Urdu Deccan

Tuesday, June 1, 2021

شہزاد نیر

یوم پیدائش 29 مئی 1973


ہر ایک گام پہ صدیاں نثار کرتے ہوئے

میں چل رہا تھا زمانے شمار کرتے ہوئے


یہی کھلا کہ مسافر نے خود کو پار کیا

تری تلاش کے صحرا کو پار کرتے ہوئے


میں رشک ریشۂ گل تھا بدل کے سنگ ہوا

بدن کو تیرے بدن کا حصار کرتے ہوئے


مجھے ضرور کنارے پکارتے ہوں گے

مگر میں سن نہیں پایا پکار کرتے ہوئے


میں اضطراب زمانہ سے بچ نکلتا ہوں

تمہارے قول کو دل کا قرار کرتے ہوئے


جہان خواب کی منزل کبھی نہیں آئی

زمانے چلتے رہے انتظار کرتے ہوئے


میں راہ سود و زیاں سے گزرتا جاتا ہوں

کبھی گریز کبھی اختیار کرتے ہوئے


نہیں گرا مری قاتل انا کا تاج محل

میں مر گیا ہوں خود اپنے پہ وار کرتے ہوئے


میں اور نیم دلی سے وفا کی راہ چلوں

میں اپنی جاں سے گزرتا ہوں پیار کرتے ہوئے


یقین چھوڑ کے نیر گماں پکڑتا رہا

نگاہ یار ترا اعتبار کرتے ہوئے


شہزاد نیر


ناصر معین

 یوم پیدائش 29 مئی 1961


حشر ایسا ہوا نہیں ہوتا

ایک ہوتے تو کیا نہیں ہوتا


مل کے رہتے تو زندگی رہتی 

پست پھر حوصلہ نہیں ہوتا


جھوٹ رسوائیاں ہی دیتا ہے

شرم سے سر جھکا نہیں ہوتا


ہم جو ماں کی دعائیں لے لیتے

آ ج دامن میں کیا نہیں ہوتا


موت پر ماں کی کتنا روئے تھے

حد ہے ! اب تذکرہ نہیں ہوتا


آج انسانیت ہے شرمندہ

خون بھی خون کا نہیں ہوتا


میں بھی دیتا دغا نہیں تجھکو

کاش ! تو بے وفا نہیں ہوتا


تو نے جاناں مجھے نہیں جانا

ورنہ ہر گز خفا نہیں ہوتا


آپ میں ، ہم میں ہی کمی کچھ ہے

  یوں زمانہ برا نہیں ہوتا

 

