Urdu Deccan

Saturday, July 17, 2021

ساغر مہدی

 وم پیدائش 14 جولائی 1936


ذہن بے سمت خیالوں کا نشانہ ہے یہاں

زندگی جیسے یوں ہی ٹھوکریں کھانا ہے یہاں


نغمہ نوحہ ہے یہاں چیخ ترانہ ہے یہاں

بات سو ڈھنگ سے کرنے کا بہانہ ہے یہاں


قہقہہ اپنی تباہی پہ لگانا ہے یہاں

اس خزانہ کو بہر حال لٹانا ہے یہاں


کل کتب خانوں کی ہم لوگ بھی رونق ہوں گے

ہر حقیقت کے مقدر میں فسانہ ہے یہاں


اس خرابے سے نکل کر لب دریا کیا جائیں

ایک قطرے میں سمندر کا فسانا ہے یہاں


کیسے بے حرف و صدا درد کی روداد کہیں

ایک ایک لفظ تو صدیوں کا پرانا ہے یہاں


گھر سے گھبرا کے جو نکلا تو یہ بولی دہلیز

پاؤں شل ہوں گے تو پھر لوٹ کے آنا ہے یہاں


ہر طرف سوچ میں ڈوبے ہوئے یکساں چہرے

جیسے ہر چار طرف آئینہ خانہ ہے یہاں


ساغر مہدی


حمایت علی شاعر

 یوم پیدائش 14 جولائی 1926


ہر قدم پر نت نئے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں لوگ

دیکھتے ہی دیکھتے کتنے بدل جاتے ہیں لوگ 


کس لیے کیجے کسی گم گشتہ جنت کی تلاش

جب کہ مٹی کے کھلونوں سے بہل جاتے ہیں لوگ 


کتنے سادہ دل ہیں اب بھی سن کے آواز جرس

پیش و پس سے بے خبر گھر سے نکل جاتے ہیں لوگ 


اپنے سائے سائے سرنہوڑائے آہستہ خرام

جانے کس منزل کی جانب آج کل جاتے ہیں لوگ 


شمع کے مانند اہل انجمن سے بے نیاز

اکثر اپنی آگ میں چپ چاپ جل جاتے ہیں لوگ 


شاعرؔ ان کی دوستی کا اب بھی دم بھرتے ہیں آپ

ٹھوکریں کھا کر تو سنتے ہیں سنبھل جاتے ہیں لوگ


حمایت علی شاعر


Friday, July 16, 2021

جبار واصف

 یوم پیدائش 13 جولائی 1975


عجیب خواب تھا ہم باغ میں کھڑے ہوئے تھے

ہمارے سامنے پھولوں کے سر پڑے ہوئے تھے


برہنہ تتلیاں رقصاں تھیں عریاں شاخوں پر

زمیں میں سارے شجر شرم سے گڑے ہوئے تھے


تمام پات تھے نیلے بزرگ برگد کے

اسی کو ڈسنے سے سانپوں کے پھن بڑے ہوئے تھے


ضعیف پیڑ تھے بوڑھی ہوا سے شرمندہ

جواں پرندے کسی بات پر اڑے ہوئے تھے


نہ کوئی نغمۂ بلبل نہ کوئی نغمۂ گل

خدائے صبح سے سب خوش گلو لڑے ہوئے تھے


پھر ایک قبر ہوئی شق تو اس میں تھے دو دل

اور ان دلوں میں محبت کے نگ جڑے ہوئے تھے


وہیں پہ سامنے واصفؔ تھا ایک قبرستاں

جہاں یہاں وہاں سب نامور سڑے ہوئے تھے


جبار واصف


افق لکھنؤی

 یوم پیدائش 13 جولائی 1864


ہمارے زخم میں ٹھنڈک لہو سے ہوتی رہتی ہے

تسّلی دل کی تکلیفِ رفو سے ہوتی رہتی ہے


زمانہ قدر داں ہوتا ہے صورت اور سیرت کا

