Urdu Deccan

Tuesday, June 1, 2021

شاہین بیگ

 یوم پیدائش 01 جون 1968


صندل و عنبر و لوبان نہیں ہے گھر میں

سر خوشی کا کوئی سامان نہیں ہے گھر میں


مسئلہ ایک بھی آسان نہیں ہے گھر میں

بہتری کا کوئی امکان نہیں ہے گھر میں


باپ کا سر سے مرے سایہ اُٹھا ہے جب سے

ایسے لگتا ہے نگہبان نہیں ہے گھر میں


کیا حسیں دور تھا گھر میں تھے کتابوں کے ہجوم

اب تو غالب کا بھی دیوان نہیں ہے گھر میں


کس طرح آپ کو گھر آنے کی دعوت دے دوں

کچھ بھی تو آپ کے شایان نہیں ہے گھر میں


اتنی فرمائشیں آئیں کہ اُسے کہنا پڑا

گھر ہے ملتان میں ملتان نہیں ہے گھر میں


داد شعروں پہ مرے کیسے کوئی دے شاہیں

ایک بھی سچا قدر دان نہیں ہے گھر میں


شاہین بیگ


دعبل شاہدی

 یوم پیدائش 01 جون 


سفر کی راہ جو سورج بدلنے والا ہے

وہ صحنِ قصرِ عطش سے نکلنے والا ہے


یہ کہہ دو ظلم کی موجوں سے اپنی حد میں رہیں 

مزاجِ   بحرِ  تبسم   بدلنے  والا   ہے


مری ہی جیت کا اعلان ہوگا  مقتل میں

 مرا لہو ابھی نیزوں اچھلنے والا ہے

 

