Urdu Deccan

Friday, July 16, 2021

ماجد دیوبندی

 یوم پیدائش 07 جولائی 1964


آسماں کی رفعتوں سے طرز یاری سیکھ لو

سر اٹھا کر چلنے والو خاکساری سیکھ لو


پیش خیمہ ہیں تنزل کا تکبر اور غرور

مرتبہ چاہو تو پہلے انکساری سیکھ لو


خود بدل جائے گا نفرت کی فضاؤں کا مزاج

پیار کی خوشبو لٹاؤ مشکباری سیکھ لو


چن لو قرطاس و قلم یا تیغ کر لو انتخاب

کوئی فن اپناؤ لیکن شاہکاری سیکھ لو


پھر تمہارے پاؤں چھونے خود بلندی آئے گی

سب دلوں پر راج کر کے تاج داری سیکھ لو


عشق کا میدان آساں تو نہیں ہے محترم

عشق کرنا ہی اگر ہے غم شعاری سیکھ لو


جس شجر کی چھاؤں ہو ماجدؔ زمانے کے لئے

کیسے ہوگی اس شجر کی آبیاری سیکھ لو


ماجد دیوبندی


گلزار دہلوی

 یوم پیدائش 07 جولائی 1926


عمر جو بے خودی میں گزری ہے

بس وہی آگہی میں گزری ہے


کوئی موج نسیم سے پوچھے

کیسی آوارگی میں گزری ہے


ان کی بھی رہ سکی نہ دارآئی

جن کی اسکندری میں گزری ہے


آسرا ان کی رہبری ٹھہری

جن کی خود رہزنی میں گزری ہے


آس کے جگنوؤ سدا کس کی

زندگی روشنی میں گزری ہے


ہم نشینی پہ فخر کر ناداں

صحبت آدمی میں گزری ہے


یوں تو شاعر بہت سے گزرے ہیں

اپنی بھی شاعری میں گزری ہے


میر کے بعد غالب و اقبال

اک صدا، اک صدی میں گزری ہے


گلزار دہلوی


تلوک چند محروم

 یوم پیدائش 01 جولائی 1887


دست خرد سے پردہ کشائی نہ ہو سکی

حسن ازل کی جلوہ نمائی نہ ہو سکی


رنگ بہار دے نہ سکے خارزار کو

دست جنوں میں آبلہ سائی نہ ہو سکی


اے دل تجھے اجازت فریاد ہے مگر

رسوائی ہے اگر شنوائی نہ ہو سکی


مندر بھی صاف ہم نے کئے مسجدیں بھی پاک

مشکل یہ ہے کہ دل کی صفائی نہ ہو سکی


فکر معاش و عشق بتاں یاد رفتگاں

ان مشکلوں سے عہد برآئی نہ ہو سکی


غافل نہ تجھ سے اے غم عقبیٰ تھے ہم مگر

دام غم جہاں سے رہائی نہ ہو سکی


منکر ہزار بار خدا سے ہوا بشر

اک بار بھی بشر سے خدائی نہ ہو سکی


خود زندگی برائی نہیں ہے تو اور کیا

محرومؔ جب کسی سے بھلائی نہ ہو سکی


تلوک چند محروم


فیضان رضا

 مرا تو کوئی غم تازہ نہیں ہے

مجھے فرقت کا پچھتاوا نہیں ہے


کہیں پر ہم اذیّت پی گئے ہیں

کہیں پر ساغر و مینا نہیں ہے


مقفّل ہو چکی راہِ محبّت

اور اس کا قیس کو صدمہ نہیں ہے


ضرورت سے سوا رختِ سفر ہو

فقیری میں یہ کام اچھا نہیں ہے


کسی کی یاد میں بکھرا ہوا ہوں

کہ دھوکے سے یہ دل بیٹھا نہیں ہے


تماشا ختم ہونے جا رہا ہے

رضا کس آنکھ میں دریا نہیں ہے ؟


فیضان رضا


Tuesday, July 6, 2021

محمد مشرف خاور

 یوم پیدائش 06 جولائی 


نظر کے پاس رہ کر بھی پہنچ سے دور ہو جانا

محبت میں اسے کہتے ہیں ہم مجبور ہو جانا


خوشا اے دل مداوا ان کے زخموں کا نہیں ورنہ

کہاں ہر زخم کی قسمت میں ہے ناسور ہو جانا


بڑھانا اس طرح سے بے قراری اور بھی دل کی

جھلک عشاق کو دکھلا کے پھر مستور ہو جانا


محبت کا ہمارا دائرہ بس اتباع تک ہے

ہمیں زیبا نہیں ہے سرمد و منصور ہو جانا


نظر چھلکے نہ چھلکے منحصر ہے ظرف پر لیکن

ہے پہلی شرط دل کا درد سے معمور ہو جانا


نظر کو تاب نظارہ رہی ہے تیرے جلووں کی

کہ لازم تو نہیں ہر جلوہ گہ کا طور ہو جانا


تجھے پا لینے کا احساس اس کو کہتے ہیں شاید

ترے عارض کو چھو کر زلف کا مغرور ہو جانا


ہمیں کیا راس آئے بادہ و ساغر کہ اپنا تو

نگاہوں پہ ہے ان کی منحصر مخمور ہو جانا


لباس خاک ہی سے جب مری ساری فضیلت ہے

تو کیوں کر زیب ہے مجھ کو بھلا پھر نور ہو جانا