گلوں کی قدر جیسے رنگ و بو سے ہوتی رہتی ہے


نہیں تکلیف سے خالی کسی کا پھولنا پھلنا

شجر پر سنگ باری چار سو سے ہوتی رہتی ہے


جو میں آپ آپ کہتا ہوں حقارت وہ سمجھتے ہیں

مری عزت فزائی لفظ ” تُو “ سے ہوتی رہتی ہے


قناعت کرتی رہتی ہے جو سیپی اگر نیساں پر

بسر دُرِّ عدن کی آبرو سے ہوتی رہتی ہے 


ہے مجھ پہ مہرباں اس قدر تکلیف زنداں کی

کہ خم گردن میری طوق گلو سے ہوتی رہتی ہے


میانِ میکدہ جب دیر تک ساقی نہیں ملتا

تشفی رند کی جام و سبو سے ہوتی رہتی ہے


افق کی میکشی کی حافظِ شیراز کی صورت

زمانے میں شہرت لکھنؤ سے ہوتی رہتی ہے 


افق لکھنؤی


ایس ڈی عابد

 یوم پیدائش 13 جولائی 1969


عین ممکن تھا کسی رنگ میں ڈھالے جاتے

گر ترے درد مرے دل سے سنبھالے جاتے


میں جو آدابِ محبت سے شناسا ہوتا

تیری محفل میں دیئے میرے حوالے جاتے


تم اگر کرتے حمایت میں مری لفظ ادا

میری ہر بات میں کیوں نقص نکالے جاتے


مجھ کو دولت سے اگر رب نے نوازا ہوتا

عیب میرے نہ زمانے میں اُچھالے جاتے


میں نے اچھا ہی کیا دوست بنائے ہی نہیں 

آستینوں میں کہاں مجھ سے یہ پالے جاتے


تُو بھی کہتا کہ وفادار ہے عابدؔ تیرا 

تیرے ارشاد اگر مجھ سے نہ ۔۔۔ ٹالے جاتے


 ایس،ڈی،عابدؔ


حنا کوثر

 حَشمت و جَاہ کی توقِیر بدل جاتی ہے

بَخت ڈَھل جاتے ہیں ' تقدیر بدل جاتی ہے


وَجد میں ہوش کہاں رہتا ہے دِیوانے کو

رَقص میں پاؤں کی زنجیر بدل جاتی ہے


روز بدلے ہوئے لگتے ہیں مَنَاظَر مُجھ کو

روز ہی شہر کی تعمِیر بدل جاتی ہے


میں بناتی ہوں جوانی کے خَد و خَال مگر

عُمر ڈَھلتی ہے تو تصویر بدل جاتی ہے


تیرے چُھوتے ہی مُحبت کے مسِیحا میرے

جِسم میں خُون کی تاثِیر بدل جاتی ہے


کُچھ بھی رہتا نہیں تادیر مُحبت کے سِوا

نَقش مِٹ جاتے ہیں تحریر بدل جاتی ہے


حنا کوثر


صولت زیدی

 یوم پیدائش 12 جولائی 1936


عادت مری دنیا سے چھپانے کی نہیں تھی

وہ بات بھی کہہ دی جو بتانے کی نہیں تھی


میں خوش ہوں بہت گرد کو آئینے پہ رکھ کر

دی وہ مجھے صورت جو دکھانے کی نہیں تھی


ہم کھا گئے دھوکا تری آنکھوں کی نمی سے

وہ چوٹ دکھا دی جو دکھانے کی نہیں تھی


اچھا ہوا نیند آ گئی ارباب وفا کو

آگے یہ کہانی بھی سنانے کی نہیں تھی


یوں دل کو کیا شعلۂ غم تیرے حوالے

اس گھر میں کوئی چیز بچانے کی نہیں تھی


کچھ اس لئے اپنا نہ سکا اس کو زمانہ

صولتؔ کی جو عادت تھی زمانے کی نہیں تھی


صولت زیدی


اثر لکھنوی

 یوم پیدائش 12 جولائی 1885


