Urdu Deccan

Tuesday, July 6, 2021

زیب النساء زیبی

 یوم پیدائش 03 جولائی 1958


انسان کوئی بھی تو فرشتہ بنا نہیں

سچ پوچھیے تو کوئی یہاں بے خطا نہیں


 قإئم رہے جو توبہ پہ ساقی کے روبرو

 ایسا تو میکدے میں کوئی پارسا نہیں

 

 ہم ہیں قصور وار ہمیں اعتراف ہے

 تہمت لگانے والے بھی تو دیواتا نہیں

 

 وہ جس کو اپنے دل کا فسانہ سنا سکیں

 ہم کو تو ایسا شخص ابھی تک ملا نہیں

 

 چہرہ بدل بدل کے وہ آیا ہے بار بار

 لیکن کسی بھی چہرے میں مجھ سے چھپا نہیں

 

 وہ بے وفا تھا چھوڑ کے مجھ کو چلا گیا

 میں بھول جاؤں اس کو ، مگر بھولتا نہیں

 

 کشتی کو تونے چھوڑ دیا یوں ہی نا خدا

 کیا تو سمجھ رہا ہے ہمارا خدا نہیں

 

 اس کے قریب جاؤں تو ملتا نہیں ہے وہ 

 اور دور ہو بھی جاؤں تو مجھ سے جدا نہیں 

 

 زیبی رفیق ہوتے ہیں سب اچھے دور کے

 جب وقت ہو کڑا کوئی پہچانتا نہیں

 

 زیب النساء زیبی


کمار پاشی

 یوم پیدائش 03 جولائی 1935


ایک کہانی ختم ہوئی ہے ایک کہانی باقی ہے

میں بے شک مسمار ہوں لیکن میرا ثانی باقی ہے


دشت جنوں کی خاک اڑانے والوں کی ہمت دیکھو

ٹوٹ چکے ہیں اندر سے لیکن من مانی باقی ہے


ہاتھ مرے پتوار بنے ہیں اور لہریں کشتی میری

زور ہوا کا قائم ہے دریا کی روانی باقی ہے


گاہے گاہے اب بھی چلے جاتے ہیں ہم اس کوچے میں

ذہن بزرگی اوڑھ چکا دل کی نادانی باقی ہے


کچھ غزلیں ان زلفوں پر ہیں کچھ غزلیں ان آنکھوں پر

جانے والے دوست کی اب اک یہی نشانی باقی ہے


نئی نئی آوازیں ابھریں پاشیؔ اور پھر ڈوب گئیں

شہر سخن میں لیکن اک آواز پرانی باقی ہے


کمار پاشی


نائلہ راٹھور

 مجھے سمجھنے کا ہے جو دعویٰ تو یہ بتاؤ کہ کیا ہوا ہے

ہے آنکھ نم کیوں یہ دل ہے غمگیں فضا بھی جیسے خفا خفا ہے


ہے دل کا عالم دھواں دھواں سا پلک پلک پر ہیں خواب اٹکے 

یہ شام اتری ہے کیسی گھر میں دیا جلا ہے نہ در کھلا ہے


میں سر جھکائے کھڑی ہوں کب سے ہے دور تک بس وہی اندھیرا

مرا مقدر ہے یہ سیاہی نہ صبح جاگی نہ دن چڑھا ہے


یوں تم نہ حیرت سے مجھکو دیکھو یقین مانو کہ سچ یہی ہے

گیا جو اک بار کب ہے لوٹا یہی ہے دیکھا یہی سنا ہے


نہ راستوں پر گلاب مہکے نہ سایہ کرنے سحاب آئے

کہ یونہی کانٹوں پہ چلتے چلتے یہ زندگی کا سفر کٹا ہے


نبھانا رشتہ اسے بھی مشکل مرے بھی دل میں جگہ نہیں ہے

نہ فرقتوں میں کسک رہی ہے نہ قربتوں میں مزا رہا ہے


ہوانے دی تھی یہی بشارت گھڑی دعا کی یہی تھی شاید

ترے تسلط سے جان نکلی تو پھر ہی اذن سفر ملا ہے


نائلہ راٹھور


احمد سہیل

 یوم پیدائش 02 جولائی 1953


جلتا تھا رات ہی سے دل یاسمن تمام

رخصت تھی صبح تک یہ بہار چمن تمام


جذبہ یہ رشک کا ہے اے عشاق کش مجھے

بازار سے خرید لئے ہیں کفن تمام


دل جل رہا ہے وحشت یاد غزال سے

روشن ہیں اس چراغ سے دشت و دمن تمام


مدت سے ہیں پڑے ہوئے چوکھٹ پہ یار کی

پامال ہو چکے ہیں مرے روح و تن تمام


کمزور ہے بہت دل بے ساختہ مرا

اور شہر میں حکومت یک بت شکن تمام


قتل بہار ہو گیا پھولوں کے دیس میں

غنچوں نے چاک چاک کئے پیرہن تمام


کس کی شب سیاہ بجھی کوہ طور پر

کس آفتاب حشر پہ آیا گہن تمام


احمد سہیل


ساز دہلوی

 یوم پیدائش 03 جولائی 1945

انہونی ایسی ہو گئی اب کی بہار میں

 کانٹے ہی کانٹے پھوٹ پڑے لالہ زار میں

 

اچھّی کہی کہ چھوڑ دوں میں آپ کا خیال

 جیسے کہ میرا دل ہو مرے اختیار میں

 

