اک شخص دل میں رہ کہ بھی دلبر نہ بن سکا
مٸے جس میں پیار کی ہو وہ ساغر نہ بن سکا
پھر یوں ہوا کہ عشق کی بازی پلٹ گئی
جب میں مرے رقیب سے بہتر نہ بن سکا
پیوست ہو جگر میں جو مثلِ نگاہِ یار
ایسا تو آج تک کوئی خنجر نہ بن سکا
ڈگری تو تھی مگر اُنھیں رشوت نہ دے سکا
مزدور بن گیا ہوں میں ٗ افسر نہ بن سکا
بہتر وہ دوسروں سے بنے بھی تو کس طرح
جو شخص اپنے آپ سے بہتر نہ بن سکا
کیکر یہ چاہتا ہیکہ بن جاے وہ گلاب
شکوہ گلاب کو ہے وہ کیکر نہ بن سکا
یاسین شاعری کے لئے چاہئے ہنر
ہر عشق کرنے والا سخنور نہ بن سکا
یاسین باوزیر