Urdu Deccan

Tuesday, July 6, 2021

نزاکت امروہوی

 یوم پیدائش 01 جولائی 1982


میں ڈھونڈتا ہوں اس کو مگر مل نہیں رہا 

پہلو میں میرے سب ہے مگر دل نہیں رہا 


مرجھا گیا ہے آپ کے جانے سے جو صنم 

غنچہ ہمارے دل کا وہی کھل نہیں رہا


وہ حادثے بھی مجھ ہی سے منسوب ہو گئے 

جن حادثوں میں میں کبھی شامل نہیں رہا 


دیکھا ہے آسماں پہ بڑی دیر تک اسے 

تارا میرے نصیب کا پر مل نہیں رہا 


نزاکت امروہوی


حیدر بیابانی

 یوم پیدائش 01 جولائی 1948


سچے کی ہو جے جے کار

جھوٹے کا جیون بے کار


ڈولے ڈگ مگ جھوٹ کی ناؤ

سچائی کا بیڑا پار


نقلی سکہ چل نہ پائے

اصلی کی گھر گھر جھنکار


مشکل پیدا کر دے جھوٹ

سچ ڈھ جائے ہر دیوار


سچ ہے ننھا منا پھول

جھوٹ ہے چبھنے والا خار


جھوٹی بات سے بدبو آئے

سچی بات ہے خوشبو دار


سچ سچائی پر مٹ جائے

ہر پیغمبر ہر اوتار


حیدر بیابانی


احمد ہمیش

 یوم پیدائش 01 جولائی 1931


آہ بے اثر نکلی نالہ نارسا نکلا

اک خدا پہ تکیہ تھا وہ بھی آپ کا نکلا


کاش وہ مریض غم یہ بھی دیکھتا عالم 

چارہ گر یہ کیا گزری درد جب دوا نکلا


اہل خیر ڈوبے تھے نیکیوں کی مستی میں

جو خراب صہبا تھا بس وہ پارسا نکلا


خضر جان کر ہم نے جس سے راہ پوچھی تھی

آ کے بیچ جنگل میں کیا بتائیں کیا نکلا


گر گیا اندھیرے میں تیرے مہر کا سورج

درد کے سمندر سے چاند یاد کا نکلا


عشق کیا ہوس کیا ہے بندش نفس کیا ہے

سب سمجھ میں آیا ہے تو جو بے وفا نکلا


جس نے دی صدا تم کو شمع بن کے ظلمت میں

رہ گزیدگاں دیکھو کس کا نقش پا نکلا


اک نوائے رفتہ کی بازگشت تھی قیسیؔ

دل جسے سمجھتے تھے دشت بے صدا نکلا


عزیز قیسی


عزیز قیسی

 یوم پیدائش 01 جولائی 1931


آہ بے اثر نکلی نالہ نارسا نکلا

اک خدا پہ تکیہ تھا وہ بھی آپ کا نکلا


کاش وہ مریض غم یہ بھی دیکھتا عالم 

چارہ گر یہ کیا گزری درد جب دوا نکلا


اہل خیر ڈوبے تھے نیکیوں کی مستی میں

جو خراب صہبا تھا بس وہ پارسا نکلا


خضر جان کر ہم نے جس سے راہ پوچھی تھی

آ کے بیچ جنگل میں کیا بتائیں کیا نکلا


گر گیا اندھیرے میں تیرے مہر کا سورج

درد کے سمندر سے چاند یاد کا نکلا


عشق کیا ہوس کیا ہے بندش نفس کیا ہے

سب سمجھ میں آیا ہے تو جو بے وفا نکلا


جس نے دی صدا تم کو شمع بن کے ظلمت میں

رہ گزیدگاں دیکھو کس کا نقش پا نکلا


اک نوائے رفتہ کی بازگشت تھی قیسیؔ

دل جسے سمجھتے تھے دشت بے صدا نکلا


عزیز قیسی


نعمان شوق

 یوم پیدائش 02 جولائی 1965


قاعدے بازار کے اس بار الٹے ہو گئے

آپ تو آئے نہیں پر پھول مہنگے ہو گئے


ایک دن دونوں نے اپنی ہار مانی ایک ساتھ

ایک دن جس سے جھگڑتے تھے اسی کے ہو گئے


مجھ کو اس حسن نظر کی داد ملنی چاہئے

پہلے سے اچھے تھے جو کچھ اور اچھے ہو گئے


مدتوں سے ہم نے کوئی خواب بھی دیکھا نہیں

مدتوں اک شخص کو جی بھر کے دیکھے ہو گئے


بس ترے آنے کی اک افواہ کا ایسا اثر

کیسے کیسے لوگ تھے بیمار اچھے ہو گئے


نعمان شوق


عبداللہ خالد

 یوم پیدائش 02 جولائی 1978


اپنوں کے درمیاں ہے مگر بے امان سا

دل بھی ستم رسیدہ ہے ہندوستان سا


نامہرباں ہے وقت مگر ایک مہرباں

سایہ فگن ہے سر پہ مرے آسمان سا


اغیارتنگ دل ہیں تو اپنے منافقین

میرا بھی حالِ زار ہے اردو زبان سا


محتاط قربتوں کا مزہ ہی عجیب ہے

