Urdu Deccan

Tuesday, July 6, 2021

ذوالفقار علی بخاری

 یوم پیدائش 06 جولائی 1904


گم کردہ راہ خاک بسر ہوں ذرا ٹھہر

اے تیز رو غبار سفر ہوں ذرا ٹھہر


رقص نمود یک دو نفس اور بھی سہی

دوش ہوا پہ مثل شرر ہوں ذرا ٹھہر


اپنا خرام تیز نہ کر اے نسیم زیست

بجھنے کو ہوں چراغ سحر ہوں ذرا ٹھہر


وہ دن قریب ہے کہ میں آنکھوں کو موند لوں

یعنی ہلاک ذوق نظر ہوں ذرا ٹھہر


اے دوست میری تلخ نوائی پہ تو نہ جا

شیریں مثال خواب سحر ہوں ذرا ٹھہر


جس راہ سے اٹھا ہوں وہیں بیٹھ جاؤں گا

میں کارواں کی گرد سفر ہوں ذرا ٹھہر


اے شہسوار حسن مجھے روند کر نہ جا

واماندہ مثل راہ گزر ہوں ذرا ٹھہر


اے آفتاب حسن مری کیا بساط ہے

دریوزہ گر ہوں نور قمر ہوں ذرا ٹھہر 


موہوم سی امید ہوں مجھ سے گریز کیا

اپنی کسی دعا کا اثر ہوں ذرا ٹھہر


ذوالفقار علی بخاری 


ہارون علی ماجدؔ عادل آبادی

 خود نمائی کا نشہ دل سے اتر جانے کے بعد

زندگی چیز ہے کیا جانا بکھر جانے کے بعد


حوصلہ یار کبھی کم نہیں ہونے دینا 

جیت پانا ترا ممکن نہیں ڈر جانے کے بعد


لوٹ کر آتا نہیں وقت سنبھل جاؤ ابھی

ہاتھ ملنا نہ پڑے وقت گذر جانے کے بعد


چاہے تریاق ہو یا زہر ہو یا مے یا دوا

رنگ لاتی نہیں شے کوئی اثر جانے کے بعد


تھی روانی تو بہت شور مچاتا تھا جو

کتنا خاموش ہے وہ دریا ٹھہر جانے کے بعد


جب برے تھے تو کسی نے بھی نہیں کی تنقید

لوگ تنقید بھی کرتے ہیں سدھر جانے کے بعد


چاہے بادۂِ محبت ہو یا مے صبر کی ہو

یار پیمانہ چھلک جاتا ہے بھر جانے کے بعد


کر گزر کام کوئی ایسا کہ دنیا ماجدؔ

یاد تجھ کو رکھے صدیوں ترے مر جانے کے بعد


ہارون علی ماجدؔ عادل آبادی


انور جلال پوری

 یوم پیدائش 06 جولائی 1947


پرایا کون ہے اور کون اپنا سب بھلا دیں گے

متاع زندگانی ایک دن ہم بھی لٹا دیں گے


تم اپنے سامنے کی بھیڑ سے ہو کر گزر جاؤ

کہ آگے والے تو ہرگز نہ تم کو راستہ دیں گے


جلائے ہیں دیئے تو پھر ہواؤں پر نظر رکھو

یہ جھونکے ایک پل میں سب چراغوں کو بجھا دیں گے


کوئی پوچھے گا جس دن واقعی یہ زندگی کیا ہے

زمیں سے ایک مٹھی خاک لے کر ہم اڑا دیں گے


گلہ شکوہ حسد کینہ کے تحفے میری قسمت ہیں

مرے احباب اب اس سے زیادہ اور کیا دیں گے


مسلسل دھوپ میں چلنا چراغوں کی طرح جلنا

یہ ہنگامے تو مجھ کو وقت سے پہلے تھکا دیں گے


اگر تم آسماں پر جا رہے ہو شوق سے جاؤ

مرے نقش قدم آگے کی منزل کا پتا دیں گے


انور جلال پوری


محبوب خزاں

 یوم پیدائش 01 جولائی 1930


ہر بات یہاں بات بڑھانے کے لیے ہے

یہ عمر جو دھوکا ہے تو کھانے کے لیے ہے


یہ دامن‌ حسرت ہے وہی خواب گریزاں

جو اپنے لیے ہے نہ زمانے کے لیے ہے


اترے ہوئے چہرے میں شکایت ہے کسی کی

روٹھی ہوئی رنگت ہے منانے کے لیے ہے


غافل تری آنکھوں کا مقدر ہے اندھیرا

یہ فرش تو راہوں میں بچھانے کے لیے ہے


گھبرا نہ ستم سے نہ کرم سے نہ ادا سے

ہر موڑ یہاں راہ دکھانے کے لیے ہے


محبوب خزاں


رمزی آثم

 یوم پیدائش 01 جولائی 1975


عشق تھا اور عقیدت سے ملا کرتے تھے

پہلے ہم لوگ محبت سے ملا کرتے تھے


روز ہی سائے بلاتے تھے ہمیں اپنی طرف

روز ہم دھوپ کی شدت سے ملا کرتے تھے


صرف رستہ ہی نہیں دیکھ کے خوش ہوتا تھا

در و دیوار بھی حسرت سے ملا کرتے تھے


