Urdu Deccan

Wednesday, June 30, 2021

ظہور احمد

 یوم پیدائش 30 جون

 

اپنے آئینہء احساس میں دیکھو مجھ کو

مجھ کو محسوس کرو مجھ سے نہ پوچھو مجھ کو


اک تبسم کے عوض جان بھی حاضر ہے مگر

اتنا ارزاں بھی نہیں ہوں کہ خریدو مجھ کو


رک گئے کیوں حد ادراک سے آگے جا کر

منظر دیدہء حیرت سے پکارو مجھ کو


قید گل سے بھی نکل جاوں گا خوشبو کی طرح

تم نہ بھنورے کی طرح پھول میں ڈھونڈو مجھ کو


میں بھی بکھرا ہوں کسی زلف پریشاں کی طرح

اپنے ہاتھوں سے کوئ آ کے سنوارو مجھ کو


ظہور احمد


فرخ نواز فرخ

 نہیں ہے پاس مگر تو دکھائی دیتا ہے

ترا خیال مجھے کب رہائی دیتا ہے


ترے لبوں سے ادا ہو اگر کوئی جملہ

مجھے وہ شعر کی صورت سنائی دیتا ہے


مرا گمان بدل جاتا ہے حقیقت میں

بغیر پوچھے جب اپنی صفائی دیتا ہے


گھٹا بھی دے یہ جدائی کا بے ثمر موسم

بھلا تو کیوں مجھے زخم جدائی دیتا ہے


قریب آ کے فقط ایک فکر لاحق ہے

وہ دل تک اپنے مجھے کب رسائی دیتا ہے


مرے رفیق مرے غم گسار تو ہی بتا

ہر ایک چہرے میں وہ کیوں دکھائی دیتا ہے


مری کتاب کی کوئی غزل اٹھا لے تو

ہر ایک شعر کا مصرع دہائی دیتا ہے


جو میری مانے تو فرخؔ اسے بھلا دے اب

وفا کے بدلے میں جو بے وفائی دیتا ہے 


فرخ نواز فرخ


کرار نوری

 یوم پیدائش 30 جون 1916


ہر گام تجربات کے پہلو بدل گئے

لوگوں کو آزما کے ہم آگے نکل گئے


ہم کو تو ایک لمحہ خوشی کا نہ مل سکا

کیا لوگ تھے جو زیست کے سانچے میں ڈھل گئے


کیا کیا تغیرات نے دنیا دکھائی ہے

محسوس یہ ہوا کہ بس اب کے سنبھل گئے


ہم زندگی کی جہد مسلسل کے واسطے

موجوں کی طرح سینۂ طوفاں میں ڈھل گئے


جب بھی کوئی فریب دیا اہل دہر نے

ہم اک نظر شناس کوئی چال چل گئے


حاوی ہوئے فسانے حقیقت پہ اس طرح

تاریخ زندگی کے حوالے بدل گئے


ہم نے لچک نہ کھائی زمانے کی ضرب سے

گو حادثات دہر کی رو میں کچل گئے


نوریؔ کبھی جو یاس نے ٹوکا ہمیں کہیں

ہم دامن حیات پکڑ کر مچل گئے


کرار نوری


خالق اخلاق

 یوم پیدائش 30 جون 


شفق ستارے دھنک کہکشاں بناتے ہوئے

وہ اس زمیں پہ ملا آسماں بناتے ہوئے


بھٹک نہ جائیں مرے بعد آنے والے لوگ

میں چل رہا ہوں زمیں پر نشاں بناتے ہوئے


چلو اب ان کی بھی بستی میں پھول بانٹ آئیں

جو تھک چکے ہیں یہ تیر و کماں بناتے ہوئے


مرے وجود کی رسوائیو تمہاری قسم

ہے دل میں خوف پھر اک رازداں بناتے ہوئے


جلائے ہاتھ تحفظ میں ورنہ آندھی سے

چراغ بجھ گیا ہوتا دھواں بناتے ہوئے


پڑا ہوا ہے وہ تاریکیوں کے ملبے میں

خیال و خواب میں اک کہکشاں بناتے ہوئے


یہی ہو اجر مرے کار خیر کا شاید

اکیلا رہ گیا خود کارواں بناتے ہوئے


زمیں پہ بیٹھ گیا تھک کے دو گھڑی خالدؔ

امیر لوگوں کی وہ کرسیاں بناتے ہیں


خالد اخلاق


Tuesday, June 29, 2021

روبن سن روبی

 یوم پیدائش 29 جون 1998


میں جدھر جاؤں کرتے جاتے ہیں

میری راہوں میں روشنی آنسو


چار چیزیں ہیں میرا سرمایہ

خامشی ، درد ، بے بسی آنسو


عشق آنکھوں کو نور دیتا ہے

اور دیتی ہے دل لگی آنسو


وہ کہاں راستہ بھٹکتے ہیں 

جن کی کرتے ہیں رہبری آنسو


