Urdu Deccan

Thursday, June 24, 2021

جوہر علی ذیشان

 یوم پیدائش 23 جون


دل میں اٹھتے ہوئے جذبات کا چرچا ہوگا

میری الجھی سی حکایات کا چرچا ہوگا 


ایک دن دیکھنا ہرشخص کی باتوں میں فقط 

حسنِ جاناں کے کمالات کا چرچا ہوگا 


آج تو بات مری لگتی ہے دیوانوں سی 

ایک دن میری کہی بات کا چرچا ہوگا 


آپ کے آنے پہ گم ہوگئے تھے ہوش مرے 

کب خبر تھی کہ ملاقات کا چرچا ہوگا


بات آنکھوں سے بیاں ہوگی مگرمحفل میں 

سارے خاموش سوالات کا چرچا ہوگا


ہم نے ذیشن زمانے کو کہاں سمجھا ہے 

روزو شب گردشِ حالات کا چرچا ہوگا 


  جوہر علی ذیشان


قمر آسی

 یوم پیدائش 23 جون 1987


کہتی ہے تیری اتنی کمائی نہیں اگر

کنگن دلا سنہری ، طلائی نہیں اگر


کچھ تو قصور اس میں ہے رخسار یار کا

کیوں گر پڑا ہے دل وہاں کھائی نہیں اگر


سمجھے ہیں میرے یار گنہگار کیوں مجھے

کرتا ہوں پیش اپنی صفائی نہیں اگر


کیوں دل دھڑک رہا ہے مرا تیری آنکھ میں

تسکین اس کی تو نے چرائی نہیں اگر


چہرے پہ اپنے کوفت، جبیں پر شکن دکھا

تجھ کو پسند شوخ نوائی نہیں اگر


تسلیم کر کہ ہجر پہ راضی نہیں خدا

تیری ٹرین وقت پہ آئی نہیں اگر


کھلتی حلاوت لب جانان کس طرح

ہوتی مری گلی میں لڑائی نہیں اگر


قمر آسی


عنبرین حسیب عنبر

 یوم پیدائش 23 جون 1981


زندگی بھر ایک ہی کار ہنر کرتے رہے

اک گھروندا ریت کا تھا جس کو گھر کرتے رہے


ہم کو بھی معلوم تھا انجام کیا ہوگا مگر

شہر کوفہ کی طرف ہم بھی سفر کرتے رہے


اڑ گئے سارے پرندے موسموں کی چاہ میں

انتظار ان کا مگر بوڑھے شجر کرتے رہے


یوں تو ہم بھی کون سا زندہ رہے اس شہر میں

زندہ ہونے کی اداکاری مگر کرتے رہے


آنکھ رہ تکتی رہی دل اس کو سمجھاتا رہا

اپنا اپنا کام دونوں عمر بھر کرتے رہے


اک نہیں کا خوف تھا سو ہم نے پوچھا ہی نہیں

یاد کیا ہم کو بھی وہ دیوار و در کرتے رہے


عنبرین حسیب عنبر


عرفان احمد میر بالغ

 یوم پیدائش 22 جون 1977


زندگی تیری طلب تھی تو زمانے دیکھے

مرتے مرتے کئی جینے کے بہانے دیکھے


حوصلہ تھا یا کرم ہو کہ وفاداری ہو

ہم نے الفت میں کئی خواب سہانے دیکھے


آنکھ سے جاری رہا اشکوں کا بہنا کیونکر

غم نے ٹھکرایا تو پھر زخم پرانے دیکھے


زخم پر زخم لگانے کی نہ عادت تھی اسے

میرے قاتل نے نئے روز نشانے دیکھے


آپ کا جرم نہیں ہم ہی خطا کر بیٹھے

دل نے بس چاہا تمہیں غم نے ٹھکانے دیکھے


ہم پہ الفت کی ہوئی ایسی عطائیں بالغؔ

جس طرف ڈھونڈ لئے غم کے خزانے دیکھے


عرفان احمد میر بالغ


نعیم ضرار

 یوم پیدائش 22 جون 1965


منزل ہے تو اک رستۂ دشوار میں گم ہے 

رستہ ہے تو پیچ و خم دل دار میں گم ہے 


جس دین سے ملتا تھا خدا خانۂ دل میں 

ملا کے سجائے ہوئے بازار میں گم ہے 


اجزائے سفر ورطۂ حیرت میں پڑے ہیں 

رفتار ابھی صاحب رفتار میں گم ہے 


سائل ہیں کہ امڈے ہی چلے آتے ہیں پیہم 

وہ شوخ مگر اپنے ہی دیدار میں گم ہے 


وہ حسن یگانہ ہے کوئی شہر طلسمات 

ہر شخص جہاں رستوں کے اسرار میں گم ہے 


اشخاص کے جنگل میں کھڑا سوچ رہا ہوں 

اک نخل تمنا انہی اشجار میں گم ہے 


یا حسن ہے ناواقف پندار محبت 

یا عشق ہی آسانیٔ اطوار میں گم ہے 


اے کاش سمجھتا کوئی پس منظر پیغام 

دنیا ہے کہ پیرایۂ اظہار میں گم ہے


نعیم ضرار 


عمران حسین پاشا

 یوم پیدائش 22 جون 1977


اس کی یادوں میں جی لیاجائے