احمد مشرف خاور


ذوالفقار علی بخاری

 یوم پیدائش 06 جولائی 1904


گم کردہ راہ خاک بسر ہوں ذرا ٹھہر

اے تیز رو غبار سفر ہوں ذرا ٹھہر


رقص نمود یک دو نفس اور بھی سہی

دوش ہوا پہ مثل شرر ہوں ذرا ٹھہر


اپنا خرام تیز نہ کر اے نسیم زیست

بجھنے کو ہوں چراغ سحر ہوں ذرا ٹھہر


وہ دن قریب ہے کہ میں آنکھوں کو موند لوں

یعنی ہلاک ذوق نظر ہوں ذرا ٹھہر


اے دوست میری تلخ نوائی پہ تو نہ جا

شیریں مثال خواب سحر ہوں ذرا ٹھہر


جس راہ سے اٹھا ہوں وہیں بیٹھ جاؤں گا

میں کارواں کی گرد سفر ہوں ذرا ٹھہر


اے شہسوار حسن مجھے روند کر نہ جا

واماندہ مثل راہ گزر ہوں ذرا ٹھہر


اے آفتاب حسن مری کیا بساط ہے

دریوزہ گر ہوں نور قمر ہوں ذرا ٹھہر 


موہوم سی امید ہوں مجھ سے گریز کیا

اپنی کسی دعا کا اثر ہوں ذرا ٹھہر


ذوالفقار علی بخاری 


ہارون علی ماجدؔ عادل آبادی

 خود نمائی کا نشہ دل سے اتر جانے کے بعد

زندگی چیز ہے کیا جانا بکھر جانے کے بعد


حوصلہ یار کبھی کم نہیں ہونے دینا 

جیت پانا ترا ممکن نہیں ڈر جانے کے بعد


لوٹ کر آتا نہیں وقت سنبھل جاؤ ابھی

ہاتھ ملنا نہ پڑے وقت گذر جانے کے بعد


چاہے تریاق ہو یا زہر ہو یا مے یا دوا

رنگ لاتی نہیں شے کوئی اثر جانے کے بعد


تھی روانی تو بہت شور مچاتا تھا جو

کتنا خاموش ہے وہ دریا ٹھہر جانے کے بعد


جب برے تھے تو کسی نے بھی نہیں کی تنقید

لوگ تنقید بھی کرتے ہیں سدھر جانے کے بعد


چاہے بادۂِ محبت ہو یا مے صبر کی ہو

یار پیمانہ چھلک جاتا ہے بھر جانے کے بعد


کر گزر کام کوئی ایسا کہ دنیا ماجدؔ

یاد تجھ کو رکھے صدیوں ترے مر جانے کے بعد


ہارون علی ماجدؔ عادل آبادی


انور جلال پوری

 یوم پیدائش 06 جولائی 1947


پرایا کون ہے اور کون اپنا سب بھلا دیں گے

متاع زندگانی ایک دن ہم بھی لٹا دیں گے


تم اپنے سامنے کی بھیڑ سے ہو کر گزر جاؤ

کہ آگے والے تو ہرگز نہ تم کو راستہ دیں گے


جلائے ہیں دیئے تو پھر ہواؤں پر نظر رکھو

یہ جھونکے ایک پل میں سب چراغوں کو بجھا دیں گے


کوئی پوچھے گا جس دن واقعی یہ زندگی کیا ہے

زمیں سے ایک مٹھی خاک لے کر ہم اڑا دیں گے


گلہ شکوہ حسد کینہ کے تحفے میری قسمت ہیں

مرے احباب اب اس سے زیادہ اور کیا دیں گے


مسلسل دھوپ میں چلنا چراغوں کی طرح جلنا

یہ ہنگامے تو مجھ کو وقت سے پہلے تھکا دیں گے


اگر تم آسماں پر جا رہے ہو شوق سے جاؤ

مرے نقش قدم آگے کی منزل کا پتا دیں گے


انور جلال پوری


محبوب خزاں

 یوم پیدائش 01 جولائی 1930


ہر بات یہاں بات بڑھانے کے لیے ہے

یہ عمر جو دھوکا ہے تو کھانے کے لیے ہے


یہ دامن‌ حسرت ہے وہی خواب گریزاں

جو اپنے لیے ہے نہ زمانے کے لیے ہے


اترے ہوئے چہرے میں شکایت ہے کسی کی

روٹھی ہوئی رنگت ہے منانے کے لیے ہے


غافل تری آنکھوں کا مقدر ہے اندھیرا

یہ فرش تو راہوں میں بچھانے کے لیے ہے


گھبرا نہ ستم سے نہ کرم سے نہ ادا سے

ہر موڑ یہاں راہ دکھانے کے لیے ہے


محبوب خزاں


رمزی آثم

 یوم پیدائش 01 جولائی 1975


عشق تھا اور عقیدت سے ملا کرتے تھے

پہلے ہم لوگ محبت سے ملا کرتے تھے


روز ہی سائے بلاتے تھے ہمیں اپنی طرف

روز ہم دھوپ کی شدت سے ملا کرتے تھے


صرف رستہ ہی نہیں دیکھ کے خوش ہوتا تھا

در و دیوار بھی حسرت سے ملا کرتے تھے


اب تو ملنے کے لیے وقت نہیں ملتا ہے

ورنہ ہم کتنی سہولت سے ملا کرتے تھے


رمزی آثم


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...