تُو چلا ہے تو گِر کے پلکوں سے

کر گیا آج خودکشی آنسو


چاہتا ہوں خوشی کا کہلائے

ہے مِرے پاس آخری آنسو


روبن سن روبی


عامر زمان خان

 یوم پیدائش 29 جون 1969


لا شعوری سلسلوں کے درمیاں تھی زندگی

اِس مکاں سے اُس مکاں تک لامکاں تھی زندگی


ڈھونڈنے نکلوں گا اپنے آپ کو میں ایک دن

لا کے پھر رکھوں گا میں پہلے جہاں تھی زندگی


تیغ قاتل اب بنی ہے پہلے تو ایسی نہ تھی

آپ سے پہلے تو ہم پہ مہرباں تھی زندگی


 خان عامر


مجید امجد

 یوم پیدائش 29 جون 1914


دل سے ہر گزری بات گزری ہے

کس قیامت کی رات گزری ہے


چاندنی نیم وا دریچہ سکوت

آنکھوں آنکھوں میں رات گزری ہے


ہائے وہ لوگ خوب صورت لوگ

جن کی دھن میں حیات گزری ہے


تمتماتا ہے چہرۂ ایام

دل پہ کیا واردات گزری ہے


کسی بھٹکے ہوئے خیال کی موج

کتنی یادوں کے سات گزری ہے


پھر کوئی آس لڑکھڑائی ہے

کہ نسیم حیات گزری ہے


بجھتے جاتے ہیں دکھتی پلکوں پہ دیپ

نیند آئی ہے رات گزری ہے


مجید امجد


رانا غلام محی الدین

 یوم پیدائش 29 جون 1950


رفاقتوں کی نئی مسندِ سعید پہ ہوں

میں کچھ دنوں سے، کسی کی صوابدید پہ ہوں


معاملہ ہی نہیں تجھ سے ، بھاؤ تاؤ کا 

ترے لئے تو ، اسی قیمتِ خرید پہ ہوں


بضد ہے وہ کہ قناعت ہو ، اک نگہ پر ہی 

پہ میں بھی میں ہوں ، ابھی لغزشِ مزید پہ ہوں


مجھے وہ ساعتِ موجود پر نہیں درکار

اسے یہ رنج ، کہ میں عرصہء بعید پہ ہوں 


ابھی وہ لمحہءِ روئیدگی نہیں آیا

ابھی میں موسمِ سر سبز کی نوید پہ ہوں


میں پیار تھا ، جو کہیں نفرتوں میں مارا گیا

تو پھر یہ کیوں نہ کہوں، رتبہء شہید پہ ہوں


رانا غلام محی الدین


آصفہ نشاط

 دریافت کر لیا ہے بسایا نہیں مجھے

سامان رکھ دیا ہے سجایا نہیں مجھے


کیسا عجیب شخص ہے اٹھ کر چلا گیا

برباد ہو گیا تو بتایا نہیں مجھے


وہ میرے خواب لے کے سرہانے کھڑا رہا 

میں سو رہی تھی اس نے جگایا نہیں مجھے


بازی تو اس کے ہاتھ تھی پھر بھی نہ جانے کیوں

مہرہ سمجھ کے اس نے بڑھایا نہیں مجھے


اس نے ہزار عہد محبت کے باوجود

جو راز پوچھتی ہوں بتایا نہیں مجھے


وہ انتہائے شوق تھی یا انتہائے ضبط

تنہائی میں بھی ہاتھ لگایا نہیں مجھے


آصفہ نشاط


آصف شہزاد

 یوم پیدائش 26 جون 1980


مرے گیتوں سے رونے کی صدا آتی رہی پیہم

مرے زخموں کو سہلانے صبا آتی رہی پیہم


ہمیں اپنے گناہوں کی سزا ملتی رہی پیہم

ہمیں بیدار کرنے کو ہوا آتی رہی پیہم


کوئی قاسم ، کوئی خالد ، کوئی طارق نہیں ہم میں

خود اپنے آپ پر ہم کو حیا آتی رہی پیہم


تسلط غیر کا قصہ یہ سن کر ساری دنیا میں

مرے اشکوں کی آہوں کی صدا آتی رہی پیہم


گلے کٹتے رہے نیزے پہ سر چڑھتے رہے لیکن

زبانوں سے صداۓ لا اللہ آتی رہی پیہم


سیاست ہو رہی ہے آج کل بچوں کی لاشوں پر

ہمارے ساتھ ان کی بد دعا آتی رہی پیہم


مری چیخیں مرے اندر ہی گھٹ کے مر گئیں آخر

مجھے ہی لوٹ کر میری صدا آتی رہی پیم


غزل میں ڈھل گیا شہراد کا دکھ آج پھر یارو

مکاں سے اس کے غزلوں کی صدا آتی رہی پیم


آصف شہزاد


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...