غم کی راتوں میں جی لیا جائے


خود کو کرکے سپرد ساجن کے

سرد راتوں میں جی لیا جائے


وصل تیرا اگر میسر ہو

حسیں لمحوں میں جی لیا جائے


خود کو کرکے فنا محبت میں

عشق راہوں میں جی لیا جائے


دل میں اب پال کر جدائی کا غم

ٹھنڈی آہوں میں جی لیا جائے


عمران حسین پاشا


وقار انبالوی

 یوم پیدائش 22 جون 1896


پوچھوں گا راہِ عشق میں کیوں راہ بر کو میں​

اتنا بھی کیا گراؤں گا ذوقِ نظر کو میں​

ہر ایک نقش پا پہ جھکاؤں گا سر کو میں​

سجدے کیا کروں گا تری رہگُذر کو میں​

اُمید و یاس لاکھ دوراہے پہ مجھ کو لائے​

میں جانتا ہوں خوب کہ جاؤں کدھر کو میں​

دردِ جگر کی ختم ہوئیں آزمائشیں​

اب آزماؤں گا تری ترچھی نظر کو میں​

ذوقِ طلب نے کر دیا آوارہء جنوں​

منزل پہ آکے بھول گیا اپنے گھر کو میں​

یوں جام ماہتاب سے ساقی پلا مجھے​

دیکھوں نہ آنکھ بھر کے طلسمِ سحر کو میں​


وقار انبالوی


جاذب قریشی

 انا الیہ وانا الیہ راجعون


یوم وفات 22 جون 2021

یوم پیدائش 03 آگسٹ 1940


اس کا لہجہ کتاب جیسا ہے

اور وہ خود گلاب جیسا ہے 


دھوپ ہو چاندنی ہو بارش ہو

ایک چہرہ کہ خواب جیسا ہے 


بے ہنر شہرتوں کے جنگل میں

سنگ بھی آفتاب جیسا ہے 


بھول جاؤ گے خال و خد اپنے

آئنہ بھی سراب جیسا ہے 


وصل کے رنگ بھی بدلتے تھے

ہجر بھی انقلاب جیسا ہے 


یاد رکھنا بھی تجھ کو سہل نہ تھا

بھولنا بھی عذاب جیسا ہے 


بے ستارہ ہے آسماں تجھ بن

اور سمندر سراب جیسا ہے


جاذب قریشی


علی احمد جلیلی

 یوم پیدائش 22 جون 1921


غم سے منسوب کروں درد کا رشتہ دے دوں

زندگی آ تجھے جینے کا سلیقہ دے دوں


بے چراغی یہ تری شام غریباں کب تک

چل تجھے جلتے مکانوں کا اجالا دے دوں


زندگی اب تو یہی شکل ہے سمجھوتے کی

دور ہٹ جاؤں تری راہ سے رستا دے دوں


تشنگی تجھ کو بجھانا مجھے منظور نہیں

ورنہ قطرہ کی ہے کیا بات میں دریا دے دوں


لی ہے انگڑائی تو پھر ہاتھ اٹھا کر رکھیے

ٹھہریے میں اسے لفظوں کا لبادہ دے دوں


اے مرے فن تجھے تکمیل کو پہنچانا ہے

آ تجھے خون کا میں آخری قطرہ دے دوں


سورج آ جائے کسی دن جو میرے ہاتھ علیؔ

گھونٹ دوں رات کا دم سب کو اجالا دے دوں


علی احمد جلیلی


آفتاب قابل

 وہ تھے جب تک تھیں گلستاں آنکھیں

وہ نہیں ہیں تو ہیں خزاں آنکھیں


کاش ہوتیں جو مہرباں آنکھیں

کیوں بھٹکتیں یہاں وہاں آنکھیں


جب سے بچھڑی وہ بدگماں آنکھیں

خون روتی ہیں ناگہاں آنکھیں


وہ تو کہیئے لگا لیا چشمہ

ورنہ کہہ دیتیں داستاں آنکھیں


ہوش میں رہیئے اب جناب دل

ہوگئی ہیں وہ اب جواں آنکھیں


دوستوں! ایک اجنبی کے طفیل

بن گئیں غم کی داستاں آنکھیں


ہر قدم تم سنبھال کر رکھنا

ہر قدم لیں گی امتحاں آنکھیں


تم کھلونا ہو میری ہستی کا

تم سے ہوں ، اور بدگماں آنکھیں


رہ گزار وفا پہ چلتے ہوئے

ہوگئیں گرد کارواں آنکھیں


ہو کوئی غم گسار تو پوچھے

کس لئے ہیں دھواں دھواں آنکھیں


اُٹھ گناہوں پہ گریہ زاری کر

اس سے پہلے ہو رائیگاں آنکھیں


جو زباں سے کبھی نہیں نکلا

کر گئیں راز وہ بیاں آنکھیں


اب نہیں حال زار پر میرے

تیری پہلی سی مہرباں آنکھیں


آنکھیں آنکھوں سے بات کرتی ہیں

ہیں دلوں کی بھی ہم زباں آنکھیں


وار کرتی ہیں دل پہ یہ قابل

چھوڑتی ہیں کہاں نشاں آنکھیں


آفتاب قابل


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...