خدایا گردنِ خورشید کو سلامت رکھ

غضب  ہے خنجرِ تاریک  چلنے  والا ہے


وہ آفتاب جلا  دیگا  قصرِ  باطل  کو

جو عرشِ تشنہ لبی سے نکلنے والا ہے


میری ان آنکھوں سے طوفانِ درد و غم اٹھ کر 

نہ جانے  کتنے سمندر  نگلنے  والا   ہے


دعبل شاہدی


جہانگیر معید

 یوم پیدائش 01 جون 1973


ترے دیے ہوئے زخموں سے پیار کرتے ہوئے 

میں جی رہا ہوں ہر اک حد کو پار کرتے ہوئے 


میں دل کی آنکھ سے دیکھوں ترے سراپے کو 

خیال و خواب سے نقش و نگار کرتے ہوئے 


عزیز تھا تو مرے دل کو ایک عرصہ تک

میں غمزدہ ہوں بہت تجھ پہ وار کرتے ہوئے  


میں روح تک تری الفت کی پاؤں گا تاثیر 

محبتوں کی حدیں بے کنار کرتے ہوئے


خزاں کے پتوں کی صورت بکھر چکا ہوں معید

بہار_ زیست کی رہ استوار کرتے ہوئے 


جہانگیر معید


حبیب تنویر

 یوم پیدائش 01 جون 1923


بے محل ہے گفتگو ہیں بے اثر اشعار ابھی

زندگی بے لطف ہے نا پختہ ہیں افکار ابھی


پوچھتے رہتے ہیں غیروں سے ابھی تک میرا حال

آپ تک پہنچے نہیں شاید مرے اشعار ابھی


زندگی گزری ابھی اس آگ کے گرداب میں

دل سے کیوں جانے لگی حرص لب و رخسار ابھی


ہاں یہ سچ ہے سر بسر کھوئے گئے ہیں عقل و ہوش

دل میں دھڑکن ہے ابھی دل تو ہے خود مختار ابھی


کیوں نہ کر لوں اور ابھی سیر بہار لالہ زار

میں نہیں محسوس کرتا ہوں نحیف و زار ابھی


حبیب تنویر


خاور رضوی

 یوم پیدائش 01 جون 1938


یوں تو ہر چھب وہ نرالی وہ فسوں ساز کہ بس

ہائے وہ ایک نگاہ غلط انداز کہ بس


دیکھنے والو ذرا رنگ کا پردہ تو ہٹاؤ

سینۂ گل پہ ہے زخموں کا وہ انداز کہ بس


دل کے داغوں کو چھپایا تو ابھر آئے اور

رازداری ہی نے یوں کھول دیئے راز کہ بس


ہم نے بخشی ہے زمانے کو نظر اور ہمیں

یوں زمانے نے کیا ہے نظر انداز کہ بس


رنج و غم عشق و جنوں درد و خلش سوز و فراق

ایسے ایسے ملے خاورؔ ہمیں دم ساز کہ بس


خاور رضوی


محمد عارف

 دِل کے آئینے میں جو بھی تصویر تھی مُو قلم کا مُصّوِر کے تھا بانکپن

آنکھ کی پُتلیوں میں تھرکتے ہُوئے نوجواں لڑکیوں کے سُنہرے بدن


کوئی دوشیزہ تھی بال کھولے ہُوئے ساحلِ بِحر پر چاندی رات میں

جیسے کُہرے کی چادر میں لِپٹی ہُوئی کَسمُساتی ہُوئی چاندنی کی کِرَن


خواہِشوں کے جزیروں میں بھٹکے ہُوۓ جسقدر جِسم تھے وہ ہم آغوش تھے

اپنے عِشرتکدوں کی جواں رات میں قُرب کے بیکراں نشے میں تھے مگن


سُرخ جوڑوں میں لِپٹی ہُوئی لڑکیاں جِن کے چہروں پہ تھی ایک وحشت عیاں 

اِسلئے کیُونکہ اُنکے مجازی خُدا باندھ کر چلدئیے تھے سَروں سے کفن


اِک سُلگتی ہُوئی شمع کے قُرب میں کُچھ پتنگے جلے تھے جہاں راکھ تھی

راکھ کیا تھی سُلگتی ہُوئی آگ تھی پُھونک کر رکھ دیے مَخملیِں پیرہَن


شِدّتِ جذبِ اُلفت سے خاموش تھے کِتنے تھے بِن پیے ہی جو مدہوش تھے

روشنی کے سمُندر میں ڈُوبے ہُوئے خُوشبؤں میں نہائے ہُوئے مَرد و زَن


محمد عارف


شمشاد شاد

 امن کیسے ہوا اس دیش کا غارت لکھنا

اے مؤرخ تو سبب اس کا سیاست لکھنا


جھوٹ کیسے چڑھا پروان اگر لکھو گے

تو بلا خوف صحافت کی بدولت لکھنا


مت غریبوں کے مسائل پہ چلا اپنا قلم

پر امیروں کے قصیدے تو کبھی مت لکھنا


اک جہالت ہی سبب ہے مری بد حالی کا

یہ حقیقت ہے تو پھر کیوں نہ حقیقت لکھنا


اب کے نسخہ جو لکھو تو اے طبیبو اس پر

کیوں سدھرتی نہیں بیماروں کی حالت لکھنا


اس کو تخلیق کیا رب نے محبت کے لئے

دل پہ پھر کس لئے نفرت کی عبارت لکھنا


لکھتا ہوں لکھ کے مٹا دیتا ہوں پھر لکھتا ہوں

شاید آتا ہی نہیں مجھ کو شکایت لکھنا


میری بربادی کا افسانہ جو تحریر کرو

صاف لفظوں میں وجہ اسکی محبت لکھنا


شاد بک جائے جو آسانی سے منہ مانگے دام

کس لئے مال پہ پھر مال کی قیمت لکھنا


شمشاد شاد


طارق مسعود

 یوم پیدائش 31 مئی 2002


اک ترک رشتہ ہم سے نبھایا گیا ہے یار 

یعنی دیا لہو سے جلایا گیا ہے یار 


اترے نہیں ہیں یونہی درختوں پہ میٹھے پھل

پتھر کو سہنا پہلے سکھایا گیا ہے یار 


دکھ یہ ہے بزمِ اہلِ وفا میں بطورِ جج 

اک شخصِ بے وفا کو بلایا گیا ہے یار 


ایسا نہیں ہے لہجہ تھا پہلے سے پر اثر

اردو زبان سے یہ کمایا گیا ہے یار 


طارق مسعود 


ذوالفقار علی ذلفی

 کب ہُوا احساس اُس کو کچھ بھی میرے پیار کا

مجھ سے ہے اب تک رویہ غیر جیسا یار کا


تھی مجھے امید اُس سے تو وفاٶں کی مگر

وہ بھی جانبدار نِکلا راہ کی دیوار کا


بعد اُس کے نیند بھی آنکھوں سے رُوٹھی ہی رہی

دل نشانہ یوں ہُوا ہے اِک نظر کے وار کا


لگ گئی ہے اُس کو بھی شاید زمانے کی ہوا

بدلا بدلا ہے جو لہجہ آج کل دِلدار کا


اُس سے کہنا اب خدارا ضِد کو اپنی چھوڑ دے

درد حد سے بڑھ گیا ہے ہجر کے بیمار کا


پڑھ کے میری اِک غزل اُس کو یہ کہنا ہی پڑا

ذائقہ سب سے الگ ہے آپ کے اشعار کا


جاتے جاتے اُس نے ذُلفی درس مجھ کو یہ دیا

پھر بھروسا بھی نہ کرنا یوں کِسی کے پیار کا


ذوالفقار علی ذُلفی


ایس ڈی عابد

 شعر کہنا کہاں سہل ٹھہرا 

تیری زلفوں کا ایک بل ٹھہرا 


عمر بھر سر جسے نہ کر پایا 

تُو محبت کا وہ جبل ٹھہرا


تیرے دل میں مری محبت ہے 

یہ مرے ذہن کا خلل ٹھہرا 


تیرے پاؤں میں ہے بھنور شاید 

آج ٹھہرا ہے تُو نہ کل ٹھہرا 


میرا جانا اشد ضروری ہے 

تیرا اصرار ہے تو چل ٹھہرا 


دور ہو جائیں ہم سدا کیلئے

اپنی رنجش کا کیسا حل ٹھہرا  


اب نہ تجدیدِ دوستی ہو گی

فیصلہ یہ ترا اٹل ٹھہرا 


میں نے تبدیل کر کے دیکھا ہے

درد ہی درد کا بدل ٹھہرا 


میرے اشکوں کی قدر کون کرے 

مسکرانا ترا غزل ٹھہرا


آ گیا ہے تُو لوٹ کر عابدؔ

یہ مرے صبر کا ہی ۔۔ پھل ٹھہرا 


ایس،ڈی،عابدؔ


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...