دِل وہ پتھر کی مثل تھا "خالد"

کچھ بھی کہنے کا کیا اثر ہوتا


خالد وارثی


جاوید عارف

 دعا

ہے محبوب رب کو ادا مغفرت کی 

قرینے سے مانگو دعا مغفرت کی 


گناہوں میں ڈوبے الہی بہت ہیں 

کرم کی نگہ ہو عطا مغفرت کی 


سیاہ دل ہوا ہے گناہوں سے یارب 

عطا ہو ذرا اب دوا مغفرت کی


مدینے کی پر نور گلیوں میں مرنا

مقدر میں لکھ دے فضا مغفرت کی


کبھی ہاتھ خالی پلٹ کے نہ آیا

ترے در پہ جو دے صدا مغفرت کی

 

 کوئی آس عارف کو باقی نہیں ہے 

الہی تمہارے سوا مغفرت کی 


  جاوید عارف


منظور ثاقب

 یوم پیدائش 10 مئی 1945


قدم قدم ہے نیا امتحان میرے ساتھ

جو چل سکو تو چلو میری جان میرے ساتھ


بلندیوں پہ اکھڑنے لگے نہ سانس کہیں

سمجھ کے سوچ کے بھرنا اڑان میرے ساتھ


مجھے یقیں ہے مجھے فتح یاب ہونا ہے

زمیں تری ہے تو ہے آسمان میرے ساتھ


یہ کوفیوں کی روش تو مجھے قبول نہیں

کہ دل ہے ساتھ کسی کے زبان میرے ساتھ 


منظور ثاقب


نیاز احمد عاطر

 یوم پیدائش 10 مئی 1984


متاع غم سنبھال کر ترا فراق پال کر

میں مر گیا ہوں اپنی ذات سے تجھے نکال کر


چراغ زسیت بجھ گیا ترا فقیر لٹ گیا

میں خالی ہاتھ رہ گیا ہوں میرا کچھ خیال کر


الم کشوں سے دوستی ہے مے کدوں سے بیرہے

کسے ملوں کسے کہوں مرے لٸے ملال کر


اسی پہ میں الجھ گیا اسی پہ میں بھٹک گیا

جو پل کٹے ہیں ہجر میں شمار ماہ وسال کر


مرا جنون بڑھ گیا مرا سکون لٹ گیا

میں بد حواس ہو گیا ہوں شمع کو اجال کر


نیازاحمد عاطر


ذکی طارق

 یوم پیدائش 10 مئی 1972


شاباش،تمہیں حسن سراپا بھی ملا ہے

اور پیار میں مر مٹنے کا جذبہ بھی ملا ہے


صد مرحبا وہ ہے مرا محبوب کہ جس کو

مخمل سا بدن چاند سا چہرہ بھی ملا ہے


جب جوش میں دریائے کرم اس کا ہے آیا

ویسے بھی ملا بخت کا لکھّا بھی ملا ہے


یہ لطف بھی مجھ پر مرے اللہ کا دیکھو

دنیا بھی ملی ہے غمِ دنیا بھی ملا ہے


اے یار تری یاری پہ قرباں ہے مری جاں

دکھ میں ہی مجھے کیف سکوں کا بھی ملا ہے


صد آفریں اے عشق تری راہگزر میں

گلشن بھی ملے ہیں مجھے صحرا بھی ملا ہے


اک کیفیتِ عشق اگر ہو تو بتائیں

غم اس میں ملا،خوشیاں بھی،نشہ بھی ملا ہے


وہ،جس کو زمانہ ہوئے میں چھوڑ چکا ہوں

اس کے ہی لئے دل یہ دھڑکتا بھی ملا ہے


 ذکی طارق


حامد اقبال صدیقی

 یوم پیدائش 10 مئی 1958


ذرا سی بات ہو کیا کیا سوال کرتا ہے

مرا ہنر مجھے اکثر نڈھال کرتا ہے


وہ چاٹ لیتا ہے دیمک کی طرح مستقبل

تمہیں پتہ نہیں ماضی جو حال کرتا ہے


مرے وجود کو صدیوں کا سلسلہ دے کر

وہ کون ہے جو مجھے لا زوال کرتا ہے


بڑے قریب سے ہو کر گزر گئی دنیا

ملا نہ اس سے مرا دل کمال کرتا ہے


میں چاہتا ہوں مراسم بس ایک سمت چلیں

مگر وہ خود ہی جنوب و شمال کرتا ہے


دعا کا در تو سبھی کے لئے کھلا ہے مگر

جسے یقین ہو اس پر سوال کرتا ہے


حامد اقبال صدیقی


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...