Urdu Deccan

Tuesday, July 6, 2021

عنبر بہرائچی

 یوم پیدائش 05 جولائی 1949


گلاب تھا نہ کنول پھر بدن وہ کیسا تھا

کہ جس کا لمس بہاروں میں رنگ بھرتا تھا


جہاں پہ سادہ دلی کے مکیں تھے کچھ پیکر

وہ جھونپڑا تھا مگر پر شکوہ کتنا تھا


مشام جاں سے گزرتی رہی ہے تازہ ہوا

ترا خیال کھلے آسمان جیسا تھا


اسی کے ہاتھ میں تمغے ہیں کل جو میداں میں

ہماری چھاؤں میں اپنا بچاؤ کرتا تھا


یہ سچ ہے رنگ بدلتا تھا وہ ہر اک لمحہ

مگر وہی تو بہت کامیاب چہرا تھا


ہر اک ندی سے کڑی پیاس لے کے وہ گزرا

یہ اور بات کہ وہ خود بھی ایک دریا تھا


وہ ایک جست میں نظروں سے دور تھا عنبرؔ

خلا میں صرف سنہرا غبار پھیلا تھا


عنبر بہرائچی


زرینہ ثانی

 یوم پیدائش 05 جولائی 1936


تو اپنے جیسا اچھوتا خیال دے مجھ کو

میں تیرا عکس ہوں اپنا جمال دے مجھ کو


میں ٹوٹ جاؤں گی لیکن نہ جھک سکوں گی کبھی

مجال ہے کسی پیکر میں ڈھال دے مجھ کو


میں اپنے دل سے مٹاؤں گی تیری یاد مگر

تو اپنے ذہن سے پہلے نکال دے مجھ کو


میں سنگ کوہ کی مانند ہوں نہ بکھروں گی

نہ ہو یقیں جو تجھے تو اچھال دے مجھ کو


خوشی خوشی بڑھوں کھو جاؤں تیری ہستی میں

انا کے خوف سے ثانیؔ نکال دے مجھ کو


زرینہ ثانی


سردار انجم

 یوم پیدائش 01 جولائی 1941


غم حیات کا جھگڑا مٹا رہا ہے کوئی

چلے بھی آؤ کہ دنیا سے جا رہا ہے کوئی


کہو اجل سے ذرا دو گھڑی ٹھہر جائے

سنا ہے آنے کا وعدہ نبھا رہا ہے کوئی


وہ آج لپٹے ہیں کس نازکی سے لاشے سے

کہ جیسے روٹھے ہوؤں کو منا رہا ہے کوئی


کہیں پلٹ کے نہ آ جائے سانس نبضوں میں

حسین ہاتھوں سے میت سجا رہا ہے کوئی


سردار انجم


جلی امروہوی

 یوم پیدائش 04 جولائی 1922


دل ہے وابستہ مرا حسرت ناکام کے ساتھ

تازہ ہو جاتے ہیں سب زخم ترے نام کے ساتھ


اس نے ہر حلق تمنا پہ چلایا خنجر

یوں ہے پیکار مری گردش ایام کے ساتھ


درد الفت مرا کرتا ہے ترنم ریزی

کرنیں رو رو کے گلے ملتی ہیں جب شام کے ساتھ


سنگ بن جاتا اگر میں بھی برائے عشرت

زندگی پھر تو گزرتی بڑے آرام کے ساتھ


ہر جہت سے رہا دنیا میں سراسر ناکام

جی رہا ہوں میں خوشی سے اسی الزام کے ساتھ


راہیٔ زیست اگر عزم سفر ہے پرجوش

پھر تو وابستہ ہے منزل ترے ہر گام کے ساتھ


یہ بنا دیتا ہے انساں کو مکمل پتھر

یوں رہی دہر میں نفرت مجھے آرام کے ساتھ


آتش غم نے تپا کر کیا کندن مجھ کو

اسی باعث تو جلیؔ عشق ہے آلام کے ساتھ


جلی امروہوی


صابر عثمانی

 یوم پیدائش 04 جولائی 1979


کچھ اس طرح سے تمہاری میں بات کاٹوں گا

بچھڑ کے تم سے اکیلے حیات کاٹوں گا


تمہارا نام نہ بدنام ہونے دونگا کبھی 

کرونگا چاک گریباں نہ ہاتھ کاٹوں گا

 