میں خوش گمان سا ہوں نہ تُو بدگمان سا


سیلِ شکستِ خواب گزر تو گیا مگر

آنکھوں میں رہ گیا ہے لہو کا نشان سا


اپنا سفر ہواؤں کے رحم و کرم پہ ہے

ہستی سفینہ رنگ ہے تن بادبان سا


اِس دور میں سکون و قرار و قیامِ امن

خالد مجھے تو لگتا ہے وہم وگمان سا


عبداللہ خالد 


عباس علی خاں بیخود

 یوم پیدائش 02 جولائی 1906


غیر کے ساتھ کبھی ذکر ہمارا نہ کریں

ہم کو بد نام کریں عشق کو رسوا نہ کریں


دل یہ کہتا ہے مقدر ہے پریشاں رہنا

عقل کہتی ہے کہ ہم زلف کا سودا نہ کریں


کیا ضرورت ہے بلا ان کی سنوارے گیسو

اک نظر دیکھ لیں جس کو اسے دیوانہ کریں


کیا نہیں جانتے ہم رنگ تلون ان کا

مہرباں پائیں بھی تو عرض تمنا نہ کریں


بیخودؔ زار کو اب دیکھ کے جھک جاتی ہیں

وہ نگاہیں جو کبھی پاس کسی کا نہ کریں


عباس علی خاں بیخود


ضمیر احمد ضمیر

 یوم پیدائش 01 جولائی


واسطہ دیتے رہو لاکھ شناسائی کا

بھیڑ کردار نبھائے گی تماشائی کا


مجھ کو پایاب سمجھنے کی حماقت مت کر

تجھ کو اندازہ نہیں ہے مری گہرائی کا


بھائی! میں جیت گیا پھر بھی پشیماں ہوں بہت

دیکھ سکتا نہیں منظر تری پسپائی کا


فیصلے سارے لکھے جا چکے تھے پہلے ہی

منصفو ! تم نے ڈرامہ کیا سنوائی کا


جسم تھا یا گلِ لالہ کی لچکتی ڈالی

ذہن پر نقش ہے نقشہ تری انگڑائی کا


قلبِ شاعر پہ غزل جیسے کوئی نازل ہو

یوں خیال آئے کسی پیکرِ رعنائی کا


ضمیر احمد ضمیر


خمار دہلوی

 یوم پیدائش 01 جولائی 1960


فصل نفرت کی اگائی جس نے ہندوستان میں

ہم قصیدے لکھ نہیں سکتےہیں اسکی شان میں


رفتہ رفتہ بادِ صر صر نے سبھی جھلسا دئے

گُل کوئی پہلےکےجیسااب کہاں گِلدان میں


واسطہ اردو سے کوئی ہے نہ ہے تہذیب سے

آ گئے ہیں کیسے کیسے لوگ ادبستان میں 


 ان کا صدقہ ہی میسّر ہو مرے اشعار کو

خوبیاں ہیں جو کلامِ حضرتِ حسّان میں


زندہ و جاوید ازل سے ہیں فقیرانِ جہاں

کھو گئے جبکہ امیرِ وقت قبرستان میں


آ گیا جس وقت اس کا حجرہءِ دل میں خیال

مشک و عنبر سی مہک محسوس کی لوبان میں


تھا امیرِ شہر کو گھیرے مُصاحب کا ہجوم

مرگئی گھٹ کے صدا لاچار کی ایوان میں


آپ میری زندگی میں آ گئے تو یوں لگا

مل گئیں شبنم کی بوندیں گویاریگستان میں


جُوں نہیں کیوں رینگتی ہےباغباں کےکان پر

بلبلِ بے داد ہے نالا کناں بُستان میں


فصل توساری کی ساری قرض میں جاتی رہی

بے بسی آئی ہے ساری حصّہءِ دِہقان میں


ہم نئےشعراء سمجھتےتھےجنہیں انکے"خمار"

ہیں کئی اشعار شامل میر کے دیوان میں


 خمار دہلوی


سفر نقوی

 یوم پیدائش 01 جولائی 1998


چھا چکی ہے ہر طرف اب تیرگی سو جائیے

منہ چھپائے پھر رہی ہے روشنی سو جائیے


کیوں ابھی سے پھیرتے ہیں آپ ہونٹوں پر زباں

اور بڑھنے دیجیے کچھ تشنگی سو جائیے!!


منتظر ہے اتنا سننے کے لیے پلکوں پہ نیند

ہم بھی سونے جا رہے ہیں آپ بھی سو جائیے


جاگنے کی دیکھکر ایسی سزائیں الاماں

آدمی سے کہہ رہا ہے آدمی سو جائیے


اس سے پہلے ڈھونڈ لے وحشی زمانہ آپ کو

میری بانہوں میں سمٹ کر خامشی سو جائیے


کچھ بچا لیجے اب آنسو کل بھی رونے کے لیے

کل بھی ملنے آئینگے کچھ ماتمی سو جائیے


وہ کمال بندگی کی منزلت کا ہو سفر

خود خدا بولے ہوئی بس بندگی سو جائیے


سفر نقوی


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...