Urdu Deccan

Monday, June 7, 2021

ساغر خیامی

 یوم پیدائش 07 جون 1936


اٹھ چلے وہ تو اس میں حیرت کیا

ان کے آگے وفا کی قیمت کیا


اس کے کوچے سے ہو کے آیا ہوں

اس سے اچھی ہے کوئی جنت کیا


شہر سے وہ نکلنے والے ہیں

سر پہ ٹوٹے گی پھر قیامت کیا


تیرے بندوں کی بندگی کی ہے

یہ عبادت نہیں عبادت کیا


کوئی پوچھے کہ عشق کیا شے ہے

کیا بتائیں کہ ہے محبت کیا


آنسوؤں سے لکھا ہے خط ان کو

پڑھ وہ پائیں گے یہ عبارت کیا


میں کہیں اور دل لگا لوں گا

مت کرو عشق اس میں حجت کیا


گرم بازار ہوں جو نفرت کے

اس زمانے میں دل کی قیمت کیا


کتنے چہرے لگے ہیں چہروں پر

کیا حقیقت ہے اور سیاست کیا


ساغر خیامی


انعام الحق معصوم صابری

 یوم پیدائش 06 جون


خوش بخت ہوں کہ لب پہ محمد ﷺ کا نام ہے

ہر وقت ہی زباں پہ درود و سلام ہے


حضرت بی آمنہ کے گھرانے پہ خاص ہی

میلاد کی خوشی کا تو اک اژدہام ہے


افطار اور سحری کی برکات جا بجا

صدقے میں آپ ﷺ کے ملا ماہ صیام ہے


رحمت برستی ہے مرے رب کی کروڑہا

جس نے کیا درود کا جو اہتمام ہے


یہ آسماں زمیں ہی نہیں دسترس میں ہیں

عرش علی بھی آپ ﷺ کی جائے قیام ہے


معصوم روز حشر تمنا یہی مجھے

فرمائیں مصطفیٰ ﷺ کہ یہ میرا غلام ہے


انعام الحق معصوم صابری


معین لہوری رمزی

 یوم پیدائش 06 جون


گر عشق ہے نبی سے بنالے وہی جمال

ریشِ نبی کٹا کے بنے کیسے وہ خصال


ہر ایک رنگ و روپ میں تو مصطفیٰ کو ڈھال

یہ ہی ہے تیرا عشق تو یہ ہی ترا کمال


مومن کی سوچ میں تو نمایاں ہے ذوالجلال

ہے اس کے ماسوا تو وہ اندیشہِ ذلال


جاں دی اسی کی جائے تو ہو گا نہ کچھ ملال

ورنہ مجازی عشق رہِ کوچہِ زوال


محشر میں جب کریگا خدا تجھ سے کچھ سوال

ہوگا وہی جو تیرے عمل کا ہوا مآل


رمزی بھی صوفی تو نہیں بُنتا ہے لفظی جال

چڑیوں کو سمجھے اچھا جو پھرتی ہیں ڈال ڈال


معین لہوری رمزی


بانو ہادیہ سید

 یوم پیدائش 06 جون 1956


نگر نگر نکھار ہے گلی گلی بہار ہے۔

"چراغ راہ جل اٹھے یہ کس کا انتظار ہے"


کلی کلی شجر شجر کو مل گئی تری خبر

چمن میں جا بجا خوشی ہے رنگ ہے نکھار ہے 


فضا کی چال ڈھال سے جھلک رہی ہیں مستیاں 

غزال و عندلیب پہ بھی چھا گیا خمار ہے


ہواوں نے مہک تری بکھیر دی ہے چار سو

مجھے قرار دل پہ اب رہا نہ اختیار ہے


ہوائیں لے کے آئی ہیں پیام تیرے پیار کا 

ہر ایک سانس میں بسی ہوئی تری پکار ہے


نہال بانو ہوگئی ضیائے آفتاب سے

کہ اسکا نام بھی اسی ادا سے مستعار ہے


بانو ہادیہ سید


یونس نوید

 یوم پیدائش 06 جون


طرفداری مرا بھائی مرے دشمن کی کرتا ہے

لو اپنا تیر اپنے ہی کلیجے میں اُتر تا ہے


میں وہ سوکھی ندی ہوں جس میں اکثرخاک اڑتی ہے

مگر سیلاب کا پانی مرے سر سے گزرتا ہے


مری آنکھو! ذرا برسو کہ دھارا غم کا مدھم ہو

یہ وہ دریا ہے جو برسات ہونے پر اترتا ہے


بچھڑ کر تم سے اس دل کا نجانے حال کیا ہوگا

تمہیں پانے سے پہلے ہی تمہیں کھونے سے ڈرتا ہے


کوئی تو قوتِ پرواز دیتا ہے پرندوں کو

کوئی تو ہے،خلا میں راستے ہموار کرتا ہے


بہادر ہے اگر ظالم، تو پھر میدان میں آئے

کہ اک مردِ مجاہد جنگ کا اعلان کرتا ہے


امیروں کے گلے تک کب پہنچتا ہے کوئی پھندہ

یہاں قانون کے ہاتھوں غریب انسان مرتا ہے


یونس نوید


علینا عترت

 یوم پیدائش 06 جون


خزاں کی زرد سی رنگت بدل بھی سکتی ہے

بہار آنے کی صورت نکل بھی سکتی ہے


جلا کے شمع اب اٹھ اٹھ کے دیکھنا چھوڑو

وہ ذمہ داری سے از خود پگھل بھی سکتی ہے


ہے شرط صبح کے رستے سے ہو کے شام آئے

تو رات اس کو سحر میں بدل بھی سکتی ہے


ذرا سنبھل کے جلانا عقیدتوں کے چراغ

بھڑک نہ جائیں کہ مسند یہ جل بھی سکتی ہے


ابھی تو چاک پہ جاری ہے رقص مٹی کا

ابھی کمہار کی نیت بدل بھی سکتی ہے


یہ آفتاب سے کہہ دو کہ فاصلہ رکھے

تپش سے برف کی دیوار گل بھی سکتی ہے


ترے نہ آنے کی تشریح کچھ ضروری نہیں

کہ تیرے آتے ہی دنیا بدل بھی سکتی ہے


کوئی ضروری نہیں وہ ہی دل کو شاد کرے

علیناؔ آپ طبیعت بہل بھی سکتی ہے


علینا عترت


شوق بہرائچی

 یوم پیدائش 06 جون 1884


ایمان کی لغزش کا امکان ارے توبہ

بد چلنی میں زاہد کا چالان ارے توبہ


اٹھ کر تری چوکھٹ سے ہم اور چلے جائیں

انگلینڈ ارے توبہ جاپان ارے توبہ


ہے گود کے پالوں سے اب خوف دغا بازی

یہ اپنے ہی بھانجوں پر بہتان ارے توبہ


انسانوں کو دن دن بھر اب کھانا نہیں ملتا

مدت سے فروکش ہیں رمضان ارے توبہ


للہ خبر لیجے اب قلب شکستہ کی

گرتا ہے محبت کا دالان ارے توبہ


دامان تقدس پر داغوں کی فراوانی

اک مولوی کے گھر میں شیطان ارے توبہ


اب خیریتیں سر کری معلوم نہیں ہوتیں

گنجوں کو ہے ناخن کا ارمان ارے توبہ


مشرق پہ بھی نظریں ہیں مغرب پہ بھی نظریں ہیں

ظالم کے تخیل کی لمبان ارے توبہ


اے شوقؔ نہ کچھ کہئے حالت دل مضطر کی

ہوتا ہے مسیحا کو خفقان ارے توبہ


شوق بہرائچی


ناصر محمود لالہ

 یوم پیدائش 05 جون 1968


پھول کھلنے لگے بہانے سے

رات دن اس کے گنگنانے سے


بعد میں کون اتنے رنج سہے

باز آیا میں مسکرانے سے


اب میں خود پر بھروسہ کرنے لگا

بچ گیا ہوں فریب کھانے سے


دل میں جو تھا وہ کہہ دیا اس کو

تیر بھٹکا نہیں نشانے سے


ساری دنیا حسین لگتی ہے

کسقدر خوش ہوں دل لگانے سے


گھر کی تنہائی کم ہوئی ناصر

نقش دیوار پر بنانے سے


ناصر محمود لالہ


محمد سراج الدین سیف

 یوم پیدائش 05 جون 1947


چاند تاروں پہ بےشک نظر کیجئے

فکر اپنی زمیں کی مگر کیجئے


آپ اندھیروں کو یوں بے اثر کیجئے

"رات بھر انتظار سحر کیجئے"


تجربوں پر نئے تجربے اب نہیں

راہبر جیسا ہی راہبر کیجئے


زیر کر پائیں گے حق پرستوں کو کیا

لاکھ دنیا ادھر کی ادھر کیجئے


اپنے اللہ سے یہ دعا ہے مری

مجھ کو اول تو اچھا بشر کیجئے


یہ نشان جبیں کام آئیں گے کیا

صدق دل سے نہ سجدے اگر کیجئے


'سیف' پہچاننا ہو کسی کو اگر

ساتھ میں اس کے کوئی سفر کیجئے


'محمد سراج الدین سیف


سیماب اکبرآبادی

 یوم پیدائش 05 جون 1882


گیارہواں شعر بہادر شاہ ظفر کے نام سے بھی منسوب ہے مگر در حقیقت یہ شعر سیماب کا ہے ۔ جسے سیماب نے علی گڑھ کے ایک مشاعرے میں بھی پڑھا تھا اور ان کی 1947ءمیں شائع ہونے والی کتاب ”کلیم عجم“ میں بھی موجود ہے۔


شاید جگہ نصیب ہو اس گل کے ہار میں

میں پھول بن کے آؤں گا اب کی بہار میں


کفنائے باغباں مجھے پھولوں کے ہار میں

کچھ تو برا ہو دل مرا اب کی بہار میں


گندھوا کے دل کو لائے ہیں پھولوں کے ہار میں

یہ ہار ان کو نذر کریں گے بہار میں


نچلا رہا نہ سوز دروں انتظار میں

اس آگ نے سرنگ لگا دی مزار میں


خلوت خیال یار سے ہے انتظار میں

آئیں فرشتے لے کے اجازت مزار میں


ہم کو تو جاگنا ہے ترے انتظار میں

آئی ہو جس کو نیند وہ سوئے مزار میں


میں دل کی قدر کیوں نہ کروں ہجر یار میں

ان کی سی شوخیاں ہیں اسی بے قرار میں


سیمابؔ بے تڑپ سی تڑپ ہجر یار میں

کیا بجلیاں بھری ہیں دل بے قرار میں


تھی تاب حسن شوخیٔ تصویر یار میں

بجلی چمک گئی نظر بے قرار میں


بادل کی یہ گرج نہیں ابر بہار میں

برا رہا ہے کوئی شرابی خمار میں


عمر دراز مانگ کے لائی تھی چار دن

دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں


تنہا مرے ستانے کو رہ جائے کیوں زمیں

اے آسمان تو بھی اتر آ مزار میں


خود حسن نا خدائے محبت خدائے دل

کیا کیا لئے ہیں میں نے ترے نام پیار میں


مجھ کو مٹا گئی روش شرمگیں تری

میں جذب ہو گیا نگۂ شرمسار میں


اللہ رے شام غم مری بے اختیاریاں

اک دل ہے پاس وہ بھی نہیں اختیار میں


اے اشک گرم ماند نہ پڑ جائے روشنی

پھر تیل ہو چکا ہے دل داغدار میں


یہ معجزہ ہے وحشت عریاں پسند کا

میں کوئے یار میں ہوں کفن ہے مزار میں


اے درد دل کو چھیڑ کے پھر بار بار چھیڑ

ہے چھیڑ کا مزا خلش بار بار میں


افراط معصیت سے فضیلت ملی مجھے

میں ہوں گناہ گاروں کی پہلی قطار میں


ڈرتا ہوں یہ تڑپ کے لحد کو الٹ نہ دے

ہاتھوں سے دل دبائے ہوئے ہوں مزار میں


تم نے تو ہاتھ جور و ستم سے اٹھا لیا

اب کیا مزا رہا ستم روزگار میں


کیا جانے رحمتوں نے لیا کس طرح حساب

دو چار بھی گناہ نہ نکلے شمار میں


او پردہ دار اب تو نکل آ کہ حشر ہے

دنیا کھڑی ہوئی ہے ترے انتظار میں


روئی ہے ساری رات اندھیرے میں بے کسی

آنسو بھرے ہوئے ہیں چراغ مزار میں


سیمابؔ پھول اگیں لحد عندلیب سے

اتنی تو زندگی ہو ہوائے بہار میں


سیماب اکبرآبادی


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...