وم پیدائش 14 جولائی 1936
ذہن بے سمت خیالوں کا نشانہ ہے یہاں
زندگی جیسے یوں ہی ٹھوکریں کھانا ہے یہاں
نغمہ نوحہ ہے یہاں چیخ ترانہ ہے یہاں
بات سو ڈھنگ سے کرنے کا بہانہ ہے یہاں
قہقہہ اپنی تباہی پہ لگانا ہے یہاں
اس خزانہ کو بہر حال لٹانا ہے یہاں
کل کتب خانوں کی ہم لوگ بھی رونق ہوں گے
ہر حقیقت کے مقدر میں فسانہ ہے یہاں
اس خرابے سے نکل کر لب دریا کیا جائیں
ایک قطرے میں سمندر کا فسانا ہے یہاں
کیسے بے حرف و صدا درد کی روداد کہیں
ایک ایک لفظ تو صدیوں کا پرانا ہے یہاں
گھر سے گھبرا کے جو نکلا تو یہ بولی دہلیز
پاؤں شل ہوں گے تو پھر لوٹ کے آنا ہے یہاں
ہر طرف سوچ میں ڈوبے ہوئے یکساں چہرے
جیسے ہر چار طرف آئینہ خانہ ہے یہاں
ساغر مہدی