وقت کب کس کا ساتھ دیتا ہے ؟

 بادشہ یوں گدا نہیں ہوتا 


ایسے حالات آہی جاتے ہیں

ہر بشر بے وفا نہیں ہوتا


اس کو لذت ملی محبت کی

عشق میں سر جھکا نہیں ہوتا


اعلیٰ کردار اپنا ہوتا جو

انہیں قدموں میں کیا نہیں ہوتا


قرب تقوے سے پاؤ گے ناصر

پاس سب کے خدا نہیں ہوتا 


ناصرمعین


فاروق روکھڑی

 یوم پیدائش 29 مئی 1929


دل کے معاملات سے انجان تو نہ تھا

اس گھر کا فرد تھا کوئی مہمان تو نہ تھا


تھیں جن کے دَم سے رونقیں شہروں میں جا بسے

ورنہ ہمارا گاؤں یوں ویران تو نہ تھا


بانہوں میں جب لیا اسے نادان تھا ضرور

جب چھوڑ کر گیا مجھے نادان تو نہ تھا


کٹ تو گیا ہے کیسے کٹا یہ نہ پوچِھیے

یارو! سفر حیات کا آسان تو نہ تھا


نیلام گھر بنایا نہیں اپنی ذات کو

کمزور اس قدر میرا ایمان تو نہ تھا


رسماً ہی آ کے پوچھتا فاروقؔ حالِ دل

کچھ اس میں اس کی ذات کا نقصان تو نہ تھا


فاروق روکھڑی


میر تقی میر

 یوم پیدائش 28 مئی 1723


جس سر کو غرور آج ہے یاں تاجوری کا 

کل اس پہ یہیں شور ہے پھر نوحہ گری کا 


شرمندہ ترے رخ سے ہے رخسار پری کا 

چلتا نہیں کچھ آگے ترے کبک دری کا 


آفاق کی منزل سے گیا کون سلامت 

اسباب لٹا راہ میں یاں ہر سفری کا 


زنداں میں بھی شورش نہ گئی اپنے جنوں کی 

اب سنگ مداوا ہے اس آشفتہ سری کا 


ہر زخم جگر داور محشر سے ہمارا 

انصاف طلب ہے تری بیداد گری کا 


اپنی تو جہاں آنکھ لڑی پھر وہیں دیکھو 

آئینے کو لپکا ہے پریشاں نظری کا 


صد موسم گل ہم کو تہ بال ہی گزرے 

مقدور نہ دیکھا کبھو بے بال و پری کا 


اس رنگ سے جھمکے ہے پلک پر کہ کہے تو 

ٹکڑا ہے مرا اشک عقیق جگری کا 


کل سیر کیا ہم نے سمندر کو بھی جا کر 

تھا دست نگر پنجۂ مژگاں کی تری کا 


لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام 

آفاق کی اس کارگہ شیشہ گری کا 


ٹک میرؔ جگر سوختہ کی جلد خبر لے

کیا یار بھروسا ہے چراغ سحری کا


میر تقی میر


ادیب سہارنپوری

 یوم پیدائش 28 مئی 1920


اک خلش کو حاصل عمر رواں رہنے دیا

جان کر ہم نے انہیں نامہرباں رہنے دیا


آرزوئے قرب بھی بخشی دلوں کو عشق نے

فاصلہ بھی میرے ان کے درمیاں رہنے دیا


کتنی دیواروں کے سائے ہاتھ پھیلاتے رہے

عشق نے لیکن ہمیں بے خانماں رہنے دیا


اپنے اپنے حوصلے اپنی طلب کی بات ہے

چن لیا ہم نے تمہیں سارا جہاں رہنے دیا


کون اس طرز جفاۓ آسماں کی داد دے

باغ سارا پھونک ڈالا آشیاں رہنے دیا


یہ بھی کیا جینے میں جینا ہے بغیر ان کے ادیبؔ

شمع گل کر دی گئی باقی دھواں رہنے دیا


ادیب سہارنپوری


نوید انجم

 یوم پیدائش 28 مئی 1987


زخم کو پھول بتاتے ہوئے مرجائیں گے

ہم ترے ناز اٹھاتے ہوئے مر جائیں گے


کل کوئی اور ہی دیکھے گا بہار گلشن

ہم تو بس پیڑ لگاتے ہوئے مر جائیں گے


آپ کا طنز یہ لہجہ نہ کبھی سدھرے گا

ہم دوا درد کی کھاتے ہوئے مر جائیں گے


تم تو آرام سے ہو چھوڑ کے اک چنگاری

ہم مگر آگ بجھاتے ہوئے مر جائیں گے


بے وفا ہو کے بھی جینا کوئی آسان نہیں

وہ نظر مجھ سے چراتے ہوئے مر جائیں گے


نوید انجم


افضال احمد سید

 یوم پیدائش 28 مئی 1946


گرا تو گر کے سر خاک ابتذال آیا

میں تیغ تیز تھا لیکن مجھے زوال آیا


عجب ہوا کہ ستارہ شناس سے مل کر

شکست انجم نوخیز کا خیال آیا


میں خاک سرد پہ سویا تو میرے پہلو میں

پھر ایک خواب شکست آئنہ مثال آیا


کمان شاخ سے گل کس ہدف کو جاتے ہیں

نشیب خاک میں جا کر مجھے خیال آیا


کوئی نہیں تھا مگر ساحل تمنا پر

ہوائے شام میں جب رنگ اندمال آیا


یہی ہے وصل دل کم معاملہ کے لیے

کہ آئنے میں وہ خورشید خد و خال آیا


افضال احمد سید


اسلم انصاری

 یوم پیدائش 27 مئی 1964


سارے عالم ایک دن زیر و زبر ہو جائیں گے

اور پھر نالے ہمارے بے اثر ہو جائیں گے


یوں ملے گی دل لگانے کی سزا سوچا نہ تھا

سب مرے احباب مجھ سے بے خبر ہو جائیں گے


کر لیا اقرار اس نے بھی محبت کا اگر

فاصلے سارے یہی پھر مختصر ہو جائیں گئے


میری مشکل میں خبر گیری کسی نے بھی نہ کی

کیا خبر تھی اجنبی دیوار و در ہو جائیں گے


یاد پھر اعجاز ہم کو کون رکھے گا بھلا

جیسی دنیا ہے اسی جیسے اگر جائیں گے


اعجاز قریشی


اعجاز قریشی

 یوم پیدائش 27 مئی 1964


سارے عالم ایک دن زیر و زبر ہو جائیں گے

اور پھر نالے ہمارے بے اثر ہو جائیں گے


یوں ملے گی دل لگانے کی سزا سوچا نہ تھا

سب مرے احباب مجھ سے بے خبر ہو جائیں گے


کر لیا اقرار اس نے بھی محبت کا اگر

فاصلے سارے یہی پھر مختصر ہو جائیں گئے


میری مشکل میں خبر گیری کسی نے بھی نہ کی

کیا خبر تھی اجنبی دیوار و در ہو جائیں گے


یاد پھر اعجاز ہم کو کون رکھے گا بھلا

جیسی دنیا ہے اسی جیسے اگر جائیں گے


اعجاز قریشی


یاسین انصاری

 یوم پیدائش 27 مئی 1977


نفرتیں ٹھیک نہیں ان کو مٹا کر دیکھو

دل کی دنیا کو محبت سے سجا کر دیکھو


ہم وفادار وطن ہیں کوئی غدار نہیں

پردہ آنکھوں سے تعصب کا ہٹا کر دیکھو


سن کے فرمائیش بچوں کی کہا باپ نے یہ

کس طرح چلتا ہے گھر گھر کو چلا کر دیکھو


خط میں تحریر اسے کرنا بہت مشکل ہے

جو مرا حال ہے تم آنکھوں سے آکر دیکھو


میرا دعویٰ ہے سکوں تم کو ملے گا یاسین

کسی بھوکے کو کبھی کھانا کھلا کر دیکھو


یاسین انصاری


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...