Urdu Deccan

Tuesday, June 15, 2021

عادل رشید مئو

 دل ناتواں میں الفت کبھی تھی نہ ہے نہ ہوگی

مجھے تم سے کوئی چاہت کبھی تھی نہ ہے نہ ہوگی


یوں ہزار وعدے کر لے یوں ہزار دے تسلی

تیری بات میں حقیقت کبھی تھی نہ ہے نہ ہوگی


میں خدائے وحدہُ کا ہوں پجاری صرف یارو

مجھے قبر سے عقیدت کبھی تھی نہ ہے نہ ہوگی


میں ہوں امن کا پیمبر سدا حق کی بات کی ہے

میری ظلم سے حمایت کبھی تھی نہ ہے نہ ہوگی


غم زندگی کو ڈھو کر میں نڈھال ہو گیا ہوں

میری اس طرح کی حالت کبھی تھی نہ ہے نہ ہوگی


یہ خدا کا ہی کرم ہے یہ اسی کی ہے نوازش

میری آج جیسی شہرت کبھی تھی نہ ہے نہ ہوگی


کوئی حکم توڑوں عادل کبھی والدین کا میں

میرے دل میں اتنی جرت کبھی تھی نہ ہے نہ ہوگی


عادل رشید مئو


آل رضا رضا

 یوم پیدائش 10 جون 1896


حسن کی فطرت میں دل آزاریاں

اس پہ ظالم نت نئی تیاریاں


متصل طفلی سے آغاز شباب

خواب کے آغوش میں بیداریاں


سوچ کر ان کی گلی میں جائے کون

بے ارادہ ہوتی ہیں تیاریاں


درد دل اور جان لیوا پرسشیں

ایک بیماری کی سو بیماریاں


اور دیوانے کو دیوانہ بناؤ

اللہ اللہ اتنی خاطر داریاں


بندھ رہا ہے اے رضاؔ رخت سفر

ہو رہی ہیں کوچ کی تیاریاں


آل رضا رضا


سعد ملک سعد

 کسی کی دین ہے یا میری انکساری ہے 

زمینِ دل پہ جو ہر سمت مشکباری ہے


یہ اور بات کہ ظاہر کبھی نہیں کرتے 

دھڑکتے دل میں تمنّا فقط تمہاری ہے


تمہاری یاد کے جگنو پکڑ رہے ہیں ہم 

تمہارے ہجر میں یہ کام اب بھی جاری ہے


ہم ایسے لوگ اجالوں کی کیا تمنّا کریں 

اسیرِ شب ہیں مقدر میں شب گزاری ہے


ہماری آنکھیں تو یونہی نہیں ہوئی روشن 

نظر نے آج نظر سے نظر اتاری ہے


سعد ملک سعؔد


ایمن راجپوت

 یوم پیدائش 10 جون


کب رات گزرتی ہے، بن آقا کی یادوں کے

کب صبح دمکتی ہے، بن آقا کی یادوں کے


جیون کا ہر اک لمحہ گویا کہ مصیبت ہے

کب زندگی کٹتی ہے، بن آقا کی یادوں کے


اک لقمہ بھی کھانے کا، کب حلق سے اترے ہے؟

ہر چیز تڑپتی ہے، بن آقا کی یادوں کے


کوئی وقت نہیں ایسا جب یاد نہ تڑپائے

ہر چیز بلکتی ہے، بن آقا کی یادوں کے


دنیا کی غزل چھوڑو، نعتیں ہی لکھو ایمن

کب بات ہی بنتی ہے ،بن آقا کی یادوں کے


ایمن راجپوت


ذوالفقار نقوی

 یوم پیدائش 10 جون 1965


کوزہ گر دیکھ اگر چاک پہ آنا ہے مجھے 

پھر ترے ہاتھ سے ہر چاک سلانا ہے مجھے 


رات بھر دیکھتا آیا ہوں چراغوں کا دھواں 

صبحِ عاشور سے اب آنکھ ملانا ہے مجھے 


ہاتھ اٹھے نہ کوئی اب کے دعا کی خاطر 

ایک دیوار پسِ دار بنانا ہے مجھے 


سر بچے یا نہ بچے تیرے زیاں خانے میں 

اپنی دستار بہر طور بچانا ہے مجھے 


چھوڑ آیا ہوں در دل پہ میں آنکھیں اپنی 

اب ذرا جائے جو کہتا تھا کہ جانا ہے مجھے


باندھ رکھے ہیں مرے پاؤں میں گھنگھرو کس نے

اپنی سر تال پہ اب کس نے نچانا ہے مجھے


ذوالفقار نقوی


مجید لاہوری

 یوم پیدائش 10 جون 1913


جہاں کو چھوڑ دیا تھا جہاں نے یاد کیا

بچھڑ گئے تو بہت کارواں نے یاد کیا


ملا نہیں اسے شاید کوئی ستم کے لئے

زہ نصیب مجھے آسماں نے یاد کیا


وہ ایک دل جو کڑی دھوپ میں جھلستا تھا

اسے بھی سایۂ زلف بتاں نے یاد کیا


پناہ مل نہ سکی ان کو تیرے دامن میں

وہ اشک جن کو مہ و کہکشاں نے یاد کیا