اب تو ملنے کے لیے وقت نہیں ملتا ہے

ورنہ ہم کتنی سہولت سے ملا کرتے تھے


رمزی آثم


عنبر بہرائچی

 یوم پیدائش 05 جولائی 1949


گلاب تھا نہ کنول پھر بدن وہ کیسا تھا

کہ جس کا لمس بہاروں میں رنگ بھرتا تھا


جہاں پہ سادہ دلی کے مکیں تھے کچھ پیکر

وہ جھونپڑا تھا مگر پر شکوہ کتنا تھا


مشام جاں سے گزرتی رہی ہے تازہ ہوا

ترا خیال کھلے آسمان جیسا تھا


اسی کے ہاتھ میں تمغے ہیں کل جو میداں میں

ہماری چھاؤں میں اپنا بچاؤ کرتا تھا


یہ سچ ہے رنگ بدلتا تھا وہ ہر اک لمحہ

مگر وہی تو بہت کامیاب چہرا تھا


ہر اک ندی سے کڑی پیاس لے کے وہ گزرا

یہ اور بات کہ وہ خود بھی ایک دریا تھا


وہ ایک جست میں نظروں سے دور تھا عنبرؔ

خلا میں صرف سنہرا غبار پھیلا تھا


عنبر بہرائچی


زرینہ ثانی

 یوم پیدائش 05 جولائی 1936


تو اپنے جیسا اچھوتا خیال دے مجھ کو

میں تیرا عکس ہوں اپنا جمال دے مجھ کو


میں ٹوٹ جاؤں گی لیکن نہ جھک سکوں گی کبھی

مجال ہے کسی پیکر میں ڈھال دے مجھ کو


میں اپنے دل سے مٹاؤں گی تیری یاد مگر

تو اپنے ذہن سے پہلے نکال دے مجھ کو


میں سنگ کوہ کی مانند ہوں نہ بکھروں گی

نہ ہو یقیں جو تجھے تو اچھال دے مجھ کو


خوشی خوشی بڑھوں کھو جاؤں تیری ہستی میں

انا کے خوف سے ثانیؔ نکال دے مجھ کو


زرینہ ثانی


سردار انجم

 یوم پیدائش 01 جولائی 1941


غم حیات کا جھگڑا مٹا رہا ہے کوئی

چلے بھی آؤ کہ دنیا سے جا رہا ہے کوئی


کہو اجل سے ذرا دو گھڑی ٹھہر جائے

سنا ہے آنے کا وعدہ نبھا رہا ہے کوئی


وہ آج لپٹے ہیں کس نازکی سے لاشے سے

کہ جیسے روٹھے ہوؤں کو منا رہا ہے کوئی


کہیں پلٹ کے نہ آ جائے سانس نبضوں میں

حسین ہاتھوں سے میت سجا رہا ہے کوئی


سردار انجم


جلی امروہوی

 یوم پیدائش 04 جولائی 1922


دل ہے وابستہ مرا حسرت ناکام کے ساتھ

تازہ ہو جاتے ہیں سب زخم ترے نام کے ساتھ


اس نے ہر حلق تمنا پہ چلایا خنجر

یوں ہے پیکار مری گردش ایام کے ساتھ


درد الفت مرا کرتا ہے ترنم ریزی

کرنیں رو رو کے گلے ملتی ہیں جب شام کے ساتھ


سنگ بن جاتا اگر میں بھی برائے عشرت

زندگی پھر تو گزرتی بڑے آرام کے ساتھ


ہر جہت سے رہا دنیا میں سراسر ناکام

جی رہا ہوں میں خوشی سے اسی الزام کے ساتھ


راہیٔ زیست اگر عزم سفر ہے پرجوش

پھر تو وابستہ ہے منزل ترے ہر گام کے ساتھ


یہ بنا دیتا ہے انساں کو مکمل پتھر

یوں رہی دہر میں نفرت مجھے آرام کے ساتھ


آتش غم نے تپا کر کیا کندن مجھ کو

اسی باعث تو جلیؔ عشق ہے آلام کے ساتھ


جلی امروہوی


صابر عثمانی

 یوم پیدائش 04 جولائی 1979


کچھ اس طرح سے تمہاری میں بات کاٹوں گا

بچھڑ کے تم سے اکیلے حیات کاٹوں گا


تمہارا نام نہ بدنام ہونے دونگا کبھی 

کرونگا چاک گریباں نہ ہاتھ کاٹوں گا

 

تم اپنے چاہنے والوں میں شاد شاد رہو

تمام عمر میں اب غم کے ساتھ کاٹوں گا


یہاں وہاں مری آوارگی پھرائے مجھے

پتہ نہیں ہے کہاں اب یہ رات کاٹوں گا


بدن سے روح نکلنے میں ہوگی جب تکلیف

وہ لمحہ کیسے میں وقتِ ممات کاٹوں گا


پہاڑ کاٹنے والے تو کب کا کاٹ چکے

ترے بغیر میں کوہِ حیات کاٹوں گا


مجھے پکارنے والے نہیں رہے صابر

سو اس کے شہر میں دن بےثبات کاٹوں گا


صابر عثمانی


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...