تم اپنے چاہنے والوں میں شاد شاد رہو

تمام عمر میں اب غم کے ساتھ کاٹوں گا


یہاں وہاں مری آوارگی پھرائے مجھے

پتہ نہیں ہے کہاں اب یہ رات کاٹوں گا


بدن سے روح نکلنے میں ہوگی جب تکلیف

وہ لمحہ کیسے میں وقتِ ممات کاٹوں گا


پہاڑ کاٹنے والے تو کب کا کاٹ چکے

ترے بغیر میں کوہِ حیات کاٹوں گا


مجھے پکارنے والے نہیں رہے صابر

سو اس کے شہر میں دن بےثبات کاٹوں گا


صابر عثمانی


ڈاکٹر وحید الحق

 یوم پیدائش 04 جولائی


وہ عندلیبِ شاخ گلستاں نہیں رہا

پھولوں پہ رنگ جشنِ بہاراں نہیں رہا


پرواز جس کی حدِ نظر سے بلند تھی

رشکِ چمن وہ رشکِ گلستاں نہیں رہا


لطف و کرم خلوص و محبت میں بے نظیر

تھا جس پہ جان و دل مرا قرباں نہیں رہا


روشن چراغِ علم و ہنر کر گیا مگر

وہ منتظم وہ ہادی و نگراں نہیں رہا


ماتم کناں ہیں شہر کے دیوار و در سبھی

وہ کیا گیا کہ درد کا درماں نہیں رہا


چپ چاپ جاکے شہرِ خموشاں میں سو گیا

بزمِ طرب میں نغمئہ خوباں نہیں رہا


رکھنا ذرا سنبھال کے اس کی نشانیاں

اب درمیاں وہ صاحبِ دوراں نہیں رہا


آئے ہیں در پہ مانگنے کاسے میں روشنی

کہہ دو ذرا چراغِ فروزاں نہیں رہا


ڈاکٹر وحید الحق


میر یٰسین علی خان

 یوم پیدائش 04 جولائی 1908


میں تم کو پوجتا رہا جب تک خودی میں تھا

اپنا ملا سراغ مجھے بے خودی کے بعد


کیا رسم احتیاط بھی دنیا سے اٹھ گئی

یہ سوچنا پڑا مجھے تیری ہنسی کے بعد


گھبرا کے مر نہ جائیے مرنے سے فائدہ

اک اور زندگی بھی ہے اس زندگی کے بعد


آئے ہیں اس جہاں میں تو جانا ضرور ہے

کوئی کسی سے پہلے تو کوئی کسی کے بعد


اے ابر نو بہار ٹھہر پی رہا ہوں میں

جانا برس کے خوب مری مے کشی کے بعد


مرتے تھے جس پہ ہم وہ فقط حسن ہی نہ تھا

یہ راز ہم پہ آج کھلا عاشقی کے بعد


اے موسم بہار ٹھہر آ رہا ہوں میں

دامان چاک چاک کی بخیہ گری کے بعد


میر یٰسین علی خاں


سلام ؔمچھلی شہری

 یوم پیدائش 01 جولائی 1921


کاش تم سمجھ سکتیں زندگی میں شاعر کی ایسے دن بھی آتے ہیں

جب اسی کے پروردہ چاند اس پہ ہنستے ہیں پھول مسکراتے ہیں


اب تو میرے شہ پارے جو تم ہی سے تھے منسوب یوں جھلک دکھاتے ہیں

دور ایک مندر میں کچھ دیے مرادوں کے جیسے جھلملاتے ہیں


تم نے کب یہ سمجھا تھا میں نے کب یہ سوچا تھا زندگی کی راہوں میں

چلتے چلتے دو راہی ایک موڑ پر آ کر خود ہی چھوٹ جاتے ہیں


کام حسن کاروں کا آنسوؤں کی ضو دے کر کچھ کنول کھلا دینا

موت حسن کاروں کی جب وہ خود شب غم میں یہ دیے بجھاتے ہیں


تیز تر ہوائیں ہیں موت کی فضائیں ہیں رات سرد و جامد ہے

احمریں ستارے بھی واقعی دوانے ہیں اب بھی مسکراتے ہیں


الوداع اے میری شاہکار نظموں کی زرنگار شہزادی

ماورائے الفت بھی کچھ نئے تقاضے ہیں جو مجھے بلاتے ہیں


سلام ؔمچھلی شہری


فضا ابن فیضی

 یوم پیدائش 01 جولائی 1923


آنکھوں کے خواب دل کی جوانی بھی لے گیا

وہ اپنے ساتھ میری کہانی بھی لے گیا


خم چم تمام اپنا بس اک اس کے دم سے تھا

وہ کیا گیا کہ آگ بھی پانی بھی لے گیا


ٹوٹا تعلقات کا آئینہ اس طرح

عکس نشاط لمحۂ فانی بھی لے گیا


کوچے میں ہجرتوں کے ہوں سب سے الگ تھلگ

بچھڑا وہ یوں کہ ربط مکانی بھی لے گیا


تھے سب اسی کے لمس سے جل تھل بنے ہوئے

دریا مڑا تو اپنی روانی بھی لے گیا


اب کیا کھلے گی منجمد الفاظ کی گرہ

وہ ہمت کشود معانی بھی لے گیا


سر جوشیٔ قلم کو فضاؔ چپ سی لگ گئی

وہ جاتے جاتے شعلہ بیانی بھی لے گیا


فضا ابن فیضی


محمد عبد الحمید صدیقی نظر لکھنوی

 یوم پیدائش 03 جولائی 1927


مسلماں دیکھ کر اب دل کی حیرانی نہیں جاتی

کجا سیرت کہ صورت تک بھی پہچانی نہیں جاتی


حدیث غم سنانے سے پریشانی نہیں جاتی

مگر کچھ لوگ ہیں جن کی یہ نادانی نہیں جاتی


جناب شیخ بول اٹھیں بہ ہر مبحث بہ ہر موقع

کہ ان کی خوئے‌ پندار ہمہ دانی نہیں جاتی


سنا سیل تمنا میں ہزاروں شہر دل ڈوبے

مگر پھر بھی تمناؤں کی طغیانی نہیں جاتی


سجایا ہم نے تصویر بتاں سے خانۂ دل کو

مگر با ایں ہمہ اس گھر کی ویرانی نہیں جاتی


محمد مصطفی کی شان رفعت کوئی کیا جانے

جہاں وہ ہیں وہاں تک فکر انسانی نہیں جاتی


کیا لوگوں نے گرد آلود کتنا چہرۂ ماضی

نظرؔ حیرت ہے پھر بھی اس کی تابانی نہیں جاتی


محمد عبد الحمید صدیقی نظر لکھنوی


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...