Urdu Deccan

Thursday, May 13, 2021

انس مسرورانصاری

 شہر کی بھیڑ میں خود کو کبھی تنہا کرنا

اپنے ہونے کا نہ ہونےکا تماشا کرنا


میں بھی دیکھوں تری آنکھوں کی فسوں اندازی

اک ذرا میری طرف بھی رخ زیبا کرنا


کشتیء عمررواں حلقہء گرداب میں ہے

حوصلہ پھر بھی ہےموجوں کو کنارا کرنا


یہ اجالے تو سبب ہیں مری رسوائی کا

روشنی آنکھ میں چبھتی ہے، اندھرا کرنا


میرے خوابوں کو سلیقے سے ہنر آتا ہے

رنگ تصویر کا تصویر سے گہرا کرنا


فرصت یک نفس جاں بھی نہیں ہے مسرور

پھربھی آتا ہے ہمیں قطرے کو دریا کرنا


انس مسرورانصاری


Wednesday, May 12, 2021

شہباز انصاری

 یوم پیدائش 13 مئی 1961


نیند اب آتی ہے کیوں تاخیر سے

خُواب خالی رہ گیا تعبیر سے


رہزنوں نے رہبروں کےبھیس میں

پُوچھیئے مت کیا کِیا شمشیر سے


خُود بناتے ہو مِٹاتے ہوکبھی

کھیلتے ہو کیوں مِری تقدیر سے


گُمشدہ لوگوں کے وُرثاء کی فُغاں

رُک نہیں سکتی کِسی تعزیر سے


فیصلوں میں کچھ سُقم تو ہے کہیں

ڈر گیا قاضی مِری تحریر سے


آج بھی ہر شہر کا ہر اِک یزید

کانپتاہے نعرہِؑ تکبیر سے


باندھ سکتا ہے مسافر کِس طرح

اپنے پاوؑں وقت کی زنجیر سے


جب بھی دیکھوں میں تیری تصویر کو

جھانکتے رہتے ہو تم تصویر سے


کیا ہوا شہباز اب کیوں گھر کی راہ

پُوچھتے پِھرتے ہو ہر رہگیر سے


شہباز انصاری


خواجہ عزیز الحسن مجذوب

 جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے

یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے


جہاں میں ہیں عبرت کے ہر سُو نمونے

مگر تجھ کو اندھا کیا رنگ و بُو نے

کبھی غور سے بھی دیکھا ہے تو نے

جو معمور تھے وہ محل اب ہیں سُونے


جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے

یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے


ملے خاک میں اہلِ شاں کیسے کیسے

مکیں ہو گٔیٔے لا مکاں کیسے کیسے

ھؤے ناموَر بے نشاں کیسے کیسے

زمیں کھا گٔیٔ آسماں کیسے کیسے


جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے

یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے


اجل نے نہ کسریٰ ہی چھوڑا نہ دارا

اسی سے سکندرسا فاتح بھی ہارا

ہر ایک چھوڑ کے کیاکیا حسرت سدھارا

پڑا رہ گیا سب یہیں ٹھاٹ سارا


جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے

یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے


تجھے پہلے بچپن میں برسوں کھلایا

جوانی نے پھر تجھ کو مجنوں بنایا

بڑھاپے نے پھر آ کے کیا کیا ستایا

اجل تیرا کر دے گی بالکل صفایا


جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے

یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے


یہی تجھ کو دھُن ہے رہُوں سب سے بالا

ہو زینت نرالی ہو فیشن نرالا

جیا کرتا ہے کیا یونہی مرنے والا؟

