Urdu Deccan

Thursday, June 24, 2021

ارم زہرا

 ہم اس کے سامنے حسن و جمال کیا رکھتے

جو بے مثال ہے اس کی مثال کیا رکھتے


جو بے وفائی کو اپنا ہنر سمجھتا ہے

ہم اس کے آگے وفا کا سوال کیا رکھتے


ہمارا دل کسی جاگیر سے نہیں ارزاں

ہم اس کے سامنے مال و منال کیا رکھتے


اسے تو رشتے نبھانے کی آرزو ہی نہیں

پھر اس کی ایک نشانی سنبھال کیا رکھتے


جو دل پہ چوٹ لگانے میں خوب ماہر ہے

ہم اس کے سامنے اپنا کمال کیا رکھتے


ہمارے ظرف کا لوگوں نے امتحان لیا

ذرا سی بات کا دل میں ملال کیا رکھتے


جو اپنے دل سے ارمؔ کو نکال بیٹھا ہے

ہم اس کے سامنے ہجر و وصال کیا رکھتے


ارم زہرا


ادا جعفری

 ایک آئینہ رو بہ رو ہے ابھی

اس کی خوشبو سے گفتگو ہے ابھی


وہی خانہ بدوش امیدیں

وہی بے صبر دل کی خو ہے ابھی


دل کے گنجان راستوں پہ کہیں

تیری آواز اور تو ہے ابھی


زندگی کی طرح خراج طلب

کوئی درماندہ آرزو ہے ابھی


بولتے ہیں دلوں کے سناٹے

شور سا یہ جو چار سو ہے ابھی


زرد پتوں کو لے گئی ہے ہوا

شاخ میں شدت نمو ہے ابھی


ورنہ انسان مر گیا ہوتا

کوئی بے نام جستجو ہے ابھی


ہم سفر بھی ہیں رہ گزر بھی ہے

یہ مسافر ہی کو بہ کو ہے ابھی


ادا جعفری


نسیم نازش

 اب ہمیں تیری تمنا نہیں ہے

آنکھ کو ذوق تماشا نہیں ہے


جانے کیوں ڈھونڈ رہے ہیں ہم تم

وہ جو تقدیر میں لکھا نہیں ہے


یوں سر راہ گزر بیٹھے ہیں

جیسے ہم کو کہیں جانا نہیں ہے


پھر یہ کیوں خاک سی اڑتی ہے یہاں

دل کے اندر کوئی صحرا نہیں ہے


شہر والو کبھی اس کو بھی پڑھو

وہ جو دیوار پہ لکھا نہیں ہے


اس کو کمتر نہ سمجھنا لوگو

وہ جسے خواہش دنیا نہیں ہے


ہم کو ہے قرب میسر کا نشہ

ہم کو اندیشۂ فردا نہیں ہے


یہ گزرتا ہوا اک سایۂ وقت

قاتل عمر ہے لمحہ نہیں ہے


تہہ میں رشتوں کی اتر کر دیکھو

کون اس دہر میں تنہا نہیں ہے


ہجر کا تجھ کو ہے شکوہ تو نے

معنیٔ عشق کو سمجھا نہیں ہے


گم ہوئے کتنے ہی بے نام شہید

جن کا تاریخ میں چرچا نہیں ہے


تو ہے بیگانہ تو کیا تجھ سے گلہ

کوئی دنیا میں کسی کا نہیں ہے


کر گئے خوف خزاں سے ہجرت

پیڑ پر کوئی پرندہ نہیں ہے


زیست میں ہم نے بچا کر کچھ وقت

کبھی اپنے لئے رکھا نہیں ہے


ہم ہیں اس عہد میں زندہ جس کا

جسم ہی جسم ہے چہرہ نہیں ہے


تم نہ ہو گے تو جئیں گے کیسے

ابھی اس بارے میں سوچا نہیں ہے


کیسی محفل یہ سجی ہے نازشؔ

کوئی بھی میرا شناسا نہیں ہے


نسیم نازش


جعفر بلرامپوری

 تجربہ زندگی میں اک ایسا ہوا

مفلسی میں نہ کوئی بھی اپنا ہوا


رنج و غم حال دل اب سناؤں کسے

مطلبی دور ہے کون کس کا ہوا


کہہ رہے دل درختوں کے روکر یہی

جس کو سایہ دیا وہ نہ میرا ہوا


رشتے انمول ہیں پر حقیقت ہے یہ

ہر کسی کو یہاں پیارا پیسہ ہوا


زخ پہ پردہ نہیں ماسک لازم ہے اب

فیصلہ دیکھو جعفر یہ کیسا ہوا


جعفر بلرامپوری


شمشاد شاد

 شفقتوں کا کہاں دنیا میں رہا مول کہ اب