خیال ہم کو بھی کچھ آشیاں کا تھا لیکن

قفس میں ہم کو بہت آشیاں نے یاد کیا


ہمارے بعد بہائے کسی نے کب آنسو

ہم اہل درد کو ابر رواں نے یاد کیا


غم زمانہ سے فرصت نہیں مگر پھر بھی

مجیدؔ چل تجھے پیر مغاں نے یاد کیا


مجید لاہوری


قادر صدیقی

 تیرا فراق عرصۂ محشر لگا مجھے

جب بھی خیال آیا بڑا ڈر لگا مجھے


جب بھی کیا ارادۂ ترک تعلقات

کیا جانے کیوں وہ شوخ حسیں تر لگا مجھے


پرکھا تو ظلمتوں کے سوا اور کچھ نہ تھا

دیکھا تو ایک نور کا پیکر لگا مجھے


خود اپنی ذات پر بھی نہ رہ جائے اعتبار

اے وقت ہو سکے تو وہ نشتر لگا مجھے


کیا جانے کس جہان میں بستے ہیں نرم دل

میں نے جسے چھوا وہی پتھر لگا مجھے


اک مرتبہ ضرور نظر پھر سے اٹھ گئی

جو قد بھی تیرے قد کے برابر لگا مجھے


قسمت اسی کو کہتے ہیں پھولوں کی سیج پر

لیٹا جو میں تو کانٹوں کا بستر لگا مجھے


اس پھول کا کلیجہ ملا غم سے پاش پاش

جو پھول دیکھنے میں گل تر لگا مجھے


دل ہنس کے جھیل جائے یہ بات اور ہے مگر

چرکا تری نگاہ کا اکثر لگا مجھے


دنیا کا یہ نظام یہ معیار سیم و زر

کمتر لگا مجھے کبھی بد تر لگا مجھے


ان کی گلی کی بات ہی قادرؔ عجیب ہے

ہر شخص شعر فہم و سخنور لگا مجھے


قادر صدیقی


محب کوثر

 وہ جو آنکھوں سے مرے دل میں اتر جائے گا

روشنی بن کے ہر اک سمت بکھر جائے گا


دن گزارے گا بہرحال ترے کوچے میں

رات آ جائے تو دیوانہ کدھر جائے گا


موج دریا نے ڈبویا تھا جسے ساحل پر

کیا خبر تھی کہ وہ طوفاں سے ابھر جائے گا


چاندنی رات میں اک اور قیامت ہوگی

رنگ چہرے کا ترے اور نکھر جائے گا


تجھ سے بچھڑا ہوں مگر ربط ہے اتنا کوثرؔ

دل کا ہر زخم تری یاد سے بھر جائے گا


محب کوثر


ابو لویزا علی

 حلول کر نہیں سکتا تو پھر حلاوت دے

مجھےطواف نہیں وصل کی سہولت دے


مدار قید ہے گردش سے تنگ آگیا ہوں 

طواف چھوڑ کے آؤں مجھے اجازت دے


درشت لہجے میں خود سے کلام کر یارم 

لذیذ لہجے سے خود کو بھی تھوڑی لذت دے 


ہے اک اسیر جو تیری اسیری میں خوش ہے

مگر یہ چاہتا ہے تو اسے حکومت دے


درخت پھل کے عوض بس توجہ چاہتا ہے

اجیر کہتا ہے آجر سے میری اجرت دے


سوال داغتے چہروں سے کہہ رہی ہے آنکھ 

جواب دیتی ہوں ،دوں گی ،ذرا سی مہلت دے 


ابو لویزا علی


شمشاد شاد

 کاسہء سر میں ہے میرے اک عدد نادر دماغ

لوگ ایسے ہی نہیں کہتے مجھے حاضر دماغ


دل اسیرِ غم ہوا جاتا ہے قصداً ان دنوں

ایسی صورت میں کرے تو کیا کرے آخر دماغ


کیا کسی کی بات کی گہرائی تک پہنچے گا یہ

 دل کا موقف تک سمجھنے سے ہے جب قاصر دماغ


کیوں نہ حاصل ہو اسے فرماں روائی جسم کی

سر سے پا تک جب ہے ایک اک عضو پر قادر دماغ


اُس کی میٹھی میٹھی باتوں میں نہ آ جانا کہیں 

چہرے سے معصوم ہے لیکن ہے وہ شاطر دماغ


کیا پھنساؤگے مجھے تم سازشوں کے جال میں 

مجھ کو میرے رب نے بخشا ہے میاں وافر دماغ


کی ہے کتنی بار اِسے تنبیہ ایماں نے مگر

باز آتا ہی نہیں اِلحاد سے کافر دماغ


ایک بس تم ہی نہیں ہو باہنر سنسار میں

ہم بھی کہلاتے ہیں اپنے آپ میں ماہر دماغ


شاؔد پہلی سی توجہ اب اِسے حاصل نہیں

اسلئے اعضاۓ تن میں ہے گراں خاطر دماغ


شمشاد شاد


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...