تجھے حسنِ ظاہر نے دھوکے میں ڈالا


کؤی تیری غفلت کی ہے انتہا بھی؟

جنون چھوڑ کر اب ہوش میں آ بھی

جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے

یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے​


خواجہ عزیز الحسن مجذوب


نور الدین نور غوری

 یوم پیدائش 12 مئی 1954


اس طرح مصروف گر دست قضا رہ جائے گا

دیکھنا اک دن زمیں پر بس خدا رہ جائے گا


قید خانے میں بدلتی جا رہی ہے یہ زمیں

کیا یوں ہی یہ آسماں بس دیکھتا رہ جائے گا


خوف کی آندھی بجھا دے گی امیدوں کے دیئے

سوچتا ہوں قصر دل میں اور کیا رہ جائے گا


میرے اپنے ہی کریں گے یوں اگر طعنہ زنی

عمر بھر ہر زخم دل یوں ہی ہرا رہ جائے گا


خواب بن جائیں گی ساری محفلیں سب رونقیں

صرف کورونا کا ہر سو نقش پا رہ جائے گا


خاک میں مل جائے گی جب حوصلوں کی کہکشاں

بے بسی کا ٹمٹماتا بس دیا رہ جائے گا


نور ایسے موڑ پر لے آئی ہے اب زندگی

ہر کوئی اس موڑ پر تنہا کھڑا رہ جائے گا


نور الدین نور غوری


جلیل عالی

 یوم پیدائش 12 مئی 1945


ہدف رکھے ہوئے ہے ایک ہی ہر وار پیچھے

پڑا ہے رات دن کوئی مرے پندار پیچھے


سمے نے چھین لی ہے سوچ بینائی مگر دل 

برابر دیکھ لیتا ہے ابھی دیوار پیچھے


کہانی اوج امکانوں کی جانب بڑھ رہی تھی

کِیا کس کے کہے پر مرکزی کردار پیچھے


اور اب دستار دے کر سر بچائے جا رہے ہیں

کبھی کٹوا دیے جاتے تھے سر دستار پیچھے


ابھی تک سوچ اندھیاروں کی وحشت حکمراں ہے

کہا کس نے کہ انساں چھوڑ آیا غار پیچھے


چُنی ہے اپنی مرضی سے دلِ درویش نے جو

علم لہرا رہا ہے جِیت کا اُس ہار پیچھے


پسِ حرف و صدا عکسِ رجا یوں جھلملائیں

لِشکتی جھیل ہو جیسے گھنے اشجار پیچھے


سخن میں تو رہے وہ شہرِ خواب آباد عالی

قلم آگے نظر آئے جہاں تلوار پیچھے


جلیل عالی


عجیب ساجد

 نعت رسؐول مقبولؐ


مانگی ہے میں نے رب سے دعا نعت کے لیئے

لفظوں کو پھر ملی ہے رِدا نعت کے لیئے


یہ تیرے ہاتھ پاوں یہ چلتا ہوا قلم 

رب نے جو کچھ تجھے وہ دیا نعت کے لیئے


جتنے بھی رنگ،و،روپ ہیں سب اِس جہان میں

بادل ،فضا، گھٹا، یہ ہوا نعت کے لیئے


الفاظ کی لڑی یوں اُترتی چلی گئی

مانگی ہے جب سے میں نے دعا نعت کے لیئے


میں توخطیبِ شہر نہ شُعلہ بیان تھا

آقؐا بُلا رہے ہیں ، کہ، آ نعت کےلیئے


 تجھ کو لکِھے پڑھے کا یہ جتنا شعور ہے 

رب نے سُخن کیا ہے عطا نعت کے لیئے


لکِھے نہیں قصیدے کسی بادشاہ کے

جب بھی اُٹھا قلم تو اُٹھا نعت کے لیئے


اب زندگی کی اُسکو سمجھ آ گئ عجیب

جتنے بھی دن جیا،وہ، جیا نعت کے لیئے


عجیب ساجد


محشر فیض آبادی

 کس طرح میں آپ سے ملتا مہ رمضان میں 

لاک ڈاون چل رہا تھا پورے ہندوستان میں 

کیا کہیں اس سال محشر عید کی خوشیوں کے ساتھ 

مسکراہٹ سو گئی لوگوں کی قبرستان میں 


محشر فیض آبادی


شارق خلیل آبادی

 نظم ( پگلی اردو)


