بِن تیرے دل میں اب کوئی آباد تک نہیں
میرے لبوں پہ بھی کوئی فریاد تک نہیں
پوچھا ہے آج مجھ سے کسی نےجو تیرا نام
حیرت کی بات ہے کہ مجھے یاد تک نہیں
بنیاد ایک کفر کا فتوٰی ہمارا فن
اپنے تو پاس اور کوئی ایجاد تک نہیں
اِعلان کر رہا ہے کوئی زور و شُور سے
اب مر رہےہیں لوگ اور اِمداد تک نہیں
تِیشہ لئے ہوئے ہیں یونہی پھر رہے ہیں لوگ
مجنوں ہزار ہیں کوئی فرہاد تک نہیں
سن کر مری غزل تو کہا سب نے خوب ہے
افسوس اس کا ہے کہ کوئی داد تک نہیں
کیا ظلم ہو رہا ہے یہ مت ہم سے پوچھیے
ساجد اب اس نگر میں کو ئی شاد تک نہیں
عجیب ساجد