اوّل محاذ قبر ہے پھر حشر پھر حساب

بیٹھی ہیں سب بلائیں مرے انتظار میں


جن کی ہزاروں سال کی لکھّی گئی سزا 

اتنے گناہ کر لئے ایّام چار میں ؟


گزری ہے آدھی عمر اسے ڈھونڈتے ہوئے

آدھی گزر ہی جائے گی قول وقرار میں


دل اس نے اصل زر کی ضمانت میں رکھ لیا

باقی ہے جسم جائے گا وہ بھی ادھار میں


انگلی پکڑ کے ساز ذرا ابتدا تو کر

پہنچا بھی ہاتھ آئے گا دو چار بار میں


ساز دہلوی


نزاکت امروہوی

 یوم پیدائش 01 جولائی 1982


میں ڈھونڈتا ہوں اس کو مگر مل نہیں رہا 

پہلو میں میرے سب ہے مگر دل نہیں رہا 


مرجھا گیا ہے آپ کے جانے سے جو صنم 

غنچہ ہمارے دل کا وہی کھل نہیں رہا


وہ حادثے بھی مجھ ہی سے منسوب ہو گئے 

جن حادثوں میں میں کبھی شامل نہیں رہا 


دیکھا ہے آسماں پہ بڑی دیر تک اسے 

تارا میرے نصیب کا پر مل نہیں رہا 


نزاکت امروہوی


حیدر بیابانی

 یوم پیدائش 01 جولائی 1948


سچے کی ہو جے جے کار

جھوٹے کا جیون بے کار


ڈولے ڈگ مگ جھوٹ کی ناؤ

سچائی کا بیڑا پار


نقلی سکہ چل نہ پائے

اصلی کی گھر گھر جھنکار


مشکل پیدا کر دے جھوٹ

سچ ڈھ جائے ہر دیوار


سچ ہے ننھا منا پھول

جھوٹ ہے چبھنے والا خار


جھوٹی بات سے بدبو آئے

سچی بات ہے خوشبو دار


سچ سچائی پر مٹ جائے

ہر پیغمبر ہر اوتار


حیدر بیابانی


احمد ہمیش

 یوم پیدائش 01 جولائی 1931


آہ بے اثر نکلی نالہ نارسا نکلا

اک خدا پہ تکیہ تھا وہ بھی آپ کا نکلا


کاش وہ مریض غم یہ بھی دیکھتا عالم 

چارہ گر یہ کیا گزری درد جب دوا نکلا


اہل خیر ڈوبے تھے نیکیوں کی مستی میں

جو خراب صہبا تھا بس وہ پارسا نکلا


خضر جان کر ہم نے جس سے راہ پوچھی تھی

آ کے بیچ جنگل میں کیا بتائیں کیا نکلا


گر گیا اندھیرے میں تیرے مہر کا سورج

درد کے سمندر سے چاند یاد کا نکلا


عشق کیا ہوس کیا ہے بندش نفس کیا ہے

سب سمجھ میں آیا ہے تو جو بے وفا نکلا


جس نے دی صدا تم کو شمع بن کے ظلمت میں

رہ گزیدگاں دیکھو کس کا نقش پا نکلا


اک نوائے رفتہ کی بازگشت تھی قیسیؔ

دل جسے سمجھتے تھے دشت بے صدا نکلا


عزیز قیسی


عزیز قیسی

 یوم پیدائش 01 جولائی 1931


آہ بے اثر نکلی نالہ نارسا نکلا

اک خدا پہ تکیہ تھا وہ بھی آپ کا نکلا


کاش وہ مریض غم یہ بھی دیکھتا عالم 

چارہ گر یہ کیا گزری درد جب دوا نکلا


اہل خیر ڈوبے تھے نیکیوں کی مستی میں

جو خراب صہبا تھا بس وہ پارسا نکلا


خضر جان کر ہم نے جس سے راہ پوچھی تھی

آ کے بیچ جنگل میں کیا بتائیں کیا نکلا


گر گیا اندھیرے میں تیرے مہر کا سورج

درد کے سمندر سے چاند یاد کا نکلا


عشق کیا ہوس کیا ہے بندش نفس کیا ہے

سب سمجھ میں آیا ہے تو جو بے وفا نکلا


جس نے دی صدا تم کو شمع بن کے ظلمت میں

رہ گزیدگاں دیکھو کس کا نقش پا نکلا


اک نوائے رفتہ کی بازگشت تھی قیسیؔ

دل جسے سمجھتے تھے دشت بے صدا نکلا


عزیز قیسی


نعمان شوق

 یوم پیدائش 02 جولائی 1965


قاعدے بازار کے اس بار الٹے ہو گئے

آپ تو آئے نہیں پر پھول مہنگے ہو گئے


ایک دن دونوں نے اپنی ہار مانی ایک ساتھ

ایک دن جس سے جھگڑتے تھے اسی کے ہو گئے


مجھ کو اس حسن نظر کی داد ملنی چاہئے

پہلے سے اچھے تھے جو کچھ اور اچھے ہو گئے


مدتوں سے ہم نے کوئی خواب بھی دیکھا نہیں

مدتوں اک شخص کو جی بھر کے دیکھے ہو گئے


بس ترے آنے کی اک افواہ کا ایسا اثر

کیسے کیسے لوگ تھے بیمار اچھے ہو گئے


نعمان شوق


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...