ابر خاماش تھا مغموم گھٹا بھی چپ تھی

چاند پھیکا تھا ستاروں کی ضیا بھی چب تھی

اشک آنکھوں میں لئے آج ہوا بھی چپ تھی

یعنی ماحول تھا چپ چاپ فضا بھی چپ تھی


ہاں مگر دور بہت دور کہیں کونے سے

ہلکی ہلکی سی کبھی روشنی آجاتی تھی

چند لمحوں کے لئے چیر کے سناٹے کو

چینخ اک شخص کی ماحول سے ٹکراتی تھی


میں بھی تھا وقت کا دربان وہاں جا پہنچا

کتنا غمناک سماں تھا وہ جو میں نے دیکھا

جسم اک بڑھیا کا اک کھاٹ پہ تھا رکھا ہوا

پاس ہی بیٹھی ہوئی بیٹیوں سے اس نے کہا


بیٹیوں تم کو مری عزت و عظمت کی قسم

بیٹیوں تم کو مرے پیا ر و محبت کی قسم

تم ہو جڑوا کبھی تم دونوں الگ مت ہونا

خون کے رشتے میں پنہاں مری شفقت کی قسم


تھی یہیں بات کہ اک موت کی ہچکی آئی

شمع اخلاص نے اک بارگی دم توڑ دیا

لڑکھڑاتے ہوئے قدموں سے شرابی کی طرح

شب کے ماحول نے اک ساغر جم توڑ دیا


چند لمحات سکوں کے نہ گزر پائے تھے

انقلابات زمانہ کا وہ طوفان اٹھا

جس نے دو پھول سی جانوں کو جدائی دے کر

ایک کو قصر میں اور اک کو قفس میں رکھا


ایک زندہ ہے تو اس دور میں شاہوں کے لئے

دوسری مفلس و نادار و گداؤں کے لئے

اک کی بہبودی پہ ہر دل کی نظر رہتی ہے

ایک مجبور ہے خود اپنی پناہوں کے لئے


ایسا کیوں کر ہے یہی سوچ کے اک دن من میں

جو مقید تھی وہ زنداں سے نکل آتی ہے

ہاتھ میں ہتھکڑی اور پاؤں میں پہنے بیڑی

نئے حالات سے ماحول کےگھبراتی ہے


شب کی تنہائی ہو یا دن کا کوئی ہنگامہ

حال دل سب سے نہیں خود سے کہا کرتی ہے

چینخ اٹھتی ہے کبھی سوچ کے ماضی اپنا

اور پھر زور سے پردرد صدا کرتی ہے


مخملی کپڑوں میں لپٹے ہوئے دولت والوں

اک نظر جسم غریباں پہ اٹھا کر دیکھو

تم نے جس چیز کو سمجھا ہے صفر کی مانند

اس کے اک زرے کو بھی ہاتھ لگا کر دیکھو


لوگ ہر سمت سے برساتے ہیں پتھر اس پر

آبرو اس کی سر عام لٹی جاتی ہے

جس طرف چلتی ہے ننگی وہ کھلی سڑکوں پر

نام سے پگلی کے منسوب ہوئی جاتی ہے


ہیں حقیقت میں یہی دونوں حقیقی بہنیں

ایک ہے" ہندی زباں" دوسری "پگلی اردو"

گردش وقت نے کچھ ایسا چلایا جادو

رہ گئے ہو کے جدا جسم کے دو بوند لہو


شارق خلیل آبادی


خالد وارثی

 یوم پیدائش 11 مئی 


پاس اُس کے آگر جگر ہوتا

چاہتوں کا مری اثر ہوتا


حُسن میں گر انا نہیں ہوتی

عشق رُسوا نہ در بدر ہوتا


آج ہوتا بہت بلندی پر

جھوٹ کہنے کا گر ہنر ہوتا


ہم محبت قبول کر لیتے

تیری رسوائی کا نہ ڈر ہوتا


تم تغافل اگر نہیں کرتے

تُم سے اچھا نہ ہم سفر ہوتا


مجھکو منزل ضرور مل جاتی

راہ بر تو مرا اگر ہوتا


دِل وہ پتھر کی مثل تھا "خالد"

کچھ بھی کہنے کا کیا اثر ہوتا


خالد وارثی


جاوید عارف

 دعا

ہے محبوب رب کو ادا مغفرت کی 

قرینے سے مانگو دعا مغفرت کی 


گناہوں میں ڈوبے الہی بہت ہیں 

کرم کی نگہ ہو عطا مغفرت کی 


سیاہ دل ہوا ہے گناہوں سے یارب 

عطا ہو ذرا اب دوا مغفرت کی


مدینے کی پر نور گلیوں میں مرنا

مقدر میں لکھ دے فضا مغفرت کی


کبھی ہاتھ خالی پلٹ کے نہ آیا

ترے در پہ جو دے صدا مغفرت کی

 

 کوئی آس عارف کو باقی نہیں ہے 

الہی تمہارے سوا مغفرت کی 


  جاوید عارف


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...