باپ سے بیٹا دعائیں نہیں دھن مانگے ہے

شمشاد شاؔد


شہاب الدین شاہ قنوجی

 جاکے مریخ پہ رہنے کی نہ تیاری کر

اپنی دنیا میں فقط اور شجرکاری کر


باغ پھولوں سے بھرے دل ہو محبت سے بھرا

اپنی دنیا میں حسیں اور یہ گل کاری کر


دل کی مٹی تو ہے زرخیز اگا لے سبزا

اپنی آنکھوں کی نمی کو ہی فقط کھاری کر


عشق فطرت ہے ہماری یہی منصب اے شاہ

اب زمیں پر نہ کہیں اور تو بمباری کر


شہاب الدین شاہ قنوجی


احیاء بھوجپوری

 یوم پیدائش 20 جون


ہاتھوں کی لکیروں کا لکھا کاٹ رہے ہیں

ہم اپنے گناہوں کی سزا کاٹ رہے ہیں


مٹتی نہیں تاریخ سے کوئی بھی عبارت

تاریخ لکھے گی کہ لکھا کاٹ رہے ہیں


ہے آج کی فصلوں میں عداوت ہی عداوت

کیا بویا تھا ہم نے یہاں کیا کاٹ رہے ہیں


ہم پھول ہیں مہکیں گے جدھر جائیں گے لیکن

اس باغ میں رہنے کی سزا کاٹ رہے ہیں


گاتے تھے کبھی وہ بھی محبت کے ترانے

موقع جو ملا ہے تو گلا کاٹ رہے ہیں


آسان بنانا ہے محبت کی ڈگر کو

چن چن کے سو ہم لفظ وفا کاٹ رہے ہیں


احیاء بھوجپوری


ارشد غازی

 یوم پیدائش 19 جون 1958


وہ خود سری ہے نگاہوں سے التجا نہ ہوئی

کہ ہم سے رسمِ جہاں آج تک ادا نہ ہوئی


یہ انتہا پہ بنی اور انتہا نہ ہوئی

کہ اب کی بار بھی دنیا کی ابتدا نہ ہوئی


سدا دیا مجھے طوفاں کی موج نے ساحل

شکستہ ناؤ مری صرفِ ناخدا نہ ہوئی


اِسے نہ شکوہ سمجھ ! سادہ زندگی میری

ہزار بار ملی اور آشنا نہ ہوئی


ابھی ملے بھی نہیں تھے کہ وہ بچھڑ بھی گئے

کسی فسانے کی یہ کوئی ابتدا نہ ہوئی


کہا کہ جا ترا دنیا میں اب نہیں حصہ

مرے عمل کی مگر یہ کوئی جزا نہ ہوئی


سمجھ سکا نہ مقرر دلوں کے بھید وہاں

کہ مدتوں سے لگی بھیڑ ہمنوا نہ ہوئی


مزہ تو جب ہے تری فکرِ بازگشت بنے

جو لوٹ کر نہیں آئے تو وہ صدا نہ ہوئی


بس اتنی بات پہ محشر میں تھے سوال و جواب

جو میں پکارا کہ مجھ سے کوئی خطا نہ ہوئی


ارشد غازی


مرزا راحل

 یوم پیدائش 19 جون


محاذ عشق پہ نکلے تو تین تھے ہم لوگ

بہت غریب تھے لیکن امین تھے ہم لوگ 


ہوئے جوان تو قبروں سے یہ صدا آئی

ذرا سنبھل کے یہیں کے مکین تھے ہم لوگ


تمہارے ساتھ تعلق میں خود کو کھو بیٹھے 

کہ اس سے پہلے بہت ہی ذہین تھے ہم لوگ


حسین شخص کو اتنا بتا دیا جائے

ترے ظہور سے پہلے حسین تھے ہم لوگ 


ہمیں وہ حسبِ ضرورت ہی پاس رکھتا تھا 

کہ اس کے واسطے جیسے مشین تھے ہم لوگ


مرزا راحل


ادیب سہیل

 یوم پیدائش 18 جون 1927


پیچ و خم وقت نے سو طرح ابھارے لوگو

کاکل زیست مگر ہم نے سنوارے لوگو


اپنے سائے سے تمہیں آپ ہے دہشت زدگی

تم ہو کس مصلحت وقت کے مارے لوگو


ہم سفر کس کو کہیں کس کو سنائیں غم دل

پنبہ در گوش ہوئے سارے سہارے لوگو


ضربت سنگ بنے اپنی صدا کے غنچے

گنبد جہد میں ہم جب بھی پکارے لوگو


مجھ سے تم دور بھی رہ کر ہو رگ جاں سے قریب

مرے نادیدہ رفیقو مرے پیارے لوگو


ادیب سہیل 


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...