حجاب رنگ و بو ہے اور میں ہوں

یہ دھوکا تھا کہ تو ہے اور میں ہوں


مقام بے نیازی آ گیا ہے

وہ جان آرزو ہے اور میں ہوں


فریب شوق سے اکثر یہ سمجھا

کہ وہ بیگانہ خو ہے اور میں ہوں


کبھی سودا تھا تیری جستجو کا

اب اپنی جستجو ہے اور میں ہوں


کبھی دیکھا تھا اک خواب محبت

اب اس کی آرزو ہے اور میں ہوں


فقط اک تم نہیں تو کچھ نہیں ہے

چمن ہے آب جو ہے اور میں ہوں


پھر اس کے بعد ہے اس ہو کا عالم

بس اک حد تک ہی تو ہے اور میں ہوں


اثر لکھنوی


نازش پرتاپ گڑھی

 یوم پیدائش 12 جولائی 1924


پھوٹ چکی ہیں صبح کی کرنیں سورج چڑھتا جائے گا

رات تو خود مرتی ہے ستارو تم کو کون بچائے گا


جو ذرہ جنتا میں رہے گا وہ تارا بن جائے گا

جو سورج ان کو بھولے گا وہ آخر بجھ جائے گا


تنہا تنہا رو لینے سے کچھ نہ بنے گا کچھ نہ بنا

مل جل کر آواز اٹھاؤ پربت بھی ہل جائے گا


مانا آج کڑا پہرا ہے ہم بپھرے انسانوں پر

لیکن سوچو تنکا کب تک طوفاں کو ٹھہرائے گا


کیوں چنتا زنجیروں کی ہتھکڑیوں سے ڈرنا کیسا

تم انگارہ بن جاؤ لوہا خود ہی گل جائے گا


جنتا کی آواز دبا دے یہ ہے کس کے بس کی بات

ہر وہ شیشہ ٹوٹے گا جو پتھر سے ٹکرائے گا


پونجی پتیو یاد رکھو وہ دن بھی اب کچھ دور نہیں

بند تجوری میں ہر سکہ انگارہ بن جائے گا


دکھ میں رونا دھونا کیسا مورکھ انساں ہوش میں آ

تو اس بھٹی میں تپ تپ کر کندن بنتا جائے گا


تن کے ناسوروں کو اجلے کپڑوں سے ڈھانپا لیکن

کس پردے میں لے جا کر تو من کا کوڑھ چھپائے گا


کس نے سمجھا ہے ڈھلتے سورج کا یہ سندیش یہاں

جو بھی بول بڑا بولے گا اک دن منہ کی کھائے گا


نازش پرتاپ گڑھی


دعبل شاہدی

 وہ حرف حرف سبھی کے سخن میں رہتا تھا

عجیب شخص تھا ہر انجمن میں رہتا تھا


اُسے نہ ڈھونڈ سکی آج تک کسی کی نظر 

وہ آفتاب کی ہر اک کرن میں میں رہتا تھا


میں اُس کے عشق کی گہرائیاں سمجھ نہ سکا

وہ عطر بن کی میرے پیراہن میں رہتا تھا


اُسی کا نام مہکتا تھا میری سانسوں میں 

وہ بوئے گُل کی طرح جو چمن رہتا تھا 


خزاں نے لوٹ لیا آ کے اُس گلِ تر کو 

کہ جس کا سارا قبیلہ چمن میں رہتا تھا


وہ میری فکر کی دنیا کا بن گیا موضوع

جو میری وسعتِ ذوقِ سخن میں رہتا تھا


لرزنے لگتی تھیں روحیں بھی سورماؤں کی 

قدم جمائے ہوے جب وہ رن میں رہتا تھا 

 

یقیں کسی کا کسی کا گماں تھا وہ دعبل

کسی کے دل میں کسی کے دہن میں رہتا تھا


دعبل شاہدی


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...