Urdu Deccan

Tuesday, June 15, 2021

یاسین باوزیر

 اک شخص دل میں رہ کہ بھی دلبر نہ بن سکا

مٸے جس میں پیار کی ہو وہ ساغر نہ بن سکا


پھر یوں ہوا کہ عشق کی بازی پلٹ گئی

جب میں مرے رقیب سے بہتر نہ بن سکا


پیوست ہو جگر میں جو مثلِ نگاہِ یار

ایسا تو آج تک کوئی خنجر نہ بن سکا 


ڈگری تو تھی مگر اُنھیں رشوت نہ دے سکا

مزدور بن گیا ہوں میں ٗ افسر نہ بن سکا 


بہتر وہ دوسروں سے بنے بھی تو کس طرح

جو شخص اپنے آپ سے بہتر نہ بن سکا


کیکر یہ چاہتا ہیکہ بن جاے وہ گلاب

شکوہ گلاب کو ہے وہ کیکر نہ بن سکا


یاسین شاعری کے لئے چاہئے ہنر 

ہر عشق کرنے والا سخنور نہ بن سکا


یاسین باوزیر


اقبال شاہ

 جب نکلتا ہے ترے شہر سے رستہ کوئی

سامنے دشت نظر آتا ہے پیاسا کوئی


اتنی شدت ہے مرے ضبط کی برسات میں دیکھ

میرے اندر سے امڈ آیا ہے دریا کوئی


لوگ ملتے ہیں نئے چہرے بدل کر مجھ سے

روز ہوتا ہے مرے ساتھ تماشہ کوئی


جب بھی ملتی ہے گلابوں کے کٹوروں سے صبا

تیرے لہجے میں لگے جیسے ہے ہنستا کوئی 


تم مرے سانسوں کی ڈوری سے بندھے رہتے ہو 

کیسیے کہہ دوں مرا تم سے نہیں رشتہ کوئی


میں اسے کیوں بھلا منسوب صنوبر سے کروں 

تیری قامت سا دکھائے جو نہ نقشہ کوئی 


اقبال شاہ


عالم فیضی

 موت کی اب ہر طرف یلغار ہے

اس وبا سے اب جہاں بیزار ہے


بھول بیٹھے تھے جو رب کو ایک دم

ان پہ رب کی دیکھ لو پھٹکار ہے


سب ہی ڈوبے ہیں گنہ میں اب یہاں

اس لیے ہم پر وبا کی مار ہے 


خوف و دہشت کا ہے سایہ ہر طرف

جس کو دیکھو اب وہی بیمار ہے


کیسی حالت ہوگئی سب کی یہاں

دل سے دل ملنا ہی اب دشوار ہے


کتنے ہیرے کھو دئے کووڈ میں ہم

ان کی فرقت سے یہ دل افگار ہے


ہیں سبھی عالم یہاں بے بس بہت

پھر بھی بدلا ان کا کیا کردار ہے؟


عالم فیضی


گوپال متل

 یوم پیدائش 11 جون 1901


رنگینی ہوس کا وفا نام رکھ دیا

خودداری وفا کا جفا نام رکھ دیا


انسان کی جو بات سمجھ میں نہ آ سکی

انساں نے اس کا حق کی رضا نام رکھ دیا


خود غرضیوں کے سائے میں پاتی ہے پرورش

الفت کو جس کا صدق و صفا نام رکھ دیا


بے مہری حبیب کا مشکل تھا اعتراف

یاروں نے اس کا ناز و ادا نام رکھ دیا


فطرت میں آدمی کی ہے مبہم سا ایک خوف

اس خوف کا کسی نے خدا نام رکھ دیا


یہ روح کیا ہے جسم کا عکس لطیف ہے

یہ اور بات ہے کہ جدا نام رکھ دیا


مفلس کو اہل زر نے بھی کیا کیا دئیے فریب

اپنی جفا کا حکم خدا نام رکھ دیا


گوپال متل


رام پرساد بسمل

 یوم پیدائش 11 جون 1897


الٰہی خیر وہ ہر دم نئی بیداد کرتے ہیں

ہمیں تہمت لگاتے ہیں جو ہم فریاد کرتے ہیں


کبھی آزاد کرتے ہیں کبھی بیداد کرتے ہیں

مگر اس پر بھی ہم سو جی سے ان کو یاد کرتے ہیں


اسیران قفس سے کاش یہ صیاد کہہ دیتا

رہو آزاد ہو کر ہم تمہیں آزاد کرتے ہیں


رہا کرتا ہے اہل غم کو کیا کیا انتظار اس کا

کہ دیکھیں وہ دل ناشاد کو کب شاد کرتے ہیں


یہ کہہ کہہ کر بسر کی عمر ہم نے قید الفت میں

وہ اب آزاد کرتے ہیں وہ اب آزاد کرتے ہیں


ستم ایسا نہیں دیکھا جفا ایسی نہیں دیکھی

وہ چپ رہنے کو کہتے ہیں جو ہم فریاد کرتے ہیں


یہ بات اچھی نہیں ہوتی یہ بات اچھی نہیں ہوتی

ہمیں بیکس سمجھ کر آپ کیوں برباد کرتے ہیں


کوئی بسمل بناتا ہے جو مقتل میں ہمیں بسملؔ

تو ہم ڈر کر دبی آواز سے فریاد کرتے ہیں


رام پرساد بسمل 


عادل رشید مئو

 دل ناتواں میں الفت کبھی تھی نہ ہے نہ ہوگی

مجھے تم سے کوئی چاہت کبھی تھی نہ ہے نہ ہوگی


یوں ہزار وعدے کر لے یوں ہزار دے تسلی

تیری بات میں حقیقت کبھی تھی نہ ہے نہ ہوگی


میں خدائے وحدہُ کا ہوں پجاری صرف یارو

مجھے قبر سے عقیدت کبھی تھی نہ ہے نہ ہوگی


میں ہوں امن کا پیمبر سدا حق کی بات کی ہے

میری ظلم سے حمایت کبھی تھی نہ ہے نہ ہوگی


غم زندگی کو ڈھو کر میں نڈھال ہو گیا ہوں

میری اس طرح کی حالت کبھی تھی نہ ہے نہ ہوگی


یہ خدا کا ہی کرم ہے یہ اسی کی ہے نوازش

میری آج جیسی شہرت کبھی تھی نہ ہے نہ ہوگی


کوئی حکم توڑوں عادل کبھی والدین کا میں

میرے دل میں اتنی جرت کبھی تھی نہ ہے نہ ہوگی


عادل رشید مئو


آل رضا رضا

 یوم پیدائش 10 جون 1896


حسن کی فطرت میں دل آزاریاں

اس پہ ظالم نت نئی تیاریاں


متصل طفلی سے آغاز شباب

خواب کے آغوش میں بیداریاں


سوچ کر ان کی گلی میں جائے کون

بے ارادہ ہوتی ہیں تیاریاں


درد دل اور جان لیوا پرسشیں

ایک بیماری کی سو بیماریاں


اور دیوانے کو دیوانہ بناؤ

اللہ اللہ اتنی خاطر داریاں


بندھ رہا ہے اے رضاؔ رخت سفر

ہو رہی ہیں کوچ کی تیاریاں


آل رضا رضا


سعد ملک سعد

 کسی کی دین ہے یا میری انکساری ہے 

زمینِ دل پہ جو ہر سمت مشکباری ہے


یہ اور بات کہ ظاہر کبھی نہیں کرتے 

دھڑکتے دل میں تمنّا فقط تمہاری ہے


تمہاری یاد کے جگنو پکڑ رہے ہیں ہم 

تمہارے ہجر میں یہ کام اب بھی جاری ہے


ہم ایسے لوگ اجالوں کی کیا تمنّا کریں 

اسیرِ شب ہیں مقدر میں شب گزاری ہے


ہماری آنکھیں تو یونہی نہیں ہوئی روشن 

نظر نے آج نظر سے نظر اتاری ہے


سعد ملک سعؔد


ایمن راجپوت

 یوم پیدائش 10 جون


کب رات گزرتی ہے، بن آقا کی یادوں کے

کب صبح دمکتی ہے، بن آقا کی یادوں کے


جیون کا ہر اک لمحہ گویا کہ مصیبت ہے

کب زندگی کٹتی ہے، بن آقا کی یادوں کے


اک لقمہ بھی کھانے کا، کب حلق سے اترے ہے؟

ہر چیز تڑپتی ہے، بن آقا کی یادوں کے


کوئی وقت نہیں ایسا جب یاد نہ تڑپائے

ہر چیز بلکتی ہے، بن آقا کی یادوں کے


دنیا کی غزل چھوڑو، نعتیں ہی لکھو ایمن

کب بات ہی بنتی ہے ،بن آقا کی یادوں کے


ایمن راجپوت


ذوالفقار نقوی

 یوم پیدائش 10 جون 1965


کوزہ گر دیکھ اگر چاک پہ آنا ہے مجھے 

پھر ترے ہاتھ سے ہر چاک سلانا ہے مجھے 


رات بھر دیکھتا آیا ہوں چراغوں کا دھواں 

صبحِ عاشور سے اب آنکھ ملانا ہے مجھے 


ہاتھ اٹھے نہ کوئی اب کے دعا کی خاطر 

ایک دیوار پسِ دار بنانا ہے مجھے 


سر بچے یا نہ بچے تیرے زیاں خانے میں 

اپنی دستار بہر طور بچانا ہے مجھے 


چھوڑ آیا ہوں در دل پہ میں آنکھیں اپنی 

اب ذرا جائے جو کہتا تھا کہ جانا ہے مجھے


باندھ رکھے ہیں مرے پاؤں میں گھنگھرو کس نے

اپنی سر تال پہ اب کس نے نچانا ہے مجھے


ذوالفقار نقوی


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...