Urdu Deccan

Tuesday, June 1, 2021

عجیب ساجد

 بِن تیرے دل میں اب کوئی آباد تک نہیں 

میرے لبوں پہ بھی کوئی فریاد تک نہیں


پوچھا ہے آج مجھ سے کسی نےجو تیرا نام 

حیرت کی بات ہے کہ مجھے یاد تک نہیں


بنیاد ایک کفر کا فتوٰی ہمارا فن

اپنے تو پاس اور کوئی ایجاد تک نہیں 


اِعلان کر رہا ہے کوئی زور و شُور سے 

اب مر رہےہیں لوگ اور اِمداد تک نہیں 

 

تِیشہ لئے ہوئے ہیں یونہی پھر رہے ہیں لوگ

مجنوں ہزار ہیں کوئی فرہاد تک نہیں 


سن کر مری غزل تو کہا سب نے خوب ہے 

افسوس اس کا ہے کہ کوئی داد تک نہیں


کیا ظلم ہو رہا ہے یہ مت ہم سے پوچھیے

 ساجد اب اس نگر میں کو ئی شاد تک نہیں


عجیب ساجد


انور جمال

 کس قدر کرتا تھا میں اس سے محبت، مت پوچھ

وقتِ رخصت تو مرے درد کی شدت، مت پوچھ


یوں سمجھ جیسے کہ برسوں کی شناسائی تھی

اے مرے دوست! مرے عشق کی مدت، مت پوچھ


اُس کو کھونے کیلئے ایک ہی پل کافی تھا

اور پانے میں ہوئی جتنی مشقت، مت پوچھ


مسکراتے ہوئے ایام گزر جاتے تھے

کتنا خوش تھا میں فقط اُس کی بدولت، مت پوچھ


تیرے بن کیسے گزرتے ہیں مرے شام و سحر

اور مری کیسی ہے فی الحال طبیعت، مت پوچھ


بھول جانے دے مجھے ماضی کو اپنے، انور

میرے گزرے ہوئے لمحوں کی اذیت، مت پوچھ


انورجمال


مسرور نظامی

 احساس کے جنگل میں خوشبو کا مسافر ہوں 

غالب کی حویلی کاخوش رنگ میں طائر ہوں 

  

غزلوں میں ترا چرچہ کرتا ہوں سرِ محفل 

خود ہوتا ہوں میں رسوا مجبور ہوں شاعر ہوں 


درویش سکونت کے خانے میں کرے کیا درج 

درپیش رہی ہجرت ہر لمحہ مہاجر ہوں 


امید مری منزل آنسو ہیں مرے پانی 

اک درد کی روٹی ہے کوئے عشق کا زائر ہوں 


اس قلبِ حزیں کا بس اک جرم محبت ہے 

جو چاہو سزا دینا موجود ہوں حاضر ہوں 


آوار گی تنہائی بیگانگی رسوائی 

میں عشق ہوں حلیے سے عاشق کےہی ظاہر ہوں 


مسرور یہی میری پہچاں ہے زمانے میں 

پھولوں کی تجارت ہے خوشبو کا میں تاجر ہوں 


مسرور نظامی


راز علیمی

 تیرے ایوان کے ہر کونے سے ڈر لگتا ہے

ہم ہیں وہ لوگ جنہیں سونے سے ڈر لگتا ہے


جان رکھے ہیں محبت کے معانی ہم نے

پیار کا بیج مگر بونے سے ڈر لگتا ہے


اک ستم یہ کہ اسے پانے کی چاہت بھی نہیں

دوسرا یہ کہ اسے کھونے سے ڈر لگتا ہے


تحفۂِ داغِ جگر رو کے نہ کُھو جائے کہیں

سُو! حفاظت کے لیے رونے سے ڈر لگتا ہے


راز علیمیؔ


میر خوشحال فیضی

 آنکھ سے اوجھل کہساروں میں 

گم ہے ذہن یہ نظاروں میں 


شرم سے ہو گئے پانی پانی 

نام تھے جن کے غداروں میں 


اس کی چاہت کرکے ہم نے 

خود کو ڈالا انگاروں میں 


عزت اتنی سستی کہاں ہے 

ملتی نہیں یہ دستاروں میں 


بات کرو بس پیار کی لوگو

کچھ نہیں رکھا ہتھیاروں میں 


قتل ہوئے ہیں، غم نہیں لیکن 

للکارا ہے تلواروں میں 


اگلے پل کچھ بھی کر لیں گے 

خدشہ رہتا فنکاروں میں 


مجھ کو فیضی دُکھ ہوا سن کر 

نام ترا ہے غمخواروں میں


میر خوشحال فیضی


اشفاق احمد صائم

 کس قدر اضطراب آنکھوں پر

جم گئے کتنے خواب آنکھوں پر


درد تھوڑا سا کم ہوا صاحب

کس نے رکھے گلاب آنکھوں پر


اک محبت خرید لایا تھا

کتنے اترے عذاب آنکھوں پر


کون پڑھتا رہا تری آنکھیں

کس نے لکھے نصاب آنکھوں پر


کتنا دیکھا ہے کل اسے میں نے 

اب ہے واجب حساب آنکھوں پر


لفظ پلکوں کو چومنے آئے

رکھ کے سویا کتاب آنکھوں پر 


اب وہ کاجل لگا کے آئے ہیں 

شعر لکھیے جناب آنکھوں پر


اشفاق احمد صائم


غلام جیلانی قمر

 محبت میں سیاست کر رہا ہے

کوئی مجھ سے بغاوت کر رہا ہے


تری آنکھیں مجھے بتلا رہی ہیں

کسی سے تو محبت کر رہا ہے


وہ اجڑی سلطنت کا شاہزادہ

مرے دل پر حکومت کر رہا ہے


ہمارے شہر کا حاکم بھی اب تو 

حماقت پر حماقت کر رہا ہے


    غلام جیلانی قمر


شہباز ناصر


 یوم پیدائش 15 مارچ 1995


چھوٹی سی اک بات پہ اس نے کل مجھ سے منہ ماری کی

تھوڑی سی بھی لاج رکھی نہ اس نے اپنی یاری کی


اس کی ہر اک بات کی میں نے دل سے تابعداری کی

جس کو اپنا سمجھا میں نے اس نے ہی غداری کی 


مجھ کو اپنا کہنے والا میرے دل سے کھیلا ہے

ٹوٹے دل کا دکھ نہیں مجھ کو بات ہے ذمہ داری کی


سچ پوچھو تو سچ یہ ہے کہ جھوٹا ہے وہ جھوٹا ہے

میں تو اس کا نوکر تھا بس اس نے ہی سرادری کی


تب تک مرے ساتھ رہا وہ جب تک اس کو مطلب تھا

چھوڑ دیا پھر میں نے اس کو جب اس نے ہشیاری کی 


وہ دنیا پہ مرتا تھا اور دنیا اس پہ مرتی تھی

دنیا کا دستور یہی تھا اس نے دنیا داری کی


شہباز ناصر

فاروق شمیم

 یوم پیدائش 30مئی 1953


سلسلے خواب کے اشکوں سے سنورتے کب ہیں

آج دریا بھی سمندر میں اترتے کب ہیں


وقت اک موج ہے آتا ہے گزر جاتا ہے

ڈوب جاتے ہیں جو لمحات ابھرتے کب ہیں


یوں بھی لگتا ہے تری یاد بہت ہے لیکن

زخم یہ دل کے تری یاد سے بھرتے کب ہیں


لہر کے سامنے ساحل کی حقیقت کیا ہے

جن کو جینا ہے وہ حالات سے ڈرتے کب ہیں


یہ الگ بات ہے لہجے میں اداسی ہے شمیمؔ

ورنہ ہم درد کا اظہار بھی کرتے کب ہیں


فاروق شمیم


زاہد علی سید

 سارے تصورں سے ہے ماورا تصور 

شاہِ امم کی شانِ لولاک کا تصور


سرکارِ دوجہاںؐ کا رحمت رسا تصور

ہے ہرخوشی سے بڑھکر یہ خوشنماتصور


عشقِ نبی ہے دلمیں صل علی' لبوں پر

ہے روشنی دلوں کی نورالہدی' تصور

 

ہو شکر کس زباں سے اللہ کی عطا ہے

ہے دین رب کی بےشک یہ آپ کا تصور

 

سرکار کے تصور سے زندگی ہے روشن 

زاہد ! حسین تر ہے کیسا مرا تصور


زاہد علی سید


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...