Urdu Deccan

Tuesday, June 15, 2021

ظہیر غازی پوری

 یوم پیدائش 08 جون 1938


ہر آدمی کو خواب دکھانا محال ہے

شعلوں میں جیسے پھول کھلانا محال ہے


کاغذ کی ناؤ بھی ہے کھلونے بھی ہیں بہت

بچپن سے پھر بھی ہاتھ ملانا محال ہے


انساں کی شکل ہی میں درندے بھی ہیں مگر

ہر عکس آئینے میں دکھانا محال ہے


مشکل نہیں اتارنا سورج کو تھال میں

لیکن چراغ اس سے جلانا محال ہے


اک بار خود جو لفظوں کے پنجرے میں آ گیا

اس طائر نوا کو اڑانا محال ہے


اپنے لہو کی بھینٹ چڑھانے کے بعد بھی

قدروں کی ہر فصیل تک آنا محال ہے


تا عمر اپنی فکر و ریاضت کے باوجود

خود کو کسی سزا سے بچانا محال ہے


ظہیرؔ غازی پوری


شمیم کرہانی

 یوم پیدائش 8 جون 1913


فاصلہ تو ہے مگر کوئی فاصلہ نہیں

مجھ سے تم جدا سہی دل سے تم جدا نہیں


کاروان آرزو اس طرف نہ رخ کرے

ان کی رہ گزر ہے دل عام راستہ نہیں


اک شکست آئینہ بن گئی ہے سانحہ

ٹوٹ جائے دل اگر کوئی حادثہ نہیں


آئیے چراغ دل آج ہی جلائیں ہم

کیسی کل ہوا چلے کوئی جانتا نہیں


آسماں کی فکر کیا آسماں خفا سہی

آپ یہ بتائیے آپ تو خفا نہیں


کس لیے شمیمؔ سے اتنی بدگمانیاں

مل کے دیکھیے کبھی آدمی برا نہیں


شمیم کرہانی


جاوید احمد غامدی

 اٹھ کہ یہ سلسلۂ شام و سحر تازہ کریں

عالمِ نو ہے ترے قلب و نظر تازہ کریں


اس زمانے کو بھی دیں اور زمانہ کوئی

پھر اٹھیں ولولۂ علم و ہنر تازہ کریں


تیری تدبیر سے نومید ہوئی ہے فطرت

راستے اور بھی ہیں رختِ سفر تازہ کریں


شعلۂ طور اٹھے آتشِ فاراں ہو کر

پھر تری خاک میں پوشیدہ شرر تازہ کریں


حرف و آہنگ نہ ہوں سوزِ دروں سے خالی

ہر رگِ ساز میں اب خونِ جگر تازہ کریں


جاوید احمد غامدی


جاوید احمد

 یوم پیدائش 01 جون 1948


دنیا سے تن کو ڈھانپ قیامت سے جان کو

دو چادریں بہت ہیں تری آن بان کو


اک میں ہی رہ گیا ہوں کیے سر کو بار دوش

کیا پوچھتے ہو بھائی مرے خاندان کو


جس دن سے اپنے چاک گریباں کا شور ہے

تالے لگا گئے ہیں رفوگر دکان کو


فی الحال دل پہ دل تو لیے جا رہے ہو تم

اور جو حساب بھول گیا کل کلان کو


دل میں سے چن کے ہم بھی کوئی غنچہ اے نسیم

بھیجیں گے تیرے ہاتھ کبھی گلستان کو


مشغول ہیں صفائی و توسیع دل میں ہم

تنگی نہ اس مکان میں ہو میہمان کو


احمد جاوید


Monday, June 7, 2021

جاوید سلطان

 یوم پیدائش 07 جون 


گر ہو سکے تو بس اسے یکبار دیکھنا

کس حال میں ہے تیرا یہ بیمار دیکھنا


صورت تری کبھی ترا سنگار دیکھنا

دل چاہتا ہے تجھ کو ہی ہر بار دیکھنا


ملتی نہیں تسلّی دلاسوں سے اب مجھے

دو پل کی زندگی ہے مرے یار دیکھنا


آنسو بہانا اپنے مقدر پہ اور بس

تصویر کو تمہاری لگاتار دیکھنا


خود کو بھی آئینے میں ذرا دیکھ لو میاں

پھر اس کے بعد تم مرا کردار دیکھنا


  جاوید سلطان


ساغر خیامی

 یوم پیدائش 07 جون 1936


اٹھ چلے وہ تو اس میں حیرت کیا

ان کے آگے وفا کی قیمت کیا


اس کے کوچے سے ہو کے آیا ہوں

اس سے اچھی ہے کوئی جنت کیا


شہر سے وہ نکلنے والے ہیں

سر پہ ٹوٹے گی پھر قیامت کیا


تیرے بندوں کی بندگی کی ہے

یہ عبادت نہیں عبادت کیا


کوئی پوچھے کہ عشق کیا شے ہے

کیا بتائیں کہ ہے محبت کیا


آنسوؤں سے لکھا ہے خط ان کو

پڑھ وہ پائیں گے یہ عبارت کیا


میں کہیں اور دل لگا لوں گا

مت کرو عشق اس میں حجت کیا


گرم بازار ہوں جو نفرت کے

اس زمانے میں دل کی قیمت کیا


کتنے چہرے لگے ہیں چہروں پر

کیا حقیقت ہے اور سیاست کیا


ساغر خیامی


انعام الحق معصوم صابری

 یوم پیدائش 06 جون


خوش بخت ہوں کہ لب پہ محمد ﷺ کا نام ہے

ہر وقت ہی زباں پہ درود و سلام ہے


حضرت بی آمنہ کے گھرانے پہ خاص ہی

میلاد کی خوشی کا تو اک اژدہام ہے


افطار اور سحری کی برکات جا بجا

صدقے میں آپ ﷺ کے ملا ماہ صیام ہے


رحمت برستی ہے مرے رب کی کروڑہا

جس نے کیا درود کا جو اہتمام ہے


یہ آسماں زمیں ہی نہیں دسترس میں ہیں

عرش علی بھی آپ ﷺ کی جائے قیام ہے


معصوم روز حشر تمنا یہی مجھے

فرمائیں مصطفیٰ ﷺ کہ یہ میرا غلام ہے


انعام الحق معصوم صابری


معین لہوری رمزی

 یوم پیدائش 06 جون


گر عشق ہے نبی سے بنالے وہی جمال

ریشِ نبی کٹا کے بنے کیسے وہ خصال


ہر ایک رنگ و روپ میں تو مصطفیٰ کو ڈھال

یہ ہی ہے تیرا عشق تو یہ ہی ترا کمال


مومن کی سوچ میں تو نمایاں ہے ذوالجلال

ہے اس کے ماسوا تو وہ اندیشہِ ذلال


جاں دی اسی کی جائے تو ہو گا نہ کچھ ملال

ورنہ مجازی عشق رہِ کوچہِ زوال


محشر میں جب کریگا خدا تجھ سے کچھ سوال

ہوگا وہی جو تیرے عمل کا ہوا مآل


رمزی بھی صوفی تو نہیں بُنتا ہے لفظی جال

چڑیوں کو سمجھے اچھا جو پھرتی ہیں ڈال ڈال


معین لہوری رمزی


بانو ہادیہ سید

 یوم پیدائش 06 جون 1956


نگر نگر نکھار ہے گلی گلی بہار ہے۔

"چراغ راہ جل اٹھے یہ کس کا انتظار ہے"


کلی کلی شجر شجر کو مل گئی تری خبر

چمن میں جا بجا خوشی ہے رنگ ہے نکھار ہے 


فضا کی چال ڈھال سے جھلک رہی ہیں مستیاں 

غزال و عندلیب پہ بھی چھا گیا خمار ہے


ہواوں نے مہک تری بکھیر دی ہے چار سو

مجھے قرار دل پہ اب رہا نہ اختیار ہے


ہوائیں لے کے آئی ہیں پیام تیرے پیار کا 

ہر ایک سانس میں بسی ہوئی تری پکار ہے


نہال بانو ہوگئی ضیائے آفتاب سے

کہ اسکا نام بھی اسی ادا سے مستعار ہے


بانو ہادیہ سید


یونس نوید

 یوم پیدائش 06 جون


طرفداری مرا بھائی مرے دشمن کی کرتا ہے

لو اپنا تیر اپنے ہی کلیجے میں اُتر تا ہے


میں وہ سوکھی ندی ہوں جس میں اکثرخاک اڑتی ہے

مگر سیلاب کا پانی مرے سر سے گزرتا ہے


مری آنکھو! ذرا برسو کہ دھارا غم کا مدھم ہو

یہ وہ دریا ہے جو برسات ہونے پر اترتا ہے


بچھڑ کر تم سے اس دل کا نجانے حال کیا ہوگا

تمہیں پانے سے پہلے ہی تمہیں کھونے سے ڈرتا ہے


کوئی تو قوتِ پرواز دیتا ہے پرندوں کو

کوئی تو ہے،خلا میں راستے ہموار کرتا ہے


بہادر ہے اگر ظالم، تو پھر میدان میں آئے

کہ اک مردِ مجاہد جنگ کا اعلان کرتا ہے


امیروں کے گلے تک کب پہنچتا ہے کوئی پھندہ

یہاں قانون کے ہاتھوں غریب انسان مرتا ہے